چھوٹی چھوٹی باتیں

بٹ صاحب کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔ دھیرے سے وہ بولے: ''بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ایسی ہوتی ہیں، جو زندگی اور بسا اوقات تقدیر بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ انہیں کرتے وقت ہمیں اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اس قدر اثر رکھتی ہوں گی، ان کی مگر اپنی تاثیر اور اہمیت ہوتی ہے‘‘۔ بٹ صاحب کمال کے انسان ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے وہ آئی سرجن ہیں۔ سماجی خدمت ان کی زندگی کا بہت اہم جز ہے۔ اپنی بہترین صلاحیتوں کو انہوں نے دولت کمانے، اپنا سٹیٹس بلند کرنے کی کوششوں میں صرف کرنے کے بجائے سماجی اور دعوتی کاموں میں کھپا دیا۔ آج کل سنٹرل پنجاب کے ایک میڈیکل کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ ان سے ملاقات کچھ عرصے بعد ہوئی۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے: ہم نئی نسل کو مطعون ٹھہراتے ہیں۔ ان کو نالائق اور بدتمیز سمجھتے ہیں، لیکن بطور استاد میرا تجربہ مختلف ہے۔ طلبہ تو کوری سلیٹ کی طرح ہیں، اگر استاد ان پر محنت کریں تو بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کئی واقعات سنائے۔ کہنے لگے: میں ہر نئی کلاس سے کچھ دیر گپ شپ کرتا، طلبا کی پسندیدہ کتب، پسندیدہ مصنفین کا پوچھتا ہوں۔ ہمیشہ طلبہ اچھا رسپانس دیتے ہیں۔ ڈاکٹر بٹ پچھلے دو تین برسوں سے ابو یحییٰ کے مشہور ناول ''جب زندگی شروع ہو گی‘‘ کی بات کرتے اور اس کا تحفہ دیتے ہیں۔ یہ کتاب واقعی جھنجھوڑ دینے والی ہے۔ تین برس پہلے اس اخبار نو یس کو بھی یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا ۔کہا جا سکتا ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد زندگی کے بارے میں تمام تصورات بدل گئے۔ بٹ صاحب بعض دیگر کتابیں بھی خرید کر طلبہ کو تحفہ دیا کرتے ہیں۔ بڑی مسرت سے انہوں نے بتایا کہ اس کتاب نے متعدد طلبا کی زندگی بدل دی۔ گزشتہ روز کی ملاقات میں انہوں نے اپنا ایک اور تجربہ شیئر کیا۔کہنے لگے: ''میں نے ایک اور کام شروع کیا ہے، اپنے لیکچر سے پہلے ایک آدھ منٹ کی کوئی بامقصد، اصلاحی بات کر دی، ویڈیو سلائیڈ دکھا دی اور اس کے بعد روٹین کا لیکچر شروع کر دیا۔ لیکچر کے اختتام پر شروع میں کہی گئی بات کے حوالے سے ایک دو منٹ مزید گفتگو کر لی۔ پچھلے چند ماہ کے تجربے سے میں نے یہ سیکھا ہے کہ تین چار منٹ کی گفتگو بسا اوقات بہت کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں، بظاہر معمولی نظر آنے والے کام آخری تجزیے میں کہیں زیادہ وسیع، ہمہ گیر اور اہم ثابت ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک طالبہ کے حوالے سے دلچسپ تجربہ ہوا۔ ایک دن میں نے لیکچر سے پہلے یہ بات کی کہ آپ لوگ کسی روز تنہائی میں بیٹھ کر کچھ دیر رب تعالیٰ سے مکالمہ کریں، سوچیںکہ یہ زندگی ہمیں کیوں عطا ہوئی؟ اس دنیا میں آنا، رہنا اور یہ سب سفر بلاوجہ تو نہیں ہو گا؟ آخر رب تعالی ٰ نے کچھ سوچ کر ہی ہمیں یہاں بھیجا ہے۔ اللہ سے خلوت میں گفتگو کریں اور یہ سوال پوچھیں، آپ کو یقیناً کوئی نہ کوئی جواب ملے گا اور آپ کا ذہن واضح ہو گا کہ زندگی میں ترجیحات کا معاملہ کیسے طے کیا جائے۔ مَیں یہ بات کہہ کر بھول گیا، کچھ عرصہ بعد ایک دن فیس بک پر اُسی بچی کا میسج آیا۔ اُس نے بتایا کہ میری زندگی میں ایک سو اَسی ڈگری کی تبدیلی آ چکی ہے۔ سبب پوچھا تو کہنے لگی، آپ نے اُس دن جو بات کی تھی، میں نے اُس پر عمل کر ڈالا۔ میں بڑی ڈپریسڈ تھی، اپنے کمرے میں بیٹھ کر خدا سے مکالمہ کرنا چاہا، کافی دیر سوچتی رہی، سوالات تراشتی رہی، پھر خودبخود ذہن میں اُن کے جوابات اُمڈنے لگے۔ میں ان پر یکسو ہو گئی کہ زندگی کا مقصد رب تعالیٰ کی بندگی ہونا چاہیے، چاہے ہم ڈاکٹر بنیں یا انجینئر، اُستاد بنیں یا وکیل، تاجر بنیں یا سپاہی، جو بھی کام کریں پوری دیانت داری اور رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کریں‘‘۔ ڈاکٹر بٹ کہنے لگے: ''اُس لڑکی کی زندگی میں واقعی انقلاب آگیا، پہلے وہ بہت تیز مزاج تھی، اچانک اُس میں ٹھنڈک آ گئی، تعلیم پر فوکس بڑھ گیا، اساتذہ کی زیادہ عزت کرنے لگی، ساتھی طلبا سے اخلاق بہتر ہو گیا اور پھر اُس نے حجاب بھی اُوڑھ لیا۔ ایک روز اس نے مجھے بتایا کہ میرے اندر آئی اس تبدیلی سے والدہ خوش نہیں۔ انہیں میرا حجاب لینا پسند نہیں۔ میں نے بچی کو سمجھایا کہ یہ تمہارا امتحان ہے، اپنے والدین کے لیے کوئی ایک جملہ بھی سخت استعمال نہ کرنا، اگر وہ ڈانٹیں یا ناراض ہوں تو بڑے تحمل سے برداشت کرنا اور صرف ایک ہی فقرہ کہنا کہ میں یہ سب اللہ کی خاطر کر رہی ہوں۔ پھر میں نے اُس سے پوچھا کہ گھر کے کام کاج اور والدہ کی کس قدر خدمت کرتی ہو؟ اُس نے شرمندگی سے جواب دیا کہ میں نے تو کبھی اُٹھ کر پانی بھی نہیں پیا۔ اس پر میں نے اُسے اپنا رویہ بدلنے کا مشورہ دیا، کچھ دنوں کے بعد اُس نے مجھے بتایا کہ اپنی خدمت سے ناصرف والدہ کا دل جیت لیا بلکہ سب عزیز و اقارب بھی متاثر ہوئے۔ انہیں یہ لگا کہ مذہبی ہو جانے سے میرے اندر نہایت ہی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں‘‘۔ بٹ صاحب نے پُرنم نظروں سے میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے: ''بسا اوقات بس چھوٹی چھوٹی باتیں ہی مثبت نتائج لے آتی ہیں، کیا خبر کس موڑ پر ایسی ہی کوئی چھوٹی نیکی ہماری بخشش کا باعث بن جائے‘‘۔
چند دن پہلے کراچی سے ایک خاتون کی ای میل آئی۔ اُنہوں نے قرضِ حسنہ کے حوالے سے لکھے گئے میرے پرانے کالم کا حوالہ دیا اور بتایا کہ میں نے اپنی بساط کے مطابق اس پر عمل کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ہے۔ لکھتی ہیں: ''آپ نے ایک حدیث کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق قرضِ حسنہ کا ثواب صدقے سے دو گنا زیادہ ہے۔ میں نے ایک کمیٹی ڈالی تھی، جب یہ نکلی تو اس میں سے بیس ہزار الگ کر دیے اور اپنے طور پر قرضِ حسنہ فنڈ بنا لیا۔ اپنی کزنز، اپنے گھر اور سسرال میں سے کسی کو دو چار ہزار کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ مجھ سے قرض لے لیتا ہے۔ میں صرف یہ کہتی ہوں کہ اپنی آسانی کے مطابق واپس کر دینا، جب وہ مل جاتا ہے تو اُسے آگے کسی اور کو دے دیتی ہوں۔ یہ چھوٹا سے دائرے کا سفر بن گیا ہے۔ ویسے میں نے دل میں یہ سوچا ہوا ہے کہ جو واپس نہیںکرے گا اس سے مانگوںگی نہیں، لیکن اللہ کاکرم یہ ہوا کہ نندوں، دیورانیوں، بھابھیوں اور ہمسایوں میں سے جس نے لیے، واپس ضرور کیے‘‘۔ اس خاتون نے اپنا تجربہ شیئر کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ دوسرے لو گ بھی اپنے اپنے انداز سے اس سلسلے کو آگے بڑھا سکیں ۔ آخر میں قرضِ حسنہ کے حوالے سے ایک جھنجوڑ دینے والی حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں: ''جب قرآن کی یہ آیت اتری: کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ وہ اس کو کئی گنا بڑھا دے۔ اس آیت کو سن کر حضرت ابوالدحداح ؓ نے کہا، اے خدا کے رسولﷺ کیا اللہ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا، ہاں اے ابو الدحداح۔ اس پر انہوں نے کہاکہ اے اللہ کے رسولﷺ مجھے اپنا ہاتھ دکھایے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ ابو الدحداح ؓ نے کہا کہ پھر میں نے اپنا باغ اللہ کو قرض میں دے دیا۔ ان کا ایک باغ تھا، جس میں چھ سو کھجور کے درخت تھے۔ اس وقت ان کی بیوی ام الدحداح اپنے بچوں کے ساتھ اسی باغ میں تھیں۔ راوی کہتے ہیں کہ ابو الدحداح آئے اور اپنی بیوی کو آواز دے کر کہا کہ اس باغ سے نکلو کیونکہ وہ میں نے اپنے رب کوقرض میں دے دیا ہے۔ ام الدحداح نے کہا کہ اے ابو الدحداح آپ کا سودا کامیاب رہا اور وہ اپنا سامان اور بچے لے کر وہاں سے چلی آئیں‘‘۔ کاش ہمیں بھی اپنے رب سے ایسا کاروبار کرنے کی توفیق ملے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں