کراچی کا سیاسی معرکہ

کراچی کے ضمنی انتخاب کا معاملہ ہرگزرے دن کے ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے، سیاسی فضا میں بھی اس سے گرمی در آئی ہے اور تجزیہ نگاروں کو ایک دلچسپ موضوع بھی مل گیا۔ میرے پچھلے دو دن کراچی میں گزرے ۔ ہمدرد یونیورسٹی کے سالانہ کانووکیشن میں شرکت کرنا تھی۔ لاہور میں آج کل غیر متوقع طور پر موسم خوشگوار ہے، گاہے بادل بھی برس جاتے ہیں، یہاں کے خنک موسم سے نکل کرگئے، کراچی میں تپتی ہوائوں سے واسطہ پڑا۔ نجانے سیاسی گرمی کا اثر موسم پر ہوا یا بدلتے موسم نے وہاں سیاسی کارکنوں کے تیور بگاڑے ہیں۔
کراچی میں جس سے بات ہوئی،ضمنی انتخاب کا معاملہ خود بخود درمیان میں آگیا۔ ایک دو دنوں میں کیا دیکھا اور جانچا جا سکتا ہے مگر عمومی تاثر بہتری کا تھا۔ ٹیکسی ڈرائیورز سے عام دفتری ملازمین تک ہر ایک کا یہی کہنا تھا کہ بہتری آئی ہے۔آپریشن کے حوالے سے منفی فیڈ بیک کم ہی ملا۔ یہی سننے کو ملا کہ پولیس تو اپنی سنیپ چیکنگ کے بہانے کہیں کہیں شہریوں کو تنگ کرتی ہے، مگر رینجرز ٹارگٹڈ آپریشن کرتے ہیں ، وہ بھی مناسب انٹیلی جنس اطلاعات کے بعد۔کراچی کے مخصوص پس منظر کی وجہ سے یہ خدشہ موجود ہے کہ کہیں سیاسی دبائو اور مصلحتوں کی وجہ سے آپریشن کمپرومائز نہ ہوجائے۔ سینئر صحافی مظفر اعجاز نے برملا کہہ دیا کہ ابھی نتائج برآمد ہونے باقی ہیں، اس کے بغیر صولت مرزا کے بیانات، سنگین الزامات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری ، وعدہ معاف گواہ بننے کی خبریں ... یہ سب بیکار ہیں، اگر یہ عدالتی عمل اپنے منطقی نتیجے تک نہیں پہنچایا جاتا۔ہر ایک کی یہی توقع ہے کہ کراچی کا امن لوٹایا جائے اور جس جماعت یا گروپ کا مسلح ونگ ہے، اس کا مکمل طورپر خاتمہ کیا جائے۔اللہ کرے کہ ایسا ہوجائے اور روشنیوں کے جس شہر کو ہم نے اپنے بچپن، لڑکپن میں دیکھا، وہی حسن لوٹ آئے۔ 
کراچی کا سیاسی معرکہ تین دنوں بعد ہونا ہے۔ سندھ حکومت ، رینجرز، الیکشن کمیشن کا یہ ٹیسٹ کیس ہے کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کو روک پائیں گے یا نہیں؟سندھ حکومت کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہاں جناب زرداری کے سائے گہرے ہیں، اصولوں سے جن کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں اورجومفاہمت کے نام پر ہربات روا سمجھتے ہیں۔ رینجرزسنجیدہ نظر آتی ہے۔اس نے الیکشن کمیشن کو عمدہ تجاویزدی ہیں۔متحدہ کے امیدوار نے فقرہ کسا کہ تحریک انصاف والے الیکشن سٹاف او ر سکیورٹی عملہ کراچی سے باہر کا لانا چاہتے ہیں ، تو ووٹر بھی وہاں سے لے آئیں۔ کراچی میں مگر الیکشن سٹاف غیرجانبدار رکھنا اور پولنگ سٹیشنوں کو یرغمال نہ بنانے دیناواقعی بڑا ایشو ہے۔ دراصل کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے گرفت بہت مضبوط اور تہہ در تہہ رہی ہے ۔پچھلے پندرہ برسوں سے وہ وہاں راج کر رہی ہے۔ متحدہ نے بڑے منظم انداز میں اپنے تمام کام کئے ہیں۔ سات سال پہلے کراچی کے ایک سینئر صحافی، جو ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کے لئے بھی کام کرتے تھے، سے پوچھا، ''بھائی کی اس قدر مضبوط گرفت کی وجوہات کیا ہیں؟‘‘مسکر ا کر بولے، بھائی! یہ پی ایچ ڈی کا تھیسس ہے، کسی کو اندر کی معلومات فراہم کی جائیں، اطلاعات تک مکمل رسائی ہو، تب بھی اسے تین سال لگ جائیں گے اپنی تحقیق میں ، جو بعد میں کہیں شائع بھی نہیں ہوسکے گی۔ ‘‘الیکشن کے حوالے سے ایسا ہی معاملہ ہے۔ کراچی کے علاوہ ملک بھر میں دھاندلی کے دو تین معروف طریقے ہیں۔ ایک طریقہ انفرادی ہے، جس میں طاقتور امیدوار اپنے اچھے نیٹ ورک، تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹس ، پولنگ اسٹیشن کے باہر تھوڑا بہت زورا زوری کے ذریعے اثرا نداز ہوتا ہے، یہ پانچ دس فیصد تک ہی ہوسکتی ہے ،مگر کلوز مقابلوں میں اتنا ایڈوانٹیج بھی بہت اہم ہے۔ اگر کسی فریق کے ساتھ حکومتی حمایت شامل ہو تو دھاندلی کی مزید منظم شکلیں سامنے آتی ہیں۔ بوگس پولنگ سٹیشن ،جن کی فہرست الیکشن کی رات جاری ہوتی ہے اور مخالف فریق کو دن کے دو تین بجے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں سکول میں بھی پولنگ کیمپ قائم ہے ،جہاں مخالف امیدوار دھڑا دھڑ ووٹ ڈلوا رہا ہے، تب وہ بھاگم بھاگ پہنچتے ہیں، مگر اس دوران ایسے ہر سٹیشن پر کئی سو ووٹ ڈالے جا چکے ہوتے ہیں۔ایک اور زیادہ منظم شکل جس کا الزام مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد لگا، وہ ریٹرننگ افسروں کی جانب سے مبینہ گڑبڑ تھی۔ تحریک انصاف کے کئی امیدواروں کا دعویٰ یہی رہا کہ وہ اپنی دانست میں الیکشن جیت کر سکون سے گھر چلے گئے ، صبح ریٹرننگ افسرنے نتیجہ خلاف سنا دیا۔ خیر اس الزام کی حقیقت تو جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں طے ہوجائے گی۔
کراچی کا معاملہ مختلف ہے۔ وہاں حکومت جو بھی ہو، الیکشن ڈے پر متحدہ ہی کاراج ہوتا ہے۔متحدہ کے مخالفین اس حوالے سے دلچسپ تھیوریاں بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر اس محکمے میں ، جہاں سے پریزائیڈنگ افسر اور دوسرا سٹاف لیا جاسکتا ہے، وہاں متحدہ کے حامی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ بھرتی کئے گئے ہیں۔ع سئیاں بنے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔ الیکشن ڈے پر پورے پورے پولنگ سٹیشنوں کو'' حفاظتی تحویل‘‘ میں لینا اس پر مستزاد ہے۔ 
جنرل ضیاء کے ریفرنڈم کا معاملہ عجب تھا، پولنگ والے دن گہما گہمی نام کی نہیں تھی، حبیب جالب نے اس کیفیت پر پھبتی کسی کہ شہر میں ہو کا جو عالم تھا، وہ کسی جن کی وجہ سے نہیں، ریفرنڈم کی وجہ سے تھا۔ اسی مفہوم کا ایک شعر بھی انہوں نے کہا۔ ریفرنڈم کا شام کو نتیجہ آیا تو معلوم ہوا کہ جنرل صاحب غیرمعمولی اکثریت سے جیت گئے ہیں۔ عبدالقادر حسن صاحب نے اپنے کالم میں لکھا، ''ریفرنڈم واقعی منصفانہ اور آزادانہ تھا، صبح دس بجے تک منصفانہ اور اس کے بعد ''آزادانہ‘‘ ہوگیا۔‘‘ کراچی میں متحدہ کے مخالفین کا یہی کہنا ہے کہ یہ جماعت جس الیکشن میں شامل ہوئی ، وہ بھی دن گیارہ بارہ بجے کے بعد مکمل طور پر ''آزادانہ ‘‘ہوجاتا ہے ۔ آزادی کی ایسی کیفیت کہ الیکشن سٹاف بھی ان کے پولنگ ایجنٹس کے ساتھ ''مصروف کار‘‘ ہو جاتا ہے۔ ڈیڑھ پونے دو لاکھ ووٹ برآمد کرانے کے لئے آخر ''محنت‘‘ تو کرنی پڑتی ہے۔یہ اور بات کہ مخالفین نے کبھی اس محنت کی قدر نہیں کی، ہمیشہ ''طعن وتشنیع ‘‘سے کام لیا۔ 
اس بارتوقع ہے کہ معاملہ مختلف ہوگا۔ پولنگ سٹیشنز کے باہر اور اندر کیمرے لگائے جائیں گے۔ رینجرز نے بائیومیٹرک الیکشن کی بڑی اچھی تجویز پیش کی ،جسے الیکشن کمیشن نے رد کر دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ الیکشن کمیشن کو ایسا کرنے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ موبائیل سم کی تصدیق والے معاملے میں سب نے دیکھا ہے کہ گلی محلے کی دکانوں پر چھوٹی سی مشین رکھی ہے، انگوٹھا رکھ کر اپنے شناختی کارڈ کا نمبر بتائو، ایک ڈیڑھ منٹ میں نہ صرف تصدیق ہوگئی، بلکہ اس کا ٹیکسٹ میسج بھی ا ٓ گیا۔ ایسی مشینیں پولنگ سٹیشنوں پر بھی رکھی جا سکتی ہیں، نہایت آسانی سے سب گڑ بڑ ختم ہوجائے گی۔ دھاندلی کے الزامات روکنے کا یہی سب سے موثر طریقہ ہے ۔ ایک سے زیادہ ووٹ نہیں ڈالا جا سکتا، ایک کا ووٹ دوسرا نہیں بھگتا سکتا اور پھر پولنگ سٹاف چاہے بھی تو دھاندلی نہیں ہوسکتی کہ بیلٹ پیپر تو جعلی چھاپے جا سکتے ہیں، انگوٹھے تو کاٹ کر نہیں لائے جا سکتے۔دیکھیں تئیس اپریل والے دن انتظامیہ شفاف انتخاب کرا پاتی ہے یا ماضی کی تاریخ دہرائی جائے گی؟ نتائج پر سب کی نظریں ہیں کہ کراچی کے مستقبل کے سیاسی منظرنامہ کاکچھ اندازہ ہوسکے گا۔ ہار جیت کا معاملہ زیادہ اہم نہیں ، کون کتنے ووٹ لے گا، یہ زیادہ اہم سمجھا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے مابین جو کشمکش جاری ہے، وہ اس الیکشن سے بھی زیادہ اہم ہے، مگر اس پر اگلی بار بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں