انجانی دنیا

انجانی یا نامعلوم دنیا کا کھوج لگانا شائدا نسان کی فطرت میں شامل ہے۔جوچیزیں نظر آ رہی ہیں، جن کا تجزیہ کرنا، حقیقت تک پہنچناممکن ہے، وہ تو اس کی توجہ کا مرکز ہیں ہی اور سائنس دان صدیوں سے اپنے تجربات کے ذریعے ان کی حقیقت پر مہر تصدیق لگاتے رہے ہیں۔سائنس کا تو سیدھا ساد ا اصول ہے، جو چیز متواتر تجربات سے ثابت ہوسکتی ہے، جسے ناپا ،جانچا جا سکتا ہے، اس کے لئے وہ مختلف اصول وضع کر لیتی ہے۔ اس حوالے سے بھی مختلف نظریات آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی نظریے پر صدیوں تک سائنس دان یقین رکھتے رہے ، پھر کسی بڑے دماغ نے ایسا نظریہ پیش کر دیا، جس نے سب کچھ بدل ڈالا، سائنسی شواہداور تجربات نے اس تازہ نظریہ کی تائید کی تو پوری سائنسی دنیا نے گھوم کر اس طرف منہ کر لیا۔ گلیلیو سے کوپرنیکس، نیوٹن سے آئن سٹائن اور پھر عہد جدید تک ایسے عظیم دماغوں کی پوری فہرست تیار کی جا سکتی ہے۔یہ معلوم کی دنیا ہے، جس میں تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈی این اے دریافت ہونے سے بہت کچھ واضح ہوا، سٹیم سیلز کے حوالے سے بریک تھرو ہوا، جینز کے بارے میں جدید تحقیقات جس طرح جاری ہے، اس سے اگلے چند برسوں کے اندر بہت کچھ بدل جانے کی توقع ہے۔ موبائل فون سے سمارٹ فون، انٹرنیٹ سے فور جی تک کی ایجادات اور ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے انسانی زندگی میں انقلاب برپا ہو گیا ہے۔ 
ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے، کئی امراض کے حوالے سے ابھی تک معلومات ادھوری ہیں، کینسر، ایڈز جیسے امراض آج بھی انسان کے لئے تباہ کن ہیں۔ماضی میں کئی سنگین بیماریوں کے حوالے سے یہی کہا جاتا تھا، آج ان کے موثر علاج اور بعض کی ویکسین ایجاد ہوچکی ہے، ان کی تباہ کاری صفر ہوچکی ہے۔ چیچک ایسا ہی مرض ہے، جو ماضی میں لاکھوں لوگوں پر اثر انداز ہوتا تھا، آج نئی نسل میں بہت سے اس کا نام تک نہیں جانتے۔ پولیو پاکستان سمیت دو تین چار ممالک ہی میں رہ گیا ہے، باقی دنیا نے موثر ویکسین کے ذریعے اسے صفر کر دیا۔بعض بیماریوں کے حوالے سے البتہ صورتحال مختلف ہے۔ اگلے روزو الدہ محترمہ کے علاج کے سلسلے میں لاہور کے ایک سینئر نیورو فزیشن سے میٹنگ تھی، بوڑھے پروفیسر نے صاف کہہ دیا،'' ایلزائمر کا موثر علاج ابھی موجود نہیں،ریسرچ بہت زیادہ ہو رہی ہے ، لیکن بڑی کامیابی نہیں مل سکی، کچھ فیصد تک ادویہ بہتری لا سکتی ہیں، اس سے زیادہ نہیں۔‘‘یہ معلوم کی دنیا ہے جو ایک خاص قرینے، ڈھب سے چلتی ہے۔ اس کی کچھ محدودات ہیں، جو بسا اوقات لوگوں کو انجان دنیا کی طرف کھینچتی ہیں‘ جو ابھی نامعلوم کی دھند میں لپٹا ہے، معلوم کی دنیا اور اس کے سائنسی آلات کی رینج میں نہیں آیا، اسے جاننے کی خواہش بہت سوں کے دل میں مچلتی ہے۔
نامعلوم کی دنیا کے بارے میںہم کچھ یقین سے کہہ نہیں سکتے۔ یہی اس دنیا کی کشش اور یہی اس کاخطرناک پہلو ہے۔ حتمی رائے دینا مشکل ہے، بہت کچھ ممکن ہے اور کبھی کچھ بھی نہیں ہوپاتا، خوفناک بے بسی کی دیوار حائل ہوجاتی ہے۔ دراصل کچھ چیزیں،کچھ باتیںسائنسی تجربات سے ماورا ہیں، انہیں اس طرح جانچا اور پرکھا نہیں جا سکتا ۔طبعیات (فزکس) کے قوانین ان پر منطبق نہیں ہوسکتے، دلیل اور منطق سے ان کا رد ہو سکتا ہے نہ اثبات ممکن ہے۔ ماہرین نے ان کے لئے مابعد الطبعیات (میٹا فزکس)کی اصطلاح ایجاد کر لی۔ اس مابعدالطبعیاتی دنیاسے انٹرایکشن کی مختلف قسمیں، سطحیں ہیں۔ یہ بہر حال حقیقت ہے کہ قدیم تاریخ سے اس کی ایک خاص حیثیت رہی ہے۔ قدیم یونان کے بڑے دماغ بھی اس کے سحر سے نہیں بچ پائے۔ اس زمانے میں ڈیلفی کے مقام پر ایک پراسرا کنواں تھا، جہاں بلند آواز میں کوئی سوال پوچھا جاتا تو ندائے غیبی جواب دیتی۔ یہ جواب مبہم ہوتا ، جس کی تعبیر وتشریح کے لئے ایک کاہنہ یا پجارن موجود ہوتی، وہ جواب سمجھ کر سائل تک پہنچاتی۔ ڈیلفی کی ندائے غیب کی کئی سو سال تک شہرت رہی ۔ کہتے ہیں ، کسی نے سقراط کے دور میں ڈیلفی جا کر سوال پوچھا کہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا عقل مند شخص کون ہے، جواب ملا، ''سقراط‘‘۔ سقراط کو یہ بات بتائی گئی تو وہ بہت خوش ہوا اور اس نے اپنے مخصوص انداز میں فقرہ کہا،''مجھے اس لئے سب سے عقلمند کہا گیا ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘سکندر اعظم نے یونان سے رخصت ہونے سے پہلے ڈیلفی سے جا کر مشورہ کیا تھا، اسے فتوحات کی نوید سنائی گئی ، مگر یہ بھی کہا گیا کہ وہ نوجوانی ہی میں دنیا سے رخصت ہوگا اور کبھی زندہ یونان نہیں آ سکے گا۔ رفتہ رفتہ ڈیلفی بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا کہ اس کی پیش گوئیاں غلط ہونے لگیں، دھیرے دھیرے یہ جگہ ویران ہوگئی۔ 
ہرا نسان کو اپنے مستقبل سے غیرمعمولی دلچسپی ہوتی ہے، وہ جاننا چاہتا ہے کہ مقدر کے نظر نہ آنے والے پردوں سے کیا نمودار ہوگا؟ آنے والے دنوں کی تباہ کاری سے کس طرح بچا جا سکتا ہے اور حال کی ظفرمندی، کامیابی کا سفر کیسے طویل کیا جائے؟ہر ایک کو زندگی میں بعض فیصلے ایسے کرنے پڑتے ہیں، جن کے اثرات تادیر باقی رہتے ہیں۔ اپنے رفیق حیات کا انتخاب، موزوں پیشے کا چنائو، اپنی جمع پونجی کس جگہ لگائی جائے، سب کچھ بیچ باچ کر پردیس کا سفر کیا جائے؟ ملازمت چھوڑ کر کاروبار کی وادی پرخار میں جانے کا خطرہ مول لیا جائے... یہ اور اس طرح کے دیگر کئی سوالات آدمی کودرپیش ہوتے ہیں۔ ان کے جوابات کے لئے ہی نامعلوم کی دنیا سے شناسائی رکھنے والوں کا رخ کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جو مستقبل پر نظر رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان تک پہنچنے والوں کی اکثریت یہی سوالات لے کر آتی اور جواب پانے کے لئے زرکثیر خرچ کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔
انجانی دنیا تک رسائی پانے کی تین چار سطحیں ہیں۔ بعض علوم ایسے ہیں، جن کے ماہرین انسانی شخصیت کے بھرپور تجزیہ، ماضی کے پوشیدہ واقعات اور مستقبل کے حوالے سے پیش گوئیاں کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان علوم میں سب سے نمایاں اور قدیم علم نجوم یا آسٹرالوجی ہے۔ زمانہ قدیم سے نجومی زائچے بناتے اور اپنی دانست میں ستاروں کی چالیں پڑھ کر پیش گوئیاں کرتے آئے ہیں۔تاریخ کے صفحات پرایسے بہت سے حیران کن واقعات محفوظ ہیں، جن میں کسی نجومی نے جو پیش گوئی کی ، وہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی۔ آسٹرالوجی نے عہد ِجدید میں بھی پزیرائی حاصل کی ہے۔مغرب میں بھی بہت لٹریچر اس پر دستیاب ہے۔ آسٹرالوجی کے ماہرین بہت سے اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں، بے شمار ویب سائیٹس ایسے مواد سے لبریز ہیں۔علم نجوم کا ہندوستان میں بہت رواج ہے۔ وہاں شادیوں سے پہلے جنم کنڈلی (پیدائش کا زائچہ)بنوانے کا عام رواج ہے، پنڈت لڑکا، لڑکی کی کنڈلی بنا کر ان کی آپس کی مطابقت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ناموزوں کنڈلی کے نحس اثرات دور کرنے کے لئے مخصوص عبادات اورکبھی کسی درخت کے ساتھ علامتی شادی جیسی حرکتیں بھی کی جاتی ہیں۔ ایوان اقتدار کے مکین ان باتوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے وہ نجومیوں سے مشورے لیتے اور انہیں مدنظر رکھتے ہوئے بڑے فیصلے کرتے ہیں۔بھارت میں وزیراعظم کے حلف کا وقت بھی ان ''ماہرین‘‘ سے مشورے کے بعد مقرر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میںبھی بعض حکمران نجومیوں سے مشورے لیتے رہے ہیں۔ ویسے تو امریکہ جیسے ملک میں صدر ریگن کی اہلیہ نینسی ریگن سے بھی یہ سب باتیں منسوب کی جاتی ہیں۔کہا جاتا ہے کہ وہ صدر کاسفری شیڈول بھی جین ڈکسن سے مشورہ کر کے طے کرتی تھیں۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد نجومیوں کے علاوہ، دست شناس،ماہرعلم الاعداد، روحانی ماہرین کے گھروں کا چکر لگاتی رہتی ہے۔ بعض اللہ والوں کی چوکھٹ بھی اسی غرض سے ناپی جاتی ہے، حالانکہ ان کی تمام تر تربیت اور تعلیم رب تعالیٰ کی مرضی پر رضامند ہوجانے اور اندیشے وسوسوں کو دل سے نکال باہر کرنے کی ہوتی ہے۔ان سب پر بات مگر اگلی نشست میں ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں