نئے صوبے کیوں بنائے جائیں؟

نئے صوبوں کی بحث ایک بار پھر چھیڑ دی گئی ہے۔ اس بار کراچی شہر سے آواز اٹھائی گئی۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سربراہ الطاف حسین نے کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا، جواب میں پیپلز پارٹی‘ جو روایتی طور پر اندرون سندھ کی نمائندگی کرتی ہے‘ کی جانب سے شدید تنقید کی گئی۔ نئے صوبوں کی تجویز پر جہاں کہیں بات کی جائے، ماحول میں تلخی، لہجے میں کڑواہٹ اور فقروں میں کاٹ خودبخود آ جاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے ٹھنڈے دل و دماغ سے اس کا جائزہ لیا جائے کہ نئے صوبے کیوں بنائے جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں خاص طور پر ہمارے پڑوسی ممالک میں کیا طریقہ کار اپنایا گیا اور ہم کس طرح اس نازک مسئلے کو سلیقے اور خوش اسلوبی سے حل کر سکتے ہیں۔
سادہ سی تین چار باتیں ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھ اور مان لیا جائے کہ مضبوط اور طاقتور مرکز کسی بھی ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ضامن نہیں۔ ملک وہی پُرسکون، خوشحال اور محفوظ رہتے ہیں، جہاں اختیارات اور وسائل کو مرکز میں جمع کرنے کے بجائے صوبائی یونٹس کو بااختیار اور مضبوط بنایا جائے، ان کے مسائل کو اپنا سمجھا جائے، محرومیوں میں کمی کی جائے اور لوگوں میں سینس آف اونرشپ یعنی مالک ہونے کا احساس اور اعتماد پیدا کیا جائے۔ اس لئے اگر ضرورت محسوس ہو تو نئے صوبائی یونٹ بنانے میں ذرہ برابر پریشان نہیں ہوناچاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اگر نیا صوبہ بنا دیا تو پھر اور بھی بنانے پڑیں گے۔ اگر ایک سے زیادہ نئے صوبوں کی ضرورت ہے تو پھر ظاہر ہے ایک سے زیادہ ہی بنانے پڑیں گے۔ ریاست کا کردار ماں کا ہے اور صوبائی یونٹ اس کے بچے۔ کوئی ماں ایسا کر سکتی ہے کہ ایک بچہ بھوک سے بلک رہا ہو اور وہ اسے اس خوف سے غذا نہ دے کہ کہیں دوسرے بچوں کو نہ کھلانا پڑ جائے؟ دیکھنا صرف یہ ہے کہ نئے صوبوں کا مطالبہ جہاں سے کیا جا رہا ہے، وہ کس حد تک درست اور وزنی ہے؟
ایک اور بات سمجھنا ضروری ہے کہ اگر کسی علاقے میں ترقیاتی کام نہ ہونا، تعلیم، صحت، روزگار کی سہولتوں کی عدم فراہمی، کمزور انفراسٹرکچر بڑا مسئلہ ہے تو ظاہر ہے اس سے لوگ پریشان اور مضطرب ہوتے ہیں۔ یہ مسائل حل کرنے کے لئے کسی غیرمعمولی ترقیاتی پیکج یا دوسرے انتظامی فیصلے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس علاقہ میں رہنے والے لوگوں یعنی اس قوم یا قومیت کی ثقافتی، سماجی شناخت، اس کی زبان، ادب، کھیل، دستکاریوں، فنون لطیفہ، ان سب کا تحفظ، انہیں پروموٹ کرنا بھی ریاست ہی کی ذمہ داری ہے۔ سڑکیں، پل، فلائی اوور بنانا، میٹرو چلانا، نیا ہستپال، تعلیمی ادارے بنانا ہی صرف ترقیاتی کام نہیں، بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں، جنہیں حل کرنے کے لئے زیادہ فنڈز درکار نہیں ہوتے، صرف احساس خاطر، نرم دلی، محبت اور اچھے طریقے سے بات سن لینے سے ختم ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ تلخی میں بدل جاتی اور رفتہ رفتہ بیزاری، نفرت تک پہنچ جاتی ہیں۔ میرے خیال میں بلوچستان کے حوالے سے ہماری حکمران اشرافیہ نے یہی غفلت اور بے توجہی برتی، جس نے بگاڑ پیدا کیا۔
نئے صوبے دو تین وجوہ کی بنا پر بنائے جاتے رہے ہیں۔ کسی علاقے کی پسماندگی، محرومی یا صوبائی دارالحکومت سے اس کی جغرافیائی دوری، جس کے باعث گورننس کے مسائل پیدا ہو جائیں۔ تیسرا بڑا سبب کسی قوم کی ثقافتی یا لسانی بنیاد ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک میں ان تمام وجوہ کی بنیاد پر ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ بھارت اگرچہ کثیر نسلی ملک ہے، وہاں نسلی بنیاد پر کئی مقامات پر کشیدگی بھی رہی، معاملات خون خرابے تک بھی پہنچتے رہے مگر بھارتی قیادت نے گھبرانے کے بجائے اس مسئلے کو بنیاد سے پکڑا اور نیا یونٹ بنا کر حل کر دیا۔ الگ صوبہ بن گیا، اب وہاں کے لوگ جانیں اور مقامی قیادت۔
ہمارے ہاں سب سے پرانا اور طاقتور مطالبہ سرائیکی صوبے کا رہا ہے۔ اس کے حق میں دونوں تینوں دلائل موجود ہیں۔ پنجا ب کے سب سے پسماندہ پندرہ اضلاع جنوبی پنجاب ہی کے ہیں، جغرافیائی دوری کا یہ عالم ہے کہ اکثر شہر لاہور سے سات سے دس بارہ گھنٹوں کے فاصلے پر موجود ہیں۔ اختیارات کی مرکزیت کی وجہ سے لوگوں کو دور دراز سے صوبائی دارالحکومت آنا اور ذلیل و خوار ہونا پڑتا ہے۔ تیسرا مسئلہ سرائیکی قوم کی الگ ثقافتی شناخت، سرائیکی زبان، ادب اور کلچر کا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ایک دلیل یہ ہے کہ دس بارہ کروڑ آبادی کے پنجاب جیسے صوبے کی دنیا میں ایک آدھ مثال ہی ملتی ہے اور ایسا صوبہ جہاں ملک کے باقی تینوں یونٹ مل کر بھی اس سے چھوٹے اور اس سے خائف اور نالاں ہوں... ایسی مثال تو صرف پاکستان ہی میں ہے۔ یہ اخبار نویس اسی وجہ سے سرائیکی صوبے کا حامی رہا ہے۔ اگرچہ میری ذاتی رائے میں تو زبان اور ثقافت کی بنیاد پر بھی الگ صوبہ بنانے میں کوئی حرج نہیں، تاہم اگر اسلام آباد کی اشرافیہ کو ایسا
کرنے میں کوئی ''قیامت‘‘ کھڑی ہو جانے کاخدشہ ہے تو پھر انتظامی بنیاد پر بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ یہ کام مگر قرینے اور سلیقے سے ہونا چاہیے۔ اس وقت نئے صوبوں کے حوالے سے زیادہ گرما گرمی اور تلخی نہیں ہے۔ فیصلہ کرنے کا وقت بھی یہی ہوتا ہے۔ ایک روڈ میپ مقرر کر لینا چاہیے کہ اگلے پانچ برسوں کے دوران نیا صوبہ بنا دیا جائے۔ اس دوران نئے صوبے کو سامنے رکھتے ہوئے انتظامیہ بنائی جائے، مقامی لوگوں کو پولیس، سروسز اور دیگر انتظامی شعبوں میں بھرتی کیا جائے، ان کی مناسب تربیت ہو جائے۔ ہزارہ صوبہ کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اسے بنانے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اے این پی کی نادانی اور خود غرضانہ سوچ کی وجہ سے ہزارہ میں سیاسی محرومی پیدا ہوئی، اگر صوبے کے نام میں ہزارہ کا لفظ شامل ہوتا تو شاید وہاں اتنا ہیجان پیدا نہ ہوتا۔ اب بھی اس مسئلے کو اچھے طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔
سندھ کی تقسیم بھی ہو سکتی ہے۔ سیاست میں کچھ مقدس نہیں ہوتا۔ سندھ کی تقسیم کا مطالبہ مگر اندرون سندھ سے آنا چاہیے۔ لاڑکانہ، دادو، تھرپارکر، بدین، سانگھڑ اور اس جیسے کئی اضلاع پسماندہ اور کراچی سے کئی گھنٹوں کی دوری پر واقع ہیں۔ اگر وہاں کے لوگ نیا صوبہ بنانا چاہیں تو ان کے مطالبے پر غور ہونا چاہیے۔ یہ بات مگر میری سمجھ سے باہر ہے کہ صوبے کے سب سے خوشحال اور ترقی یافتہ شہر کراچی کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے؟ اس کا کیا جواز اور دلیل ہے؟ یہ درست ہے کہ کراچی سندھ کا نوے فیصد ریونیو فراہم کرتا ہے، یہ شہر پیدا زیادہ کرتا ہے اور ظاہر ہے اس پر خرچ اس تناسب سے نہیں کیا جاتا۔ یہ سادہ سی بات مگر سوچنی چاہیے کہ کراچی کو اس قابل کس نے بنایا ہے؟ اس میں نہ صرف اندرون سندھ بلکہ پورے پاکستان کے فنڈز اور سرمایہ‘ استعمال ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں چند شہروں کو معاشی ہب بنایا جاتا ہے، وہاں بہترین انفراسٹرکچر بنایا جاتا، بڑے بڑے انڈسٹریل یونٹس، سٹیل مل جیسے صنعتی شہر نما پروجیکٹس، بینکس، سرکاری دفاتر بنانے کے ساتھ، بہترین تعلیمی ادارے اور ہسپتال بنائے جاتے ہیں۔ بھارت میں ممبئی کی ایسی پوزیشن ہے۔ ان شہروں پر مقامی آبادی کے ساتھ پورے ملک کا حق ہوتا ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس، ٹوکیو، سڈنی اور کتنے ہی ملکوں کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پورے ملک کی انویسٹمنٹ اور عشروں کی محنت سے اس شہر کو میگا سٹی بنایا جائے اور پھر اچانک ہی وہاںکی سیاسی قیادت کہے کہ اسے الگ صوبہ بنا دو، تاکہ وہ تو مزے کریں اور باقی منہ دیکھتے رہ جائیں۔ یہ مطالبہ ناجواز اور نامناسب ہے۔ کراچی کو البتہ خصوصی ترقیاتی پیکیج کی ضرورت ہے۔ میگا سٹی کے اپنی نوعیت کے گمبھیر مسائل ہوتے ہیں، کراچی میں سڑکوں کا اچھا انفراسٹرکچر بن چکا، وہاں بجلی اور پانی کے مسائل کا حل نکالنا ہوگا، ٹرانسپورٹ کا بحران شدید ہے، میٹرو کے ساتھ ساتھ ٹرین پروجیکٹ کو بھی مکمل کرنا چاہیے، فوری مسئلہ تو لا اینڈ آرڈر اور بھتہ مافیا ہے، اسے تو ہر حال میں ختم کرنا ہو گا، مگر دوسرے مسائل بھی خلوص نیت اور سنجیدگی سے حل کرنے چاہئیں۔ لوگوں کے مسائل حل ہو جائیں تو پھر ان کی تلخی خودبخود کم ہو جاتی ہے۔ سب سے اہم بات جس کا پہلے بھی ذکر آیا، وہ یہی ہے کہ حالت امن میں نئے انتظامی یونٹس کا معاملہ نمٹانا چاہیے، اس کے لئے جنگ و جدل کی صورتحال پیدا ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آج مختلف صوبوں میں قوم پرست کمزور ہیں تو ریلیف میں تاخیر کر کے ان کو طاقتور کیوں بنایا جائے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں