ایک اور بڑا موقعہ

پاک چائنہ معاشی پارٹنر شپ اور اکنامک کاریڈور کے حوالے سے آج کل ہر جگہ بات ہو رہی ہے۔پاک چین معاشی پارٹنر شپ اور اس حوالے سے سامنے آنے والے مختلف منصوبوں کی تفصیل پڑھ کر مجھے چند برس پہلے لاہور کی ایک محفل یاد آ رہی ہے۔ پاکستان کے حال اور مستقبل کے حوالے سے گفتگو جاری تھی، معمول کے مطابق مایوسیاں اور تاریکیاں پھیلائی جارہی تھیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک منحوس پیش گوئی داغی جا رہی تھی۔ اتنے میں سفید بالوں والے ایک پروفیسر نے اپنی گفتگو سے سب کو چونکا دیا۔انہوں نے اعتراف کیا ،'' ٹھوس اعدادوشمار کے حساب سے یقیناً ملک کے حالات خراب ہیں، معیشت تباہ حال ، سرمایہ کار مایوس، ادارے ایک ایک کر کے ڈوب رہے ہیں جبکہ دہشت گردی او ر لاقانونیت کا خوں آشام عفریت سر پر سوار ہے۔قرضے اس قدربڑھ چکے ہیں کہ ان کی ادائیگیوں کے لئے مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ یہ تمام اشاریے منفی ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کو قدرت یکے بعد دیگرے سنہری مواقع بھی فراہم کرتی ہے اور پچھلی نصف صدی میں جب بھی تاریخ نے کروٹ بدلی،کوئی حیران کن واقعہ ہوا، پاکستان کا اس میں کردار ضرور تھا۔ ہمیں اپنے حصے سے زیادہ اہمیت اور اپنے مقدر سے بڑھ کر مواقع اور ثمرات ملتے رہے ہیں، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہماری قیادت ان مواقع سے فائدہ اٹھائے اور ملک کو اس دلدل سے نکال کر ترقی کی بلندیوں تک لے جائے۔ ‘‘سچ تو یہ ہے کہ اس وقت اس گفتگو کو میں نے روایتی قسم کی دل خوش کن ، امید جگانے والی تقریر سمجھا، بعد میں جب اس پر غور کیا تو اس میں وزن محسوس ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرت ہمارے اوپر بہت مہربان رہی ہے، ہماری تباہ کن غلطیوں اورخوفناک کمزوریوں کے باوجود ہمیں تواتر سے مواقع دئیے جاتے رہے ہیں۔ پاک چائنا پارٹنرشپ بھی اسی طرح کا ایک موقعہ ہے ، ہماری تقدیر اور تاریخ بدل دینے والا موقعہ۔
ایک دلچسپ کام یہ بھی ہورہا کہ مختلف لابیاں اپنے اپنے ایجنڈے کی وجہ سے متحرک ہو گئی ہیں۔ اگلے چند ہفتوں میں پوزیشن مزید واضح ہوجائے گی۔ مختلف حلقے اپنے اپنے سپانسر کے دبائو کی وجہ سے زیادہ کھل کر سامنے آ ئیں گے اور انہیں پہچاننا آسان ہوجائے گا۔
دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اس حوالے سے ایک دلچسپ پوسٹ کی ہے، لکھتے ہیں،'' سال میں دو تین بار یہ خبر شائع ہوتی ہے کہ فلاں روز فلاں وقت سورج عین کعبہ کے اوپر ہوگا، کوئی شخص اگر قبلہ کی درست نشاندہی چاہتا ہے تو مقررہ وقت پر مشاہدہ کر کے نوٹ کر لے۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی سیاسی قبلے کی نشاندہی کا وقت آ چکا ہے،پہلی قسط میں تو یہ تعین ہوا کہ اسلام آباد، ریاض اور تہران میں سے کون کس کا قبلہ ہے۔ باقی تو چھوڑیں یہ ضرور معلوم ہؤا کہ اسلام آباد کو اس مد میں خاصی محنت کی ضرورت ہے، کم از کم حلقۂ جبہ و دستار میں۔اب چین سے معاہدوں کے بعد ایک تازہ سلسلہ تعین قبلہ شروع ہے۔ اب کی بار بھی اسلام آباد کا ہی مقابلہ ہے لیکن اس بار مدمقابل دہلی، واشنگٹن اور ''دیگر‘‘ ہیں۔ اس ہلّے میں بہت سے ''خیرخواہوں‘‘ کی اصلیت بھی کھل کر سامنے آ ئے گی۔ دیدہ و دل و دماغ کے تمام دریچے وا رکھیں، کہیں یہ جاننے کا موقع مس نہ ہو جائے کہ کون دراصل ''کون‘‘ ہے اور ''کِس‘‘ کا ہے۔‘‘
پاک چائنا کاریڈور کو متنازع بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوگیا ہے ،یہ بڑا اہم موضوع ہے، مغالطے اس قدر زیادہ ہیں ، مسلسل پھیلائے جا رہے ہیں کہ اس پر گفتگو کیلئے ایک نشست کافی نہیں ہوگی، انشاء اللہ اس کے روٹ، نقشے اور تنازعات پر بات ہوتی رہے گی۔ سردست ہم پاکستانیوں کو البتہ یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ یہ موقعہ جس قدر بڑا اور اہم ہے، اسے ناکام بنانے کے لئے اسی قدر کوششیں بھی کی جائیں گی۔ ہر طرف سے وار ہوگا، ہمارے دشمن تو خیر ناکام بنانا چاہیں گے ہی ، ان کی مخالفت تو فطری ہے ہی، مگر اس بار صف دشمناں میں بعض شناسا، دوست چہرے بھی نظر آئیں گے۔ بعض دوستوں کے اپنے مفادات خطرے میں پڑ رہے ہیں۔ گوادر پورٹ کا کامیاب ہونا انہیں پسند نہیں۔ایسے دوست بھی ہیں، جنہیں خودمختار اور معاشی اعتبار سے طاقتور پاکستان پسند نہیں۔ ان کی خواہش یہی ہے کہ یہ ملک ان کے زیر دست رہ جائے۔ ایٹم بم بنانا پاکستانی تاریخ کا اہم ترین سنگ میل تھا۔ پاکستانی ریاست نے یکجا ہو کر اپنی پوری قوت استعمال کی اوراغیار کی تمام تر مخالفتوں اور کوششوں کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ پاک چائنا اکنامک کاریڈور کے لئے ہمیں ایٹم بم والے معاملے سے کئی گنا زیادہ قوت اورکمٹمنٹ کے ساتھ کام کرنا ہوگا، ورنہ ہمارے دشمن اور دوست نما دشمن پاکستانی تاریخ کے اس اہم ترین موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیں گے۔
آنے والے دنوں میں تین چارسمتوں سے طوفان امنڈ تے محسوس ہوں گے، اس قدر غبار اڑایا جائے گا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق معلوم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اکنامک کاریڈور کو مختلف حیلے بہانوں سے متنازع بنانے کی مہمات چلیں گی۔خاص طور پر بلوچستان کے حوالے سے بہت شوروغوغا ہوگا،بے پناہ گرد اڑائی جائے گی۔کام تو شروع ہوچکا ہے، غیر محسوس انداز میں ماما قدیر کو نمایاں کیا جا رہا ہے، انہیں نیلسن منڈیلا جونیئر بنانے کی کوششیں توپہلے سے ہو رہی تھیں، اب انہیں مزاحمتی آئیکون بنانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ کراچی میں سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کے بعد بھی ایک طوفان اٹھانے کی کوشش کی گئی ،میڈیا کی دانشمندی نے اس بار بڑا تنازع پیدا نہیں ہونے دیا، مگر یار لوگوں نے اپنے قلم کی کاٹ خوب آزمائی۔ سوشل میڈیا پر یہ مہم ابھی جاری ہے، اس میں اضافہ ہوگا۔
اس کے ساتھ ساتھ امن وامان کے مسائل پیداہونے کا اندیشہ ہے، بلوچستان کے ان علاقوں میں ،جہاں سے کاریڈور نے گزرنا ہے، وہاں شورش پیدا کی جائے گی۔ تربت میں بے گناہ مزدوروں کے سفاکانہ قتل سے آنے والے لہو رنگ دنوں کی خبر مل رہی ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر اور اس کی دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف جس کے بارے میں ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ وہ ہمارے پڑوسی ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی سے فنڈز لیتی ہے، اس کی کارروائیوںمیں شدت آ سکتی ہے۔ تربت، آواران، خضدار کی پٹی بہت اہم ہے، وہاں فوکس کرنا ہوگا۔ ہمارے سکیورٹی اداروں کو غیرمعمولی مستعدی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہر شورش کو فوری طور پر کچلنا اور ریاست کی رٹ ہر حال میں قائم کرنا ہوگی۔ اگلا مرحلہ مختلف بہانوں سے بین الاقوامی دبائو میں اضافہ کرنا ہے۔ عالمی میڈیا میں پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے منفی رپورٹنگ شروع ہوچکی ہے۔ ایک واضح طور پر جانبدار اور متعصبانہ رپورٹ عالمی نشریاتی ادارے کی ویب سائیٹ پر شائع ہوئی، اسی قسم کا مواد نیویارک ٹائمز نے بھی شائع کیا۔ بعض دیگر امریکی جرائد بھی متعصبانہ ، زہریلی مہم چلا رہے ہیں۔ اس قسم کی رپورٹوں میںمزید تیزی آئے گی۔ انہیں کائونٹر کرنے کی ضرورت ہے، ہم بیرونی دبائو کا سامنا صرف اس صورت میں کر سکتے ہیں، جب داخلی طور پر مستحکم ہوں اور اپنے اہداف کے حوالے سے یکسو ہوں۔ یہ وہ کام ہے ،جو حکومتی جماعت نے کرنا ہے۔ اپنی جماعتی سیاست اور چھوٹے چھوٹے مفادات سے اوپر اٹھنا ہوگا۔اس وقت بطور جماعت یا تنظیم نہیں بلکہ بطور ریاست کے پرفارم کرنا ہوگا ۔قومی اور ریاستی مفادات ہر قسم کے ذاتی اور گروہی مفادات پر افضل ہیں۔ یہ بات سب کو سیکھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں