علم وحکمت کا شہر

زندگی میں ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی خواب ہوتا ہے۔اکثریت انہیں ساتھ لئے قبر میں چلے جاتے ہیں۔جولوگ اپنے خوابوں کی عملی تعبیرکے لئے جدوجہد کرتے ہیں،ا ن کی زندگیاں مختلف اسلوب پر استوار اور بسر ہوتی ہیں۔دولت مند بننے اور اپنی زندگی تعیش سے گزارنے کا سپنا دیکھنے میں برائی نہیں ہے، مگر اس کا کینوس محدود ہے اور تمام تر کاوشوں کا مقصد صرف ایک ذات تک ہی محدود رہ جاتا ہے۔ وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کے خواب ان کی ذات کے گرد نہیں گھومتے ، ان کی زندگیاں ، ان کے سپنے، سوچیں اور عمل کے لمحات اجتماعی مفاد کی خاطرہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کہنے کو تو صرف ایک زندگی جیتے ہیں، ساٹھ ستر ، اسی سال کی زندگی ،مگر اس میں وہ کئی زندگیوں جتنا سفر طے کر لیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کا سفر ختم ہوجائے ، تب بھی ایک نئے انداز سے یہ جاری رہتا ہے، اس کے رنگ پھیکے نہیں پڑتے، نقوش مٹتے نہیں۔ کراچی کی اس گرم ، تپتی دوپہر مدینتہ الحکمت میں کھڑے میں نے سوچا کہ بلا شبہ حکیم سعیدشہید ایسے ہی شخص تھے۔
حکیم سعید کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کون ہے جو ان کے بارے میں نہیں جانتا۔ طب کے حوالے سے ان کی خدمات عالمی سطح پر تسلیم کی جا چکیں، وہ ماہر تعلیم بھی تھے، دانشور ، انٹرپرینئور ،ادیب بھی اورنجانے کیا کیا کچھ اور اس ملک اور قوم کے لئے کر ڈالا۔ ہمدردر لیبارٹریز جیسا کامیاب ادارہ بنایا ،مگر کمانے کے بجائے اسے وقف بنا ڈالا، اپنی عمر بھر کی محنت ایک بڑے مقصد کے نام کر دی۔ ہمدرد شوریٰ کے نام پر ماہانہ فکری ، علمی نشستوں کی طرح ڈالی، جو آج تک جاری ہے۔ بچوں کے لئے نونہال جیسا اصلاحی، دلچسپ جریدہ نکالا، جس نے تین نسلوں کی تربیت کا کام کر ڈالا۔ نونہال اسمبلی کے پلیٹ فارم سے بچو ں میں اسلام ،پاکستان اور بانیان پاکستان کی محبت پیدا کی۔ ایک دلچسپ مقصدی دعا بھی لکھوا ڈالی جو سکولوں کی اسمبلی میں گائی جاتی ہے، دعائے سعید نامی یہ پرا ثر نظم پڑھ کر حکیم صاحب کے ویژن اور سوچ کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان سب سے بڑھ کر ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے کراچی کے ویرانے میں مدینتہ الحکمت بنا ڈالا۔ علم وحکمت کا شہر۔ ایک پوری بستی جہاں سے علم وفکر کے سوتے پھوٹ رہے ہیں۔
مدینتہ الحکمت کا تذکرہ حکیم سعید صاحب کے آخری برسوں میں ہوتا رہا، یہ بھی پتہ چلا کہ انہوں نے وہاںلاکھوں کتابوں پرمشتمل ایک شاندار لائبریری بنائی ہے، جس میںبہت سی نایاب کتب بھی شامل ہیں۔ مستنصر حسین تارڑ صاحب نے چند سال پہلے مجھے بتایا تھا کہ حکیم سعید نے مصنفین کو درخواست کی کہ وہ اپنی مشہور کتابوں کے ہاتھ سے لکھے گئے ابتدائی مسودے بھیجیں، لائبریری میں انہیں محفوظ کیا جائے گا۔ تارڑ صاحب نے بھی اپنے ایک ناول کا مسودہ انہیں بھیجا۔ حکیم سعید کو مٹی اوڑھے دو عشرے ہونے کو آئے ہیں، جو پودا انہوں نے لگایا تھا، وہ اب تناور درخت بن گیا۔چند دن پہلے ہمدرد مرکز لاہور کے انچار ج علی بخاری صاحب نے ہمدرد یونیورسٹی کے کانووکیشن کے سلسلے میں کراچی کے لئے مدعو کیا۔ مدینتہ الحکمت کود یکھنے کا شوق کراچی کھینچ کرلے گیا۔وہاں دو دن رہے، شیڈول بہت ہی سخت تھا، مگر جی خوش ہوا۔
مدینتہ الحکمت حقیقی معنوں میں علم وحکمت کا شہر ہے۔ اسے دیکھنا ایک شاندار تجربہ ہے۔وہاں ہمدرد سکول، کالج اور شاندار ہمدردیونیورسٹی بن چکی، جس کی سات فیکلٹیز ہیں...میڈیکل، انجینئرنگ، بزنس، سوشل سائنسز، حکمت اور فارمیسی۔ یہ بستی کراچی کے دور دراز علاقے سرجانی ٹائون سے بھی کچھ آگے بسائی گئی۔ یہ علاقہ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔ چند کلومیٹر دور بلوچستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ دور دراز تک یہاں کوئی تعلیمی ادارہ موجود نہیں تھا۔ حکیم سعید شہید نے ساڑھے تین سو ایکڑ اراضی خریدی۔ وہ بااثر آدمی تھے، اعلیٰ قومی شخصیات ان سے متاثر تھیں، مگر زمین الاٹ کرانے کے بجائے خریدی گئی۔ لوگوں نے مشورہ دیا کہ یونیورسٹی کے حوالے سے ضابطے کی پابندی بھی ستر اسی ایکڑ تک ہی ہے، مگر حکیم سعید نے کہا کہ نہیں میں اگلے سو سال کو نظر میں رکھ کر اتنی بڑی جگہ لے رہا ہوں۔ اس وقت وہاں سڑک تھی نہ بجلی، اپنے خرچ پر سب کرایا۔ اعتراض کرنے والوں کو یہی جواب دیتے، '' یہ نظرانداز علاقہ ہے، کراچی شہر میں تو بہت سے تعلیمی ادارے ہیں، یہاں کون بنائے گا؟پھر یہ جگہ بلوچستان سے آنے والوں کو بھی قریب پڑتی ہے، وہاں سے بھی لوگ آ سکیں گے۔ ‘‘یونیورسٹی کے وائس چانسلر حکیم ڈاکٹر عبدالحنان نے نم آنکھوں سے بتایا،'' ہم لوگ سوال اٹھاتے کہ جب کیمپس بن رہا تھا، ان دنوں کوئی سوال کرتا کہ اس ویرانے میں کون آئے گا؟ حکیم سعیدجواب دیتے، میں یہاں بچوں کوچلتے پھرتے دیکھ رہا ہوں۔‘‘بعد میں جب سکول بن گیا اور یونیورسٹی بھی شروع ہوگئی تو کبھی کبھی ازراہ تفنن حکیم سعید مسکرا کر احباب کو وہ بات یاد دلاتے۔ حکیم سعید نے شروع ہی میں ایک ویلج سکول بنایا، جہاںآس پاس کے گوٹھ والوں کے بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سکول کو دیکھ کر خوشگوار احساس ہوا۔ نہایت صاف ستھراسکول، جہاں معصوم بچے کرسی میز پر بیٹھے پڑھ رہے ہیں، پتہ چلا کہ کتابوں، کاپیوں کے علاوہ یونیفارم بھی مفت دی جاتی ہے۔ ایک پرانے ٹیچر نے بتایا کہ حکیم صاحب ذاتی طور پر قریبی دیہات میں جا جا کر لوگوں کو اپنے بچے پڑھانے کے لئے قائل کرتے رہے ۔
مدینتہ الحکمت میں گھومتے پھرتے ایک عجیب احساس ہوا۔ یوں لگا جیسے ہر جگہ میں حکیم صاحب کی جھلک موجود ہے، ہر ادارے میں ان کا عکس، ان کے رنگ نظر آتا ہے۔ سٹاف میں ، جس سے بھی پوچھا جاتا، جواب ملتا کہ بیس ، پچیس یا تیس برسوں سے کام کر رہے ہیں۔ ہر ایک حکیم صاحب کے قصے سناتا اور ان سے اپنے تعلق خاطر پر ناز اں ہوتا۔ حکیم سعید کی شہادت کو سترہ برس گزر چکے ہیں، مگران کا کام ، ان کے خیالات کا عکس ویسا ہی نظر آ تا ہے۔ حکیم صاحب کی صاحبزادی سعدیہ راشد صاحبہ اور ان کی پوری ٹیم کو یہ کریڈٹ جاتا ہے۔ مدینتہ الحکمت میںیادگار سعید کے نام سے پانچ کمرے مختص کئے گئے ہیں، وہاں جانے والے ہر شخص کو میں یادگار سعید دیکھنے کی ضرور سفارش کروں گا۔ شہادت کے وقت حکیم صاحب کا بیڈر وم جس حالت میں تھا،بالکل اسی طرح اٹھا کر یادگار سعید میں محفوظ کر دیا گیا، حکیم صاحب کا سٹڈی روم جہاں وہ ملاقاتیں بھی کرتے تھے، یونیورسٹی میں بطور چانسلرکمرہ ، ان کی تقریریں، کتابیں، ان پر لکھا ، نشر کیا سب مواد محفوظ ہے۔ حکیم صاحب کے بیڈروم کی سادگی دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔پرانا مٹیالا قالین، اس پر پتلا سامیٹرس بچھا ہے، اسی پر سوتے تھے،سرہانے دو تین کتابیں رکھی ہیں، جو اس رات مطالعہ کر رہے تھے، پاس جائے نماز بچھی ،کمرے میں پرانی وضع کا ٹی وی، جو شائد 80ء کے عشرے کا تھا، کرسی درمیان سے پھٹی تھی، جس پر کشن رکھ کر حکیم صاحب کام چلا رہے تھے۔ وہ شخص جو چاہتا تو ارب پتی کی زندگی گزار سکتا تھا، اس نے اپنی ضروریات اتنی محدود کر لی تھیںاور تمام وسائل علم وحکمت کا شہر بسانے پر صرف کر دیں۔زندگی میں بہت کم لوگوں پر ایسا رشک آیا۔ اللہ تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کو سربلند کرتا اور ان کے جانے کے بعد بھی ان کے کام اورنام کو زندہ رکھتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں