یہاں بلاوجہ کچھ نہیں ہوتا

یہ چار پانچ سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں پاک بھارت دوستی کی لہرچل رہی تھی۔ ہمارے ہاں کچھ عرصے کے بعددوستی کی ایسی لہریں پھوٹتی او ر پھر اپنی موت آپ مرجایا کرتی ہیں۔ معلوم نہیں ان کا موسموں سے کوئی تعلق ہے یا ٹھنڈے دیاروں میں بیٹھے اداروں سے رشتہ جو یہاں کام کرنے والی بعض این جی اوز کو فنڈز اور انہیں خرچ کرنے کے لئے اہداف مہیا کرتے ہیں؟ حقیقت تو رب ہی جانے، ہم نے تو اتنا ہی دیکھا ہے کہ اچانک ہی پاکستان بھارت دوستی کا غلغلہ اٹھتا، سیمینارز کی لڑی سی لگ جاتی، کالم لکھے جاتے، پروگرام کرائے جاتے ہیں۔ انہی دنوں مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ، جس کے بارے میں ماہرین خارجہ اموریہ نوید سناتے کہ اس بار جامع مذاکرات ہیں،جن میں ہر ایشو زیربحث لایا جائے گا۔ یہ اور بات کہ کچھ عرصے بعد مذاکرات کھٹائی میں، جوش وخروش ٹھنڈا اوربزعم خود امن کے پیامبر بننے والے اصحاب بھی چادر جھاڑ کر منظرسے غائب ہوجاتے ہیں۔ وجہ صرف وہی کہ مصنوعی انداز میں کچھ بھی کیا جائے، اس کے نتائج برآمد نہیںہوسکتے۔ممالک کے تعلقات میں ویسے بھی یک طرفہ ٹریفک نہیں چلتی۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک ملک اپنے قومی مفادات کو نظرانداز کر کے مسلسل دوسرے کے آگے جھکتا جائے ، اس کی ہر فرمائش مانتا جائے اور اپنے ہر مطالبے سے دستبردار ہوجائے۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔مجھے یاد ہے کہ ایک بار مشہور ہوا کہ ابِ سرکریک کے مسئلے پر بریک تھرو ہوجائے گا۔اس کے بعد سیاچن کا نمبر اور آخر میں کشمیر کی باری آئے گی۔ آج تک ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔
خیر بات چند سال پہلے کی ہو رہی تھی، انہی دنوں لاہور پریس کلب کا ایک وفد چندی گڑھ پریس کلب کی دعوت پر بھارت گیاتھا۔اتوار کی شام ایک سینئر صحافی سے گپ شپ ہو رہی تھی۔ انہوں نے اپنے دورہ بھارت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے دلچسپ باتیں بتائیں۔ کہنے لگے،'' میں نے نوٹ کیا کہ وہاں سب کچھ طے شدہ اور سوچے سمجھے انداز میں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جس سے ملتے ، وہ دوستی کی بات کرتا، مگر بہانے بہانے پاکستانی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بھی بنا ڈالتا۔ لطیفے بھی وہی سنائے گئے، جن میں فوجیوں پر طنز اور تمسخر کا پہلو نکلتا تھا۔ تقریب ہوئی تو ایک دو مقررین نے دانستہ اکہتر کی جنگ کا قصہ چھیڑ دیا۔ پاکستانی فوج کی شکست،جنرل نیاز ی کی جانب سے ہتھیار ڈالتے وقت پستول بھارتی جنرل کے حوالے کرنے کا قصہ مسکرا مسکرا کر بیان کیا گیا۔ اس دور ے میں پاکستانی وفد کو فلم دکھانے لے جایا گیا۔ وہ فلم بھی ''اتفاق‘‘ سے ویر زارا تھی۔ شاہ رخ خان اور پریتی زنٹا کی فلم ،جس میں لڑکی پاکستانی اور اس کا محبوب بھارتی ہے۔ وہ اپنی محبوبہ کی خاطر پاکستان آتا اور یہاں اسے فوج گرفتار کر کے برسوں کے لئے جیل میں ڈال دیتی ہے۔ ممکن ہے کچھ لوگوں نے ایک مخصوص فلم دکھانا محض اتفاق سمجھا ہو، مگر اتنے سارے اتفاقات کبھی اکٹھے نہیں ہوتے، ہمیں شملہ بھی لے جایا گیا۔ وہی شملہ جہاں وزیراعظم بھٹو نے اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدہ کیا اور بھارتی قید میں موجود ہزاروں پاکستانی فوجیوں کو رہا کرایا۔ وہاں بھی میزبان پاک بھارت دوستی کی باتیں کرتے ،مگر بڑے قرینے سے یہ جتا دیتے کہ آپ لوگ ہم سے مغلوب قوم ہیں، ہمیں بڑا سمجھ اور مان کر دوستی کر لو۔‘‘
یہ تو خیر چند برس پرانا ایک دورہ تھا، غور سے مگر دیکھا جائے تو ہمارے اپنے ملک میں ایسی بہت سی باتیں بڑی مہارت اور ہوشیاری سے کی جاتی ہیں، جو بظاہر اتفاق ہوں، مگر وہ قطعی طور پر بلاوجہ نہیں ہوتیں۔ ہر بات، ہر اشارے ، ہر طنز کا ایک ہدف ہوتا اور تمام تیر اسی جانب چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ ہدف پاکستانی فوج اور قومی سلامتی کے ادارے ہیں۔ ہمارے الٹرا لبرل ، سیکولر لکھنے والے ہوں ، تجزیہ کار یا اہل دانش سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ، ان سب کے زہریلے تیروں کا ہدف پاکستانی فوج ہی ہے۔وہی فوج جوآپریشن عضب میں مصروف ہے۔ جسے بلوچستان میں آٹھ ممالک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو کائونٹر کرنا ہے ۔ یہ درست کہ جنرل ایوب سے یحییٰ خان اور ضیاء الحق سے پرویز مشرف تک چاروں ڈکٹیٹر بلاجواز اور غلط طور پر حکومت میں آئے اور ملکی سسٹم کو نقصان پہنچایا۔اپنے اقتدار کو طویل کرنے کی خاطر قومی سیاسی کلچر کو انہوں نے نشانہ بنایا اور پورے فیبرک کو ادھیڑ کررکھ دیا‘ برسوں بعد تک جس کا مداوا نہیں ہوسکا۔یہ سب درست ،مگر ہمارے ہاں کرپٹ ترین سیاستدان بھی حکمران رہے ہیں، ان کی کرپشن، غلطیوں اور حماقتوں کی بنیاد پر مگر اہل سیاست، جمہوریت اور سیاسی سسٹم کے خلاف مہم نہیں چلائی جاتی ۔ یہی رویہ منطقی اور احسن ہے۔ فوج کو بطور ادارہ نشانہ نہ بنایا جائے، ڈکٹیٹروں پر تنقید کی جائے ،مگر ملک وقوم کی خاطر جان کی بازی لگانے والے سرفروشوں کے جذبوں کی توہین نہ ہو نے پائے۔
افسوس تو یہ ہے کہ اپنے تعصبات ،دلی بغض اور نفرت کی تسکین کے لئے وہ سب کچھ کیا جا رہا ہے، جس کی کہیں اجازت ہے نہ ہی کوئی ایسی جرأت کر سکتا ہے۔کوئی تصور کر سکتا ہے کہ بھارت کا کوئی قومی سیاسی لیڈر لائیو خطاب میں اپنے حامیوں کو آئی ایس آئی سے رابطہ کرنے، کمانڈرٹریننگ لینے کی ہدایت جاری کرے اور جب اس پر تنقید ہو تو وہ معذرت کا ایک فقرہ بول کر جان چھڑا لے۔ایسی کوئی مثال بھارتی ، ایرانی، سری لنکن یاکسی مغربی ملک کی تاریخ میں مل سکتی ہے؟
ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ ایک این جی او سے تعلق رکھنے والی غیر معروف خاتون سبین محمود کراچی میں قتل ہوجاتی ہیں۔ ورکنگ صحافی ہونے کے باوجود میرے جیسے بہت سوں نے کبھی مقتولہ کا نام تک نہیں سنا، ان کے قتل کی افسوسناک واردات ہی سے کچھ معلوم ہوسکا۔ واردات کراچی میں ہوئی تھی، جو آج کل خوفناک ٹارگٹ کلنگ کا مرکز بنا ہے،چند ماہ میں کتنے علما دین،پروفیسرز، ڈاکٹرز نشانہ بن چکے ہیں۔ بظاہر یہ واردات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آئی ، جس کا مقصد انتشار اور افراتفری کو ہوا دینا ہوسکتا تھا۔ چند ہی گھنٹوں بعدمگر ایک سینئر تجزیہ کار اور صحافی نے سوچے سمجھے بغیرایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی ویب سائیٹ پر ایک غیر ذمہ دارانہ تحریر داغ دی۔ ادھر ادھر سے ان کے ساتھیوں نے بھی وہی راگ الاپنا شروع کر دیا۔ دلیل یہ دی کہ مرحومہ سبین نے قتل ہونے سے کچھ دیر پہلے بلوچ'' نیلسن منڈیلا‘‘ماما قدیر کے ساتھ ایک نشست کی تھی۔کوئی پوچھنے والا نہیں کہ ایسی بچگانہ حرکت تو گلی محلے کے گینگ بھی نہیں کرتے، وہ بھی اپنے مخالف کو سبق سکھانے سے پہلے یہ اہتمام کرتے ہیں کہ ان پر شک نہ جائے۔
کسی ثبوت کے بغیر ایسے سنگین الزام لگانے کی جرات صرف پاکستان ہی میں کی جا سکتی ہے۔ ایرانی شاعر انوری نے کہا تھا، آسمان سے جو بھی بلااترتی ہے، وہ پہلے یہی پوچھتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں ہے۔ ہمارے ہاں بھی ویسا ہی حال ہے۔ جو بھی نیا واقعہ، افسوسناک ٹارگٹ کلنگ ہو، حتیٰ کہ پڑوسی ملک میں ہونے والا کریکر دھماکہ ہی ہوجائے ... دل لرز اٹھتا ہے کہ ابھی وطن عزیز اور ہمارے قومی اداروں کے خلاف ایک اور مہم شروع نہ ہوجائے؟یہاں کچھ بھی بلاوجہ نہیں ہوتا۔ ہر ایک بات ، ہر حرکت کے پیچھے سوچا سمجھا منصوبہ اور طے شدہ ایجنڈا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں