ٹشو پیپر

دوتین ماہ پہلے کی بات ہے، روزنامہ دنیا، کراچی دفتر کے ایک رپورٹر لاہور آئے ہوئے تھے۔ ہم سے ملنے آئے۔ ان سے گپ شپ ہوتی رہی۔ گفتگو کے دوران سندھ حکومت کی نااہلی کا قصہ چھڑ گیا۔ انہوں نے اس حوالے سے کئی دلچسپ واقعات سنائے ، پھر اچانک بولے،'' آپ لوگوں کو اپنی خوش نصیبی کا اندازہ نہیں، آپ کو میاں شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ دستیاب ہے، سندھ اور دوسرے چھوٹے صوبوں والے دل وجان سے چاہتے ہیں کہ شہباز صاحب جیسا وزیراعلیٰ وہاں آ جائے۔‘‘ یہ بات سن کر مجھے جھٹکا سا لگا۔ صحافت کے پیشے نے جہاں خاصا سخت دل بنا دیا ہے، وہاں ہماری حیرت کی حس بھی چھین لی ہے۔ بڑی سے بڑی خبر سن کر حیرت نہیں ہوتی۔دوست اکثر گلہ کرتے ہیںکہ آپ صحافی حضرات کسی بات پر حیران ہی نہیں ہوتے، بڑی سے بڑی بات سپاٹ چہرے کے ساتھ سنتے اور کوئی ردعمل نہیں دیتے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ خبروں کی دنیا میں رہتے رہتے عادی ہوگئے ہیں۔ اب کم ہی خبریں اور فقرے چونکاتی ہیں ، تاہم انسانی اعصاب کی بھی حدود ہوتی ہیں، کسی قیامت خیز جملے کی تاب وہ بھی نہیں لا پاتے۔وہ فقرہ سن کرچند لمحوں تک تو بھونچکا رہ گیا، پھر ہمت کر کے پوچھا کہ آپ کو وزیراعلیٰ پنجاب کی کس بات نے متاثر کیا ہے، کون سے کام انہوں نے ایسے کئے، جن پر بارہ تیرہ سو کلومیٹر دور رہنے والے آپ جیسے صحافی بھی رشک کر رہے ہیں؟‘‘ یہ بات ہمارے مہمان صحافی کو زیادہ پسند تو نہیں آئی، قدرے ناگواری سے انہوں نے فرمایا:''آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ آپ کا وزیراعلیٰ کیا کام کر رہا ہے؟ اتنی سکیمیں تو چل رہی ہیں، باقی چھوڑیں ، صرف میٹرو بس پروجیکٹ ہی کو دیکھ لیجئے۔ ‘‘ یہ بات سن کر مجھے حوصلہ ہوا کہ چلو مکالمہ آگے بڑھ سکتا ہے، ورنہ سیاسی لیڈروں کے بعض شیدائی ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے گفتگو ہو ہی نہیں سکتی۔ برسوں پہلے لاہور پریس کلب میں ایک سینئر صحافی نے بڑے تیقن سے کہا تھا،'' بھٹوز کرپشن نہیں کر سکتے، اس لئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نامدار کے خلاف دائر کئے گئے تمام کرپشن کیسز جھوٹے ہیں، بی بی اگر کہتی ہیں کہ سرے محل ان کا نہیں تو پھر اسے مان لینا چاہیے۔‘‘ اس دعوے کے بعد بحث کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی تھی، سو خاموشی میں عافیت سمجھی، یہ اور بات کہ بعد میں اسی لیڈر اور ان کے شوہر نامدار نے مزے لے لے کر سرے محل ڈکار لیا۔
خیر بات کراچی سے آئے مہمان صحافی کی ہو رہی تھی۔ میں نے ان سے عرض کیا،'' اپنا جواب پانے کے لئے آپ چار ٹیسٹ لے لیں، نہایت آسان ہیں، چند گھنٹوں میں نتیجہ سامنے آجائے گا۔آپ لکشمی چوک کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے ہیں، میو ہسپتال یہاں سے قریب ہے۔ یہ لاہور بلکہ پنجاب کا سب سے قدیم اور بڑا ہسپتا ل ہے۔ کسی دن تھوڑا وقت نکالیں اور میو ہسپتال کی ایمرجنسی چلے جائیں، وہاں چیک اپ کرانے کی کوشش کریں یا پھر تھوڑی دیر خاموشی سے ایک سائیڈ پر کھڑے ہو کر تماشا دیکھتے رہیں۔ آپ کو کراچی یا سندھ کے کسی بھی ہسپتال میں جس قدر ذلت آمیز اور اذیت ناک سلوک سے واسطہ پڑتا ہے، میو ہسپتال میں اس سے کچھ زیادہ ہی ملے گا، کم نہیں۔ صرف میو ہسپتال نہیں، لاہور میں چار پانچ سرکاری ٹیچنگ ہسپتال ہیں۔ جناح ہسپتال، سروسز، جنرل ہسپتال، گنگا رام ہسپتال ... کم وبیش ہر جگہ یہی کچھ ہوگا۔ اگر بدقسمتی سے چلڈرن ہسپتال جانا پڑ جائے تو آپ نہایت آسانی سے کسی بھی روز ایک بستر پر دو تین مریض بچوں کو لیٹا ہوا دیکھ لیں گے۔لاہور میں صوبے کا سب سے بڑا دل کے امراض کا ہسپتال موجود ہے۔ وہاں کی ایمرجنسی میں محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً مریضوں کو بیڈ کے بجائے وہیل چیئر یا سٹریچر ہی پر ٹریٹمنٹ دینی پڑ جاتی ہے، ایسا بھی سنا ہے کہ کبھی مریض کو زمین پر لٹا کر فوری طبی امداد دینی پڑتی ہے۔ اسی طرح آپ لاہور شہر کے کسی بھی تھانے کا رخ کر لیں، وہاں جو کچھ ہوتا ہے ، خود ہی دیکھ لیں گے، کراچی کے تھانوں اور لاہور کے تھانوں میں ذرہ برابر فرق نہیں ملے گا، بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے لاہوری پولیس والے بازی لے جائیں۔ کسی کے ساتھ سٹریٹ کرائم ہوجائے، وہ لٹ جائے، موبائل چھن جائے، ایف آئی آر درج کراناناممکنات میں سے ایک ہے۔ عام صحافی بھی ایس پی کی سطح کی سفارش کے بغیر رپورٹ درج نہیں کرا سکتا۔
'' تیسرا ٹیسٹ تعلیم کا ہے۔ کسی بھی گلی محلے میں کھلے پرائیویٹ انگلش میڈیم سکول کے باہر کھڑے ہوجائیں، چھٹی کے وقت ان کے والدین لینے آئیں گے۔ آپ ان میں لوئر مڈل کلاس کے لوگوں کی اکثریت دیکھیں گے۔ آمدنی بیس پچیس ہزار سے زیادہ نہیں، اس کے باوجود بچوں کو سرکاری سکول میں مفت پڑھانے کے بجائے کم سے کم ڈیڑھ دو ہزار فیس دے کر پرائیویٹ سکول بھیجتے ہیں۔ ان سے وجہ پوچھئے گا، ہر ایک یہی کہے گا کہ سرکاری سکول سسٹم تباہ ہوچکا ہے، پڑھائی نہیں ہوتی۔ آپ یہ ٹیسٹ کراچی میں لے کر دیکھ لیجئے اور پھر لاہور میں بھی وہی تجربہ آزمائیے، فرق نظر آئے تو مجھے پکڑ لیجئے۔
چوتھا ٹیسٹ بازار کا ہے۔ وہاں چکر لگائیں، مہنگائی کی جو لہر کراچی ، حیدرآباد یا سندھ کے کسی اور شہر میں دیکھیں گے، وہی لہر لاہور ملے گی۔ ضروریات زندگی کا حقیقی نرخوں سے زیادہ مہنگا ملنا، بازاروں میں ناقص خوراک، گلے سڑے پھلوں کی ریڑھیاں، گندے شربت،دہی بھلے، پکوڑوں وغیرہ کی دکانیں، ریڑھیاں... جہاں ایک ہی گندی بالٹی میں سینکڑوں برتن دھوئے جاتے ہیں۔ اگر ایک گاہک ہیپاٹائٹس اے یا یرقان کا مریض ہے تو اس بالٹی سے دھلنے والے ہر گلاس یا پلیٹ میں کھانے والا بھی یرقان کا شکار ہوجاتا ہے۔ لاہور کے کسی بھی بازار میں چلے جائیں، انارکلی سے لکشمی چوک، ساندہ سے صدر بازار، ٹائون شپ سے مغل پورہ، سمن آباد سے شاہدرہ ... غرض شہر کے ہر کونے میں ایک جیسا ہی حال ملے گا۔ یوں محسوس ہوگا کہ کوئی انتظامیہ موجود ہے نہ ہی کسی کو یہ چیزیں چیک کرنے کا ہوش۔ تجاوزات کا معاملہ دیکھیں گے تو ہر محلے، بازار اور گلی میں تجاوزات ملیں گی، یوں محسوس ہوگا کہ سسٹم نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ لاہور میں سینکڑوں سرکاری ونجی تعلیمی ادارے ہیں، میڈیکل، انجینئرنگ، ٹیکنالوجی، کامرس، بزنس یا سوشل سائنسز کی تعلیم وہاں ملتی ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کے گیٹ پر کھڑے ہوجائیں، باہر نکلنے والے طلبہ سے پوچھیں کہ تعلیم مکمل کر کے آپ کو سرکاری ملازمت مل جائے گی؟ سو فیصد لوگ نفی میں جواب دیں گے ، ہرایک کو معلوم ہے کہ ملازمتیں میرٹ پر نہیں ملتیں، لاکھوں بلکہ ملین میں فروخت ہوتی ہیں یا پھر وزرا ، مشیروںکی پرزور سفارش پر ہی مل سکتی ہیں۔ غور سے دیکھئے گا کہ یہ بات کہتے ہوئے ان نوجوانوں کی آنکھوں سے کیسی چنگاریاں برستی اور لہجے میں کتنی تلخی جھلکتی ہے۔‘‘
ہمارے صحافی دوست یہ تقریر حیران ہو کر سن رہے تھے، ان سے عرض کیا، ''یہ وہ چیز ہے جس کا ادراک یہاں کے مکین ہی کر سکتے ہیں۔ کراچی ، کوئٹہ، پشاور یا ملتان وغیرہ سے چند گھنٹوں یا ایک دو دنوں کے لئے لاہورا ٓنے والے کو ان بنیادی چیزوں کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ اسے لاہور میں پچھلے چند برسوں کے دوران بننے والے فلائی اوور ، انڈر پاسز یا میٹرو ٹرین نظر آئے گی۔ وہ حکمران جماعت کے پرکشش اشتہاری مہم کو دیکھے گا، جس میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے گئے ہیں۔ وہ حکمران جنہیںیہ سادہ بات بھی نہیں معلوم کہ سفر کی اچھی سہولت کی فراہمی قابل تعریف ہے، لیکن اس کا فائدہ چند فی صد سے زیادہ لوگوں کو نہیں پہنچ سکتا، تعلیم ، صحت، پولیس اور دیگر پبلک سروس والے محکموں کا سسٹم بہتر بنانے سے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کوفائدہ ہے، ان کی زندگیاں آسان اور امید یں جوان ہوجائیں گی۔یہ مگر حکمرانوں کی ترجیح نہیں کہ اس میں محنت ہوتی ہے، اچھی ٹیم بنانی پڑتی ہے، ادارے بنانے پڑتے ہیں،اپنی ذات سے اٹھ کر فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ فلائی اوور، انڈر پاس ، میٹرو بس جیسے پراجیکٹ بنانے آسان بھی ہیں کہ پیسہ سرکاری خزانے سے لگنا ہے، اپنی جیب سے نہیں اور پھر یہ میگا سٹرکچر پروجیکٹ دور سے نظر آتے پبلسٹی کا اشتہار ہیں، ان کی بنیاد پر ووٹ مانگے اور لئے جاسکتے ہیں۔ رہے عوام تو وہ ستر سال سے جس طرح پس رہے ہیں، اسی طرح پستے رہیں،ان کی ضرورت تو صرف ووٹ لینے کے وقت پڑتی ہے، اس کے بعد وہ استعمال شدہ ٹشو پیپر کی طرح بیکار ہیں۔‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں