پاک چائنہ کوریڈور کو متنازع ہونے سے بچائیں

ہمارے ہاں کسی بھی معاملے کو بگاڑنا بڑا آسان ہے، کوئی بھی شخص کہیں بھی بیٹھ کر کوئی متنازع بات کر دے، دو چار لوگ اسے ضرور لے اڑتے ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ پہلے اس بات کے سچے ہونے کی تحقیق تو کر لیں۔ اگر بدقسمتی سے کسی ایک فرد کے بجائے کوئی پارٹی یا تنظیم ایسا کرے ، جس کے پاس کچھ وسائل ہوں، وہ جلسے جلوس کرنے کی استعداد رکھتی ہو اور چند پارٹیوں کو جمع کر کے آل پارٹیز کانفرنس کے نام پراجتماع بھی کر سکے تو پھر میڈیا لازمی اس طرف متوجہ ہوجائے گا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ایک نان ایشو ، ایشو میں تبدیل ہوجائے گا۔تب اس موضوع پر دسترس رکھنے والے کچھ بھی کہیں، ماہرین جتنا مرضی تحقیق کر کے اپنے نتائج بیان کر لیں، ... پروپیگنڈے کے طوفان کے آگے ان کے چراغ نہیں جل پائیں گے۔ شکوک، بدگمانی اور بے اعتباری کے سائے جب گہرے ہوجائیں ، تب بظاہر سادہ سی چیزیں بھی دھندلی اورپراسرار نظر آنے لگتی ہیں۔ اس کا سادہ مگر موثر حل یہی ہے کہ باتیں چھپانے کے بجائے پوری وضاحت کے ساتھ بیان کی جائیں تاکہ سینہ گزٹ پر یقین کرنے کے بجائے لوگ سامنے عیاں حقیقت کی جانب نظر کریں۔
اسے قومی بدقسمتی ہی کہیں گے کہ پاک چائنہ ٹریڈ کاریڈور کو بھی متنازع بنانے کا کام شروع ہوچکاہے۔ وہی پہلے جیسے حربے، پرانی چالیں۔ پنجاب کو ہدف بنا کر چھوٹے صوبوں میں موجود منفی رجحانات کو ہوا دینا، قوم پرست جذبات کو استعمال کرنا اور رفتہ رفتہ اس منصوبے میں زہر گھولنے کی ایسی کوششیں کرنا کہ چین جیسا دوست ملک بھی گھبرا کر واپس چلا جائے یا پھر اس منصوبے کو چند برسوں کے لئے معطل کر دے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ میڈیا کے بعض لوگ بھی اس میں شامل ہو گئے ہیں، بعض ایسے لکھاری یا تجزیہ کار جن کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا، مگر وہ بھی شکوک وشبہات کا شکار ہوکرمخالفت کر رہے ہیں۔
ہماری دانست میںچند بنیادی باتیں سمجھ لی جائیں تو تمام شکوک وشبہات دم توڑ جائیں گے۔ پہلی سادہ مگر بنیادی حقیقت یہ ہے کہ چائنا پاک اکنامک کاریڈور ایک کمرشل منصوبہ ہے، کمرشل مقاصد کے لئے بنایا جار ہا ہے، اس کا بنیادی مقصد پسماندہ علاقوں کی ترقی وترویج نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کمرشل منصوبے بناتے وقت ان کی فزیبلٹی اسی حوالے سے بنائی جاتی ہے۔ گوادر سے کاشغر تک کا روٹ تجارتی سامان کی منتقلی کے لئے بنایا جانا ہے۔ یہ ہمارا وفاقی یا صوبائی بجٹ نہیں ہے، جس میں ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا جائے کہ فلاں علاقے کے لئے زیادہ رقم اور فلاں کے لئے کم کیوں رکھی گئی؟ یہ منصوبہ چین کا ہے، وہی فنانس کر رہا ہے، بیشتر پراجیکٹ بھی اسی نے بنانے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ٹھیکوں وغیرہ کے معاملے بھی اسی کے طے شدہ اصولوں کے مطابق ہوں گے، یعنی چین یہ سب کچھ بنا رہا ہے اپنے لئے۔، پاکستان کو راہداری کے طور پر اس کے پیسے ملیں گے، البتہ ہمارا وہ انفراسٹرکچر بھی ساتھ میں بن جائے گا، جو شائد طویل عرصے تک نہ بن پاتا۔
گوادر سے کاشغر روٹ چونکہ دو ہزار میل سے زیادہ طویل ہے، اس لئے مختلف آپشنز پر غور کیا جاتا رہا،بعد میں دو سے تین روٹ طے بھی ہوئے۔وہی روٹس جن پر کام شروع ہوچکا ہے اور ہوتا رہے گا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اس قسم کے میگا پراجیکٹس کے لئے کئی قسم کی فزیبلٹی بنتی ، درجنوں نقشے بنائے جاتے اور مختلف ترامیم کے ساتھ منصوبوں پر غور ہوتا ہے۔ ہم اپنے مکان کا ایک کمرہ بنائیں، ایک دکان تعمیر کرائیں تو کتنے لمبے چوڑے منصوبے بناتے، کتنے جھنجھٹ نمٹاتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی منصوبہ شروع میں کاغذ پر کوئی اور تھا، بعد میں وہ تبدیل ہو کر کیا سے کیا ہوگیا۔ چائنا پاک اکنامک کاریڈور نے بھی فطری طور پر یہ تمام مراحل طے کئے ، اس لئے ماضی کے کسی ایک نقشے کو پکڑ کر شور مچانا نرم سے نرم لفظوں میں بچگانہ حرکت ہی کہی جائے گی۔
تیسری حقیقت جو دراصل سامنے کی بات ہے ، ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اتنے بڑے منصوبے پر ،جہاں ایک دو نہیں بلکہ تیس چالیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنی ہو،اس کے لئے کبھی ایک روٹ پر اکتفا نہیں کیا جاتا۔ کوئی احمق سے احمق سرمایہ کار بھی اپنا سرمایہ لگانے کے لئے تیار نہیں ہوتا، جب تک اس کے لئے متبادل روٹ کی آپشن موجود نہ ہو۔ چینی دنیا کی سمجھدار ترین قوموں میں سے ایک ہیں، بزنس کرنا جنہیں آتا ہے، وہ پچاس سال آگے کا بھی سوچتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ گوادر تا کاشغرٹریڈ کے لئے صرف ایک ہی سڑک پر خوش ہو کر بیٹھ جائیں گے؟ یہ روٹ صرف بلوچستان میں ایک ہزار میل سے زیادہ طوالت رکھتا ہے۔ کہیں پر کوئی مسئلہ ہوجائے، شورش کرنے والے گروہ حملے شروع کر دیں، تب کیا ہوگا؟ کیا دنوں، ہفتوں، مہینوں کے لئے یہ سب تجارت روک دی جائے گی؟ ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ اسی لئے سرمایہ کار اتنی بڑی سرمایہ کاری سے پہلے متبادل روٹ بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ویسے بھی اگر ہزاروں کنٹینر گوادر سے کاشغر کے لئے روانہ ہوں تو ایک روٹ پر دبائو زیادہ بڑھانے کے بجائے کیا یہ زیادہ بہتر نہیں سمجھا جائے گا کہ ٹریفک بیک وقت دونوں روٹ پر چلے ، تاکہ سامان کم سے کم تاخیر سے مطلوبہ منزل تک پہنچے۔
ان تینوں نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بھی سمجھ لیں کہ روٹس کون کون سے ہیں اور تنازع کیا ہے۔ اے این پی اور اس کی ہمنوا جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں کہ کوئٹہ کو روٹ میں ضرور شامل کیا جائے۔ یہ روٹ دراصل گوادر سے قلات، کوئٹہ اور پھر بلوچستان کے پشتون اضلاع ژوب سے ہوتا ہوا خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع ڈی آئی خان ، ٹانک ، بنوں سے ہوتا ہوا پھر آگے ہزارہ ڈویژن اور پھر خنجراب تک جاتا ہے۔یہ درست ہے کہ نسبتا مختصر راستہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ ڈی آئی خان سے ژوب تک سٹرک بنانی ہے، راستہ آسان نہیں ، پہاڑ ہیں، خاصی محنت کرنی ہوگی۔ اس کے بعد ژوب سے کوئٹہ تک سٹرک بنانی ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ وزیرستان کی ایجنسیاں ڈی آئی خان کے ساتھ ہیں، ٹانک بھی مضطرب علاقہ ہے۔ اس سب کچھ کے باوجود مزے کی بات یہ ہے کہ حکومت اس روٹ کو پہلے مکمل کر رہی ہے، نیشنل ہائی وے کو ٹینڈر بھی دیا جا چکا ہے، توقع ہے کہ اگلے سال کے آخر تک یہ روٹ مکمل ہوجائے گا۔ میرے ذاتی خیال میں یہ روٹ لازمی مکمل ہونا چاہیے، بلکہ اسے پہلے فنکشنل بنانا چاہیے، جو انڈسٹریل زون بنائے جانے ہیں، ان میں سے بعض اس روٹ کے گرد بنائے جائیں۔
وجہ تنازع یہ ہے کہ پاک چائنہ کاریڈور کے دوسرے روٹ پر بھی ساتھ ساتھ کام کرنا ہے۔ یہ روٹ گوادر، تربت، پنجگور، خضدار سے سندھ نوڈیرو ، پھر سکھر اور اس کے بعد رحیم یار خان، ملتان، لاہور اور پھر اسلام آباد تک چلا جاتا ہے۔ اس طرح سندھ اور پنجاب بھی کاریڈور کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ کے جو اضلاع اس روٹ میں ہیں، وہ بھی پسماندہ ہیں اور رحیم یار خان سے ملتان تک جنوبی پنجاب کے اضلاع کے بارے میں بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ وہاں کس قدر پسماندگی اور محرومی ہے۔ اس روٹ کے دو فوائد ہیں ، ملتان تا اسلام آباد موٹر وے کے فیز مکمل ہیں، سکھر تا ملتان موٹر وے پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس روٹ کو نسبتاً زیادہ محفوظ اور شورش والے علاقوں سے دور سمجھا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ کراچی لاہور موٹر وے سے اکنامک روٹ ایک طرح سے کراچی سے بھی جڑ جائے گا، ادھر آزاد کشمیر کے اہم علاقوں کو بھی ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یعنی کاریڈور اپنے مختلف روٹس کے ذریعے پاکستان کے پانچوں صوبوں(بلوچستان، سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا اور گلگت بلتستان) کے ساتھ آزاد کشمیر کے ساتھ منسلک ہو کر قومی یکجہتی اور خوشحالی کی ایک علامت بن جاتا ہے۔
آخر میں صرف ایک بات سمجھنی چاہیے کہ اس کاریڈور کے حوالے سے کچھ باتیں اعلانیہ نہیں کہی جا سکتیں، مگر اس کاریڈور کا اصل پلان زیادہ بڑا ہے، اگر بھارت عقلمند ی کا مظاہرہ کرے اور پاکستان دشمنی ترک کر لے تو لاہور کے روٹ کے ذریعے وہ بھی اس گریٹر پلان کے ساتھ جڑ سکتا ہے، گوادر سے اسے بھی فائدہ ہوسکتا ہے اور اس روٹ پر ریسرچ کرنے والے ہمارے ایک صحافی دوست کے مطابق خیبر پختون خوا کے علاقوں کی وجہ سے بین السطور ایک خواب بھارت کو بھی دکھایا گیا ہے، افغانستان تک تجاری رسائی حاصل کرنے کا خواب۔ اس لئے براہ کرم چھوٹی تصویر دیکھنے والے بڑی تصویر پر بھی نظر ڈال لیں، کچھ نئی باتیں ہی پتہ چل جائیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں