پانچ وجوہ

سعودی عرب فوج بھیجنے کے حوالے سے پاکستانی قوم اس وقت منقسم ہے۔ اس تقسیم کو بڑھانے میں ہمارے سیاستدانوں اور چھوٹے گروپوں نے بھی اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ ایک طرف حکومتی جماعت کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے معاملے کو پارلیمنٹ لے گئی اور وہاں بھی تفصیلی بریفنگ دینے سے گریز کیا، اس کا نتیجہ کنفیوژن در کنفیوژن کی صورت میں نکلا۔ ایک مبہم اور ناکافی سی قرارداد منظور ہوئی۔ ایسی قرارداد جس نے ہماری کمزور خارجہ پالیسی کے نقائص کو نمایاںکرنے کے ساتھ ساتھ یمن بحران پر پوزیشن واضح کرنے کے بجائے خراب ہی کی۔ مزید خرابی یہ ہوئی کہ سعودی عرب اور ایران کے لیے نرم گوشہ رکھنے والے گروپوں اور مذہبی تنظیموں نے اپنی حمایت ظاہر کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ تحفظ حرمین شریفین کے نام پر تحریک چلانے کا عرب بھائیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اس سے کئی نئے سوالات جنم لیں گے۔ یہ وقت مسلکی مفادات سے اوپر اٹھ کر بطور پاکستانی صورت حال کو دیکھنے، سمجھنے اور اسی کے مطابق اپنے نقطہ نظر کا اظہار کرنے کا ہے۔
غیر جانبدار رہنا یا کوئی فیصلہ نہ کرنا سب سے آسان کام ہے۔ کسی بھی الجھے ہوئے مسئلے پر عمومی ردعمل یہی ہوتا ہے کہ کوئی فیصلہ کن پوزیشن لینے کے بجائے غیرجانبداری کے نام پر خاموشی سے بیٹھ کر تماشا دیکھا جائے۔ سعودی عرب کا کھل کر ساتھ نہ دینے کے حامی سیاستدان، تجزیہ کار اور ماہرین دو تین دلائل دے رہے ہیں۔ عمران خان جیسے رہنما یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ ہم پہلے ہی امریکہ کی (افغانستان میں جنگ) میں پھنس کر بے پناہ جانی ومالی نقصان کر چکے ہیں، اب دوسری جنگ میں الجھنے سے گریز کیا جائے۔ کئی تجزیہ کاروں کو یہ خوف دامن گیر ہے کہ کہیں یمن کا مسئلہ مسلکی لڑائی میں تبدیل نہ ہو جائے۔ بعض ماہرین کے خیال میں ہمیں فریق بننے کے بجائے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
یہ باتیں بے وزن نہیں ہیں، انہیں یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم ممالک کی زندگی میں ایسے پیچیدہ تنازعات اور نازک مراحل آتے ہیں، جب دو مشکل آپشنز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ ایسے مواقع پر دیکھنا یہ پڑتا ہے کہ کون سی آپشن زیادہ بہتر (یعنی کم نقصان دہ) ہے۔ اسی طرح ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب نہ چاہتے ہوئے بھی واضح پوزیشن لینی پڑتی ہے۔ ہمارے خیال میں سعودی عرب کا ساتھ دینا، وہاں فوج بھیجنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس معاملے میں غیرجانبدار رہنا ممکن نہیں، واضح پوزیشن لے کر اپنے عرب دوستوں کی مدد کرنا ہو گی۔ پانچ وجوہ ایسی ہیں، جن کے باعث ہمیں کھل کر سپورٹ کرنے کی آپشن اختیار کرنا ہو گی۔
ماضی: خارجہ امور کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے اس کا منطقی تجزیہ جب بھی کیا جائے تو ماضی، حال اور مستقبل کو سامنے رکھا جائے گا۔ ماضی میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے گہرے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔ سعودی عرب نے ہر معاملے میں علانیہ اور غیر علانیہ پاکستان کی مد د کی، ہر مشکل وقت میں مالی مدد سے لے کر کئی ایسے حساس معاملات میں کھل کر ساتھ دیا جن کے بارے میں اشارتاً بھی بات نہیں کی جا سکتی۔ او آئی سی کے فورم پر بھارت نے سرتوڑ کوشش کی کہ اپنی بیس کروڑ مسلمان آبادی کی بنیاد پر ممبرشپ لے سکے، پاکستان اس کا شدید مخالف تھا۔ اگر سعودی عرب پاکستانی درخواست پر اپنا اثر و رسوخ استعمال نہ کرتا تو بھارت سفارتی معرکہ مار لیتا۔ اس فورم پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے مسلسل قراردادیں منظور ہوئیں، وجہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک کی غیر مشروط سپورٹ تھی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد مفت تیل کی فراہمی کو کون بھول سکتا ہے؟
حال: پاکستان کا عرب بلاک کے ساتھ فطری تعلق اور اتحاد بنتا ہے۔ دراصل جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں، اس میں عرب بلاک کے مفادات اور پاکستانی مفادات میں کوئی فطری تصادم یا ٹکرائو نہیں ہے۔ القاعدہ اور داعش کے ساتھ ہمارے بھی مسائل ہیں اورعرب ممالک کے لیے بھی یہ درد سر ہیں۔ مستقبل کے افغانستان میں ملا عمر اور ان کے طالبان، پاکستان کے فطری اتحادی بنتے نظر آ رہے ہیں، عرب بلاک کا بھی ان کے ساتھ کوئی ٹکرائو نہیں۔ دوسری طرف ایران، شام، عراق، حزب اللہ پر مشتمل جو بلاک تشکیل پا رہا ہے، اس کے ایجنڈے میں پاکستان کی کوئی جگہ نہیں۔ ریجنل سطح پر بھی افغانستان میں پچھلے بیس برسوں سے پاکستان اور ایران دو مخالف سمتوں میں چل رہے ہیں۔ پاکستان، طالبان کا سپورٹر ہے تو ایران ان کا مخالف اور شمالی اتحاد کا پشتیبان رہا ہے۔ ایران کے ساتھ ہمیں خوشگوار تعلقات رکھنے چاہئیں، ان کے ساتھ کشیدگی پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں، مگر ایسا عرب ممالک کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات ختم کر کے نہیں ہونا چاہیے۔
مستقبل: مستقبل پر نظر رکھنا بہت اہم ہے۔ ایران کا ایٹمی ایشو نمٹ چکا، مغرب کا اگلا ہدف پاکستان ہو گا۔ ہمارے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے، امریکی اخبارات اور بی بی سی جیسے عالمی اداروں میں
پاکستانی نیوکلیئر ہتھیاروں کے حوالے سے خبریں اور رپورٹس شائع ہونے لگی ہیں۔ پاکستان پر دبائو بڑھتا جائے گا۔ ان حالات میں عرب بلاک ہی پاکستان کی مدد کو آ سکتا ہے کہ پاکستان کا واحد مسلم نیوکلیئر قوت ہونا ان کے لیے بھی نفسیاتی تقویت کا باعث ہے۔ پھر پاکستان کی مشرقی سرحد پر نریندرمودی کی جارحانہ حکمت عملی نے دبائو بڑھا رکھا ہے۔ یہ معاملہ کسی بھی وقت سنگین ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے اتحادی رفتہ رفتہ کم کر رہے ہیں، اگر سعودی عرب اور اس کے اتحادی بلاک کو بھی ناراض کر لیا تو اس مشکل وقت میں ہماری سفارتی مدد کو کون آ ئے گا؟ جب ہم اپنے دوستوں کے ''زندگی موت کے معاملے‘‘ میں غیر جانبدار رہیں گے تو پھر اپنے بحران میں ان سے کیسے مدد مانگ سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے تو یہ اہم موقع ہے کہ وہ آئوٹ آف دی وے جا کر عربوں کی حمایت کرے اور جب ہمارے گرد گھیرا تنگ ہو تو ہم بھی جواباً ان سے کھل کر ہر قسم کی مدد مانگ سکتے ہیں، عرب اخلاقی طور پر خواہ کتنے ہی کمزور ہو جائیں، برے وقت میں کام کرنے والے دوستوں کو کبھی نہیں بھولتے۔
حرمین شریفین کا مسئلہ: یہ درست کہ حرمین شریفین پر کوئی غیر مسلم قوت بظاہر حملہ آور ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس مسئلے کو مگر سطحی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا، گہرائی میں جا کر سمجھنا ہوگا۔ یاد رہے کہ لیبیا پر بھی کسی غیر مسلم قوت نے قبضہ نہیں کیا، مگر کیا آج کسی کے لیے لیبیا کے دارالحکومت اور ان کے اہم شہروں تک جانا ممکن ہے؟ قذافی کے بعد کے لیبیا، صدام کے بعد کے تباہ حال اور منقسم عراق نے سوچنے کا ایک نیا زاویہ پیدا کیا ہے۔ عرب سپرنگ کا رومان اب ختم ہو چکا۔ یہ ثابت ہو گیا کہ اگر چھوٹے چھوٹے قبائلی یا عسکری گروپوں کو مہمیز دے کر مسلکی مسائل پیدا کیے جائیں تو ملک برباد ہو جاتے ہیں۔ ہمیں کسی بھی قیمت پر سعودی عرب میں ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ یمن کا مسئلہ صرف حوثی باغیوں کا معاملہ نہیں، یہ سعودی عرب کی سرحد کو ڈسٹرب کرنے، وہاں کے اندرونی مسائل کو بڑھانے اور خانہ جنگی کرانے کی منصوبہ بندی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ بعض عالمی قوتیں لیبیا اور عراق کا نقشہ سعودی عرب میں دہرانا چاہتی ہیں۔ ریاست پاکستان کے لیے یہ اہم ہے کہ سعودی عرب مستحکم رہے۔ ایک دوستی کا تعلق، دوسرا حرمین شریفین کی وجہ سے اسلام کے مرکز کی حیثیت رکھنے والے اس ملک کو ہر حال میں پرامن اور مضبوط رہنا چاہیے۔ آل سعود کسی کو پسند ہوں یا نہ ہوں، ان کا رہنا اس وقت ضروری ہے۔ سعودی عرب میں تبدیلیاں آئیں گی، مگر انہیں بتدریج آنا چاہیے، غیر فطری انداز میں ایسا کرنے کی کوششیں بھیانک نتائج پیدا کریں گی۔
اوورسیز پاکستانی: انگریزی محاورے کے مطابق آخری مگر اہم وجہ عرب ممالک میں مقیم پاکستانی ہیں۔ پچیس سے تیس لاکھ پاکستانی وہاں کام کر رہے ہیں، وہ سالانہ آٹھ نو ارب ڈالر کا زرمبادلہ بھیج رہے ہیں، جن پر ہماری کمزور معیشت کا نہ صرف انحصار ہے بلکہ پچیس تیس لاکھ گھرانے یعنی ایک کروڑ سے سوا کروڑ پاکستانی براہ راست اس کے ثمرات لے رہے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی اس مسئلے کا بہت اہم سٹیک ہولڈر ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے انہیں نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ میری تجویز یہ ہے کہ اس موقعے کو استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب میں موجود لاکھوں پاکستانیوں کے لیے کچھ رعایتیں لینی چاہئیں۔۔۔۔ کفیل کا نظام، اقامے کے مسائل، شہریت کے معاملات... ان سب میں نرمی پیدا کرائی جا سکتی ہے۔ اس سے اوورسیز پاکستانیوں کی نہ صرف زندگیاں آسان ہوں گی بلکہ اس مشکل وقت میںساتھ دینے سے ہمارے مزید ہزاروں، لاکھوں پاکستانیوں کے وہاں جانے کی راہ ہموار ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں