واٹر مین

یہ کوئی پندرہ سولہ برس پہلے کی بات ہے، میں ان دنوں لاہور کے ایک اخبار کے نیوز روم میں کام کر رہا تھا۔ سٹی ڈیسک پر ڈیوٹی لگی تھی، زیادہ تر صف دوم کے لیڈروں کے بیانات اور پریس ریلیزوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ نیوز روم میں کام کرنا تھکا دینے والا، مگر دلچسپ تجربہ ہے۔ جن صحافیوں کو نیوز روم میں کام کرنے کا موقعہ نہیںملا، مجھے لگتا ہے ان میں ایک آنچ کی کسر باقی رہ جاتی ہے۔ سٹی ڈیسک پرسب سے زیادہ پریس ریلیز آیا کرتیں۔اس ڈھیر میں ہفتہ دس دن بعد دو ڈھائی صفحات پر مشتمل ایک فیکس بھی ہوتا ، جس میں کسی ریٹائرڈ انجینئر کا پانی کی قلت اور زیر زمین پانی کی گرتی سطح بلند کرنے کے حوالے سے مشورے اور تجاویزموجود ہوتیں۔ ایک دو بار میں نے پڑھاتو دلچسپ اور منطقی آئیڈیاز لگے۔ ہمارے سٹی انچارج کی رائے البتہ یکسر مختلف تھی۔ایک لمحہ ضائع کئے بغیر وہ بولے، ''اس خبطی بابے کا فیکس ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرو۔‘‘احتجاجی نظروں سے دیکھا تو جواب ملا، ''یہ بابا ریٹائرڈ انجینئر ہے، گھر بیٹھا‘ ایسے مضامین لکھ لکھ کر بھجواتا رہتا ہے، ہمارے پاس ایسی چیزیں چھاپنے کے لئے جگہ نہیں ۔ ‘‘بات ختم ہوگئی، اتنا عرصہ گزر گیا، معلوم نہیں کہ وہ بزرگوار زندہ ہیں یا دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگلے روز اخبار میں ایک خبر پڑھ کر مجھے ان کی تجاویز یاد آئیں۔ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے ایک معروف بھارتی سماجی کارکن راجندر کمارکو'' سٹاک ہوم واٹر پرائز‘‘ سے نوازا گیا ہے۔ یہ انعام اپنی اہمیت کے حوالے سے نوبیل انعام کے برابر ہے۔ راجندر کمار نے بھارتی ریاست راجستھان کے ضلع الور کی بنجر زمین کاشت کرنے اورزیرزمین پانی کی سطح بلند کرنے کے لئے وہ تمام روایتی طریقے استعمال کئے، جو صدیوں سے کسان برت رہے تھے۔ انٹرنیٹ پر ریسرچ کی تو معلوم ہوا کہ راجندر کمار نے ان تمام آئیڈیاز کو استعمال کیا، جنہیں لاہور کاوہ ریٹائرڈ انجینئر اخبارات میں لکھ لکھ کر بھجواتا اور جو ردی کی ٹوکری کا حصہ بن جاتے۔ راجندر کمار کا انقلاب لانا ایک الگ کہانی ہے ہی،مگر خود راجندر کمار کسی چلتے پھرتے انقلاب سے کم نہیں۔
راجندر کمار میرٹھ، اترپردیش کے ایک گائوں کا رہنے والا ہے۔ لڑکپن میں اسے ایک انوکھے تجربے سے گزرنا پڑا۔ 74ء میں جب راجندر کمار ہائی سکول میں تھا، انہی دنوں ایک سماجی کارکن رمیش کمار ان کے گائوں آیا۔ رمیش گاندھی پیس فائونڈیشن نامی ایک تنظیم کا رُکن تھا۔ رمیش کمارنے کچھ عرصہ ان کے گائوں میں قیام کیا اور اس کا نقشہ ہی بدل ڈالا۔ لڑکوں بالوں کو اکٹھا کر کے اس نے گلیوں کی صفائی کی، لائبریری قائم کی اور مقامی تنازعات نمٹائے۔ نوعمر راجندر کے ذہن پر رمیش کمار کی اصلاحات اور سماجی انقلاب لانے کے ایجنڈے کا گہرا اثر ہوا۔ رمیش کمار تو کسی دوسرے گائوں کی جانب چل دیا، مگر راجندر کمار کے ذہن میں اس نے ایسا بیج بو یا، جس نے اس کی آئندہ زندگی کا دھارا ہی بدل ڈالا۔ راجندر کمار کا ایک سکول ٹیچر اپنے شاگردوں سے سیاسی اور سماجی ایشوز پر کلاس کے بعد گفتگو کرتا رہتا۔ گپ شپ کے دوران اس نے غیر محسوس انداز میں راجندر کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز تبدیل کیا اور یہ احساس دلایا کہ اپنی تمام صلاحیتوں کو ایک خوشحال زندگی گزارنے کے لئے صرف کرنا کافی نہیں، سماج میں بہتری لانے کی جدوجہد کرنا بھی بہت ضروری ہے۔تبدیلی سیاسی جدوجہد کے ذریعے بھی آتی ہے، مگر زیادہ اہم سطح سماجی تبدیلی ہے۔ راجندر کمارنے قدیم ہندوستانی طب ایور ویدک سیکھنے کا فیصلہ کیا اور ایک کالج سے ڈگری لی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے اس نے سرکاری ملازمت اختیار کی اور تعلیم بالغاں کے ایک پروگرام پر کام کرتا رہا۔ اسی دوران اس نے جے پور یونیورسٹی کے سابق طلبہ کی بنائی ہوئی سماجی تنظیم ترن بھارت سنگھا (TBS) جوائن کر لی۔ راجندر کمار اس قدر متحرک اور فعال تھا کہ جلد ہی اسے قیادت سونپ دی گئی۔ دو تین سال وہ مختلف قسم کے سماج سدھار پروگراموں میں جتا رہا، مگر اسے احساس ہوا کہ کوشش کے باوجود کچھ نہیں ہو پا رہا۔ مایوس ہو کر اس نے اپنا تمام سامان تئیس ہزار روپے میں فروخت کیا اور راجستھان کے دیہاتی روٹ پر چلنے والی ایک بس کے آخری سٹاپ کی ٹکٹ خرید کر بیٹھ گیا۔ نامعلوم دیاروںکے اس سفر میںترن بھارت سنگھا کے چار ساتھی بھی شریک تھے۔ بس کا آخری سٹاپ الور ضلع کا ایک گائوں کشوری تھا۔یہ 2 اکتوبر1985ء کا دن تھا۔ راجندر کمار اور اس کے دوست بس سے اترے اور وہیںرہائش اختیار کر لی۔راجندر کمار نے قریبی گائوں گوپال پورہ میں ایورویدک مطب کھول لیا، جبکہ اس کے ساتھی گائوں والوں کو تعلیم دینے میں جت گئے۔
گوپال پورہ اور الور کے بیشتر دیہات پانی کی قلت کا شکار تھے۔الور بھارت کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں گرمیوں میں ٹمپریچر پچاس ڈگری سنٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔ موسمی تبدیلی اس ضلع پر بری طرح اثرانداز ہورہی تھی۔ بارشیں کم ہو رہی تھیں،زیرزمین پانی کی سطح نیچے ہور ہی تھی، کنوئیں خشک ہوگئے۔ دیہاتیوں نے ٹیوب ویل لگا لئے، جس سے پانی اور نیچے ہوگیا، حتیٰ کہ پورا علاقہ خشک اور بنجر ہوگیا۔ راجندر کمارکے پاس ایک روز گائوں کا ایک بوڑھا کسان آیا۔ اس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے چھبیس سالہ راجندر کمار کو کہا، ''میاں! تمہاری نیت اچھی ہوگی، مگر اس علاقے کے غریب لوگوں کو تعلیم یا علاج سے زیادہ پانی کی ضرورت ہے۔ لوگ بھوکے مر رہے ہیں، کھیت اجڑ گئے، زندہ رہنا بھی دشوار ہو رہا ہے۔ کچھ کرنا ہے تو پانی کے سلسلے میں کرو۔‘‘ راجندر کمار کو بات سمجھ آگئی، مگر اسے اس شعبے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، پیسہ تھا نہ تکنیکی مہارت۔ گائوں کے بڑے بوڑھوں کی مشاورت سے اس نے قدیم تکنیک استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بوڑھے نے نوجوان راجندر کمار کو یہ بھی کہاکہ شہری بابوئوں کی طرح بیٹھے رہنے کے بجائے اپنے ہاتھ سے کام کرواورتماشا دیکھنے کے بجائے دھرتی کا حصہ بنو۔ راجندر کمار کے دوست دلبرداشتہ ہو کر واپس چلے گئے، مگر وہ اس نئے محاذ پر ڈٹ گیا۔ا س نے چند لڑکوں کو جمع کیا اور گائوں کا جوہڑ جو مٹی سے اٹ چکا تھا، اسے خالی کیااور پھر گائوں میںنشیبی جگہوں پر ایسے کئی بڑے گہرے گڑھے یا تالاب بنائے، جس کے تین اطراف مٹی کی دیواریں تھیں اور چوتھی طرف اوپر سے بہہ کر نیچے آنے والے بارش کے پانی کے لئے راستہ چھوڑا گیا۔ مون سون کی بارشوں میں یہ سب
تالاب اور جوہڑ پانی سے بھر گئے۔ رفتہ رفتہ یہ پانی رس کر نیچے جاتا رہا اور پانی کی سطح بلند ہوگئی۔ ایسے کئی سو تالاب اور جوہڑ بنائے گئے توقریبی دریا بھی چلنے لگا۔ اس علمی معجزے نے آس پاس کے دیہات میں بھی شعور کی لہر دوڑا دی۔ راجندر کمار نے لوگوں کی آگہی کے لئے پیدل یاترا بھی کی۔ راجندر کمار ہر نئے دن نئے نئے آئیڈیاز سوچتا اور انہیں عملی جامہ پہناتا رہا۔ اس نے جو تحریک شروع کی،اس نے حیران کن انقلاب برپا کر دیا۔ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ جوہڑ، تالاب اور چھوٹے ڈیم انہوں نے بنائے، جن سے ایک ہزار دیہات میں پانی آگیا۔ راجستھان کے پانچ دریا(اروری، رپاریل،سرسہ، بھاگانی، جہاجوالی) جو خشک ہوچکے تھے، وہ دوبارہ رواں ہوگئے۔ راجندر کمار کو بے شمار ایوارڈ دئیے گئے۔ اسے راجستھانی لوگ پیار سے جل پرش یعنی واٹر مین کہتے ہیں۔ برطانوی اخبار گارڈین نے دنیا بھر سے پچا س ایسے افراد کی فہرست شائع کی ،جن کی ماحولیات کے حوالے سے جدوجہد دنیا بچا سکتی ہے، راجندر کمار ان میں سے ایک ہے۔ برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ ان پچاس میں سے ایک بھی پاکستانی نہیں۔
واٹرمین یعنی راجندر کمار نے تیزی سے کم ہوتے پانی، زیرزمین گرتی سطح کے حوالے سے جو شعور اور بیداری پھیلائی، اپنی عملی جدوجہد سے ایک ہزار دیہات کے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں، وہ اپنی جگہ ایک معجزہ تو ہے ہی، اس میں ایک واضح سبق بھی موجود ہے۔اس نے بتا دیا کہ تبدیلی لانے کے لئے صرف سیاسی جدوجہد ضروری نہیں، سرمایے کی کثرت بھی لازمی نہیں،آدمی اگر کچھ کر گزرنے کا عزم کر لے تو تبدیلی لانا ممکن ہوجاتا ہے۔ اپنی صلاحیتیں صرف سیاست میں کھپانے والے مخلص لوگوں کو اس کہانی سے سیکھنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں