ذوق کس نے پست کیا ؟

تین چار سال پہلے ایم اے صحافت کے طالب علموں کو پڑھانے کے مواقع ملے، اس دوران دلچسپ تجربات ہوئے، ایک آدھ بار پہلے بھی اس حوالے سے لکھ چکا ہوں۔ بعض اچھے طالب علموں سے بھی واسطہ پڑا، مگر مجھے شدید حیرت ہوئی کہ بیشتر طلبہ اوسط سے بھی نچلے درجے کی اہلیت کے حامل تھے۔ مطالعہ کا ذوق نہ ہونے کے برابر تھا، کتاب تو خیر دور کی بات ہے، اخبار تک تفصیل سے نہ پڑھتے۔ سرخیوں پر نظر ڈال کر پھینک دینے والا مزاج تھا۔ کالم پڑھنے والے دو چار ہی ہوتے ، ان میں سے بھی زیادہ تر وہ ، جنہوں نے ہفتے دس دن میں ایک آدھ کالم پڑھ لیااور اسی پر کالم نگار کے بارے میں رائے بھی قائم کر لی۔کالم نگاری کا مضمون پڑھا رہا تھا، کالم کے مختلف انداز اور لکھنے والوں کے مخصوص اسلوب پر گفتگو ہوتی رہتی ۔ بحث کرنے میں کوئی پیچھے نہ رہتا، بڑھ چڑھ کر مختلف لکھنے والوں پر تیر برسائے جاتے ، مگر جب کریدا جاتا تو معلوم ہوتا کہ آخری بار اس کا کالم سال پہلے پڑھا تھا۔ رفتہ رفتہ اندازہ ہوا کہ بحث کا انداز ہمارے نیوز چینلز کے ٹاک شوز کا تحفہ تھا۔زیادہ گہرائی میں جائے بغیر صرف اپنا نقطہ نظر بیان کر دینا اور مخالف کی بات پر جو فوری طور پر ذہن میں آ جائے ، اسے اونچا اور تیز تیز بول دینا بلکہ بولے چلے جانا ۔ ٹاک شوز میں کامیابی کا بھی یہی گر تھا اور ہمارے نوجوان طلبہ پر بھی اس کارنگ واضح طور پر محسوس ہو تا۔
مجھے اندازہ ہوا کہ طلبہ میں کتاب کلچر سے دوری کی وجہ سے بہت سی بنیادی معلومات موجود نہیں تھیں۔ دراصل کرنٹ افیئرزٹاک شوز تو حالات حاضرہ کے گرد گھومتے ہیں، مگر ماضی سے جڑے بغیر حال کا تجزیہ اورمستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کیسے ہوسکتی ہے؟کتاب ہی ہمیں ماضی سے جوڑتی اور مختلف زمانوں سے ہمیں متعارف کراتی، ان کے تجربات، مشاہدات، تاثرات کو ہم تک منتقل کرتی ہے۔ جس کے ہاتھ سے کتاب چھوٹ گئی، اس کا نہ صرف حافظہ جواب دے گیا بلکہ آنے والے چیلنجز کو سمجھنے ، اس کا مقابلہ کرنے کے لئے جن ہتھیاروں کی ضرورت پڑتی ہے، وہ ان میں سے بیشتر سے بھی محروم ہوگیا۔
یہی وجہ تھی کہ کئی ایسی باتیں جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ہر کوئی انہیں جانتا ہوگا، وہ ان نوجوانوں تک نہیں پہنچ پائی تھیں۔ الف لیلہ ولیلہ کہانیوں کی مشہور کتاب ہے، دنیا بھر کے ادب پر اس کے اثرات ہیں، پائیلو کوہیلو کے مشہور ناول الکیمسٹ پر اس داستان کے گہرے اثرات موجود ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ طلبہ کو اس کے بارے میں کچھ نہیں پتا تھا۔ انہوں نے اس کا کبھی نام تک نہیں سنا۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی الف لیلہ نہ پڑھ سکے، مگر اس کے بارے میں علم تک نہ ہو، یہ زیادہ شرمندگی کی بات ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے سرپرائزہمیں اکثر ملتے رہے۔ ایک کلاس میں ذکر کیا کہ اردو کے بہت بڑے فکشن نگار انتظار حسین اب کالم بھی لکھ رہے ہیں، آپ لوگ ان کی شاندار نثرسے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ چہرے سپاٹ دیکھ کر حیرت ہوئی،معلوم ہوا کہ ایم اے ماس کمیونیشن کے طلبہ انتظار حسین سے بالکل ہی واقف نہیں۔ لاہور کی ایک مشہور خواتین یونیورسٹی کی بڑی لائق فائق بچی جو پوزیشن لیا کرتی تھی، ایک بار ہمارے اخبارمیں انٹرن شپ کرنے آئی۔ اسے ایک بار باتوں باتوں میں مشورہ دیا کہ اچھا لکھنا چاہتی ہو تو اردو کے اچھے لکھاریوں کو پڑھو۔ منٹو، بیدی، کرشن چندر، اشفاق احمد ، غلام عباس وغیرہ کے نام لئے۔ ان میں غلام عباس خوش نصیب نکلے کہ ان کا کوئی افسانہ نصاب میں شامل ہونے کی وجہ سے ان کا نام پہچان لیا گیا، ورنہ اس عفیفہ نے باقی بزرگواروں کے بارے میں صاف صاف پوچھ ڈالا کہ یہ حضرات ہیں کون؟ ابھی اگلے روز ایک چینل میں کام کرنے والی بچی منٹو کے بارے میں کچھ پوچھنے آئی ۔ میں نے سوچا کہ شائد تھیسس لکھ رہی ہیں، معلوم ہوا کہ انہیں منٹو صاحب کے بارے میں چند سطروں میں نوٹ چاہیے کہ یونیورسٹی کی کسی اسائنمنٹ کا حصہ ہے۔ منٹو کو انہوں نے کبھی پڑھا، نہ ہی ان کے مشہور افسانوں کے نام معلوم تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو میڈیا کا حصہ بننے والے ہیں یا بن چکے ہیں۔ اپنی ایک کلاس میں تنگ آ کر میں نے کہہ دیا کہ آپ لوگوں میں سے کچھ اگلے چند ماہ میں ٹی وی چینلز اور اخبارات کا حصہ ہوں اور اپنی اس تباہ کن جہالت کے ساتھ وہاں معلوم نہیں کیا قیامت ڈھائیں گے؟بدقسمتی سے اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے ان میں سے بعض کو مختلف چینلز پر بطور اینکر کام کرتے دیکھ رہا ہوں۔ مزے کی بات ہے کہ جو جتنا نالائق تھا، اسے اسی قدر جلد چانس ملا، خاص کر جو خوش چہرہ لڑکیاں تھیںاور انہیں بلا رکے بولتے جانے کا'' عظیم ہنر‘‘ آتا تھا ،و ہ تو فوراً ہی ملازمت پر لے لی گئیں۔
برادرم خورشید احمد ندیم نے گزشتہ روز اپنے کالم میں ذوق کے پست ہونے کا ذکر کیا اور اسے تہذیبی المیہ قرار دیا۔ انہوںنے عالم بے بدل سید مودودی اور اردو کے منفرد مزاح نگار ابن انشا کی کتب بازار سے نہ ملنے کا شکوہ کیا ۔جو نقطہ انہوں نے اٹھایا ، وہ اپنی جگہ بالکل درست ہے۔ کئی ممتاز لکھاریوں کی کتب آئوٹ آف پرنٹ ہیں ۔ شاہد حمید صاحب نے تاریخ انسانی کے سب سے بڑے ناول یا یہ کہہ لیں کہ دو تین عظیم ترین ناولوں میں سے ایک جنگ اور امن (ازٹالسٹائی)کا اردو ترجمہ کیا تھا۔ ایسا شاندار ترجمہ کم ہی دیکھنے کو ملا۔ یہ کتاب دس پندرہ سال پہلے شائع ہوئی اور پچھلے ایک عشرے سے زائد عرصے سے آئوٹ آف پرنٹ ہے کہ کوئی ناشر اس ضخیم کتاب پر سرمایہ کاری کے لئے تیار ہی نہیں۔ ایک ناشر نے کئی برس تک مسودہ رکھنے کے بعد واپس کر دیا۔ اگلے روز معروف افسانہ نگار اور کتاب دوست عرفان جاوید اردو کی پانچ شاندار آپ بیتیوں کے بارے میں بتا رہے تھے ، جوطویل عرصے سے آئوٹ آف پرنٹ ہیں۔
سوال یہی ہے کہ قوم کی ادبی، علمی ، فکری تربیت کیوں نہ کی گئی؟ قوم کے ذوق کی پرورش کیوں نہ ہوئی، ان کا ذوق پست کیوں ہوا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اہل علم کو اس پر قلم اٹھانا چاہیے۔ میرے خیال میں تو ہم سب کچھ نہ کچھ اس کے ذمہ دار ہیں۔ پڑھے لکھے گھرانوں میں کتاب دوستی کا کلچر مروج تھا، اخبارات، رسالے آتے ، بچوں کو اس جانب متوجہ کیا جاتا۔ ہمارے والد نے ہمیشہ ایسا کیا۔ بیشتر کتابیں ان کی لائبریری سے پڑھیں، اخبار، رسالے پہلے پڑھنے کے لئے ہم دونوں بھائیوں میں باقاعدہ جنگ ہوا کرتی۔ یہ روایت اب کم ہی نظر آتی ہے۔ اساتذہ کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ رئوف کلاسرا اپنے ادبی ذوق کی آبیاری کے حوالے سے ہمیشہ اپنے استادڈاکٹر انوار احمد کا نام لیتے ہیں ۔ آج کتنے استاد یہ کام کر رہے ہیں؟ بیشتر بلکہ سچ پوچھئے تو نوے فیصد اساتذہ خود کتابیں نہیں پڑھتے۔ وہ صرف اس لئے استاد بنے کہ زندگی میں ہر طرف سے ناکام ہوگئے اور صرف ملازمت کی غرض سے ادھر آگئے۔ ستر کے عشرے میں علمی ، ادبی، فکری تحریکیں چلا کرتی تھیں، سٹڈی سرکل فیشن بن چکا تھا، 80ء کے عشرے میں بھی کسی قدر یہ رجحان رہا۔ کنزیومر ازم یہ سب کچھ نگل گیا۔ میڈیا کا حال ہم سب کے سامنے ہے۔ کالم نگار وں نے بھی اپنے فرض سے شدید غفلت برتی۔ کتنے کالم نگار ایسے ہیں جو نئی کتابیں پڑھتے، ان کا حوالہ دیتے ہیں؟ بیشتر تو اخبار کی فائل ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ پی ٹی وی کے زمانے میںمستنصر حسین تارڑ صبح کی نشریا ت کرتے تھے، وہ ہفتہ میں ایک دو دن ضرور نئی کتابوں کے حوالے دیتے، ناظرین کی تربیت کرتے۔ آج کہیں کسی کو ایسا کچھ ہوتا نظر آئے، تو مجھے ضرور بتلائے۔ کتابوں کو ان فیشن کرنا پڑتا ہے۔ اہل علم ، ارباب دانش، میڈیا کے جگمگاتے ستارے اگر کتابوں پر گفتگو کریں گے، ان کے حوالے دیں گے اور اپنے چاہنے والوں کو وہ کتابیں پڑھنے کا مشورہ دیں گے تو کچھ ہی عرصے میں یہ رجحان بن جائے گا۔ اس ذوق کو پست کرنے میں ہم سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اسے بہتر کرنے میں بھی ہر ایک کو ہاتھ بٹانا ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں