فصل

چند دن پہلے دانشوروں کی ایک محفل میں تھا۔ مختلف ایشوز پر گفتگو ہو رہی تھی۔ کراچی کی بدامنی، بھتہ خوری اوربدترین لوٹ مار کا بھی ذکر ہوا۔ایک دن پہلے ڈی جی رینجرز کی اپیکس کمیٹی کو دی گئی بریفنگ کی تفصیل شائع ہوئی تھی، جس میں یہ خوفناک انکشاف کیا گیا کہ کراچی میںمختلف کالے دھندوں سے 230 بلین سالانہ رقم جمع ہوتی ہے، اس کا زیادہ حصہ لیاری گینگ وار اور بااثر سیاسی شخصیات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اسی رپورٹ میں بتایا گیا تھا : ''زکوٰۃ اور فطرانے کے نام پر جبری رقم اکٹھی کی جاتی ہے، قربانی کی کھالوں سے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے عسکری ونگ چلائے جاتے ہیں۔ ایرانی ڈیزل کی فروخت سے حاصل شدہ رقم وڈیروں کے نجی لشکراور سیاسی گروپ پالنے پر خرچ ہوتی ہے۔اس غیر قانونی کام میں سندھ کی بااثر شخصیات شامل ہیں، جنہیں سمگلنگ سے حصہ پہنچایا جاتا ہے۔ زمینوں پر قبضے اور چائنا کٹنگ کی تین قسمیں ہیں... سرکاری اراضی پر تعمیرات، ان پر قبضہ اور نجی جائیداد پر قبضے ۔ پانی کی غیر قانونی ترسیل سے بھی کروڑوں کمائے جاتے ہیں۔ان تمام کی سرپرستی سندھ کی ایک بڑی سرکاری جماعت کرتی ہے وغیرہ ۔‘‘ ڈی جی رینجرز کی بریفنگ میں کرپشن اور لوٹ مارکے حوالے سے خاصی تفصیل موجود تھی، بارہ جون کے اخبارا ت میں وہ تفصیل شائع ہوچکی، ہر ایک نے پڑھ لی ہوگی، اس لئے تفصیل کی ضرورت نہیں۔
بات اہل دانش وصحافت کی اس محفل کی ہور ہی تھی ۔دراصل جس روز یہ رپورٹ شائع ہوئی، ہر ایک کو اندازہ ہوگیا تھا کہ روئے سخن کس جانب ہے۔ متحدہ پر تو بہت سے سنگین الزامات پہلے ہی سے عائد ہیں، اس حوالے سے آپریشن چل رہا ہے، اس رپورٹ میں شامل بہت سی باتوں کی ذمہ داری سندھ حکومت اور حکمران جماعت پیپلزپارٹی کی طرف جاتی ہے اور تجزیہ کار بہت پہلے سے یہ اندازہ لگا رہے تھے کہ اگر آپریشن جار ی رہا اور کراچی میں جاری لوٹ مار ختم کرانے کا حقیقی ارادہ کیا گیا تو پھر سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی بھی شکنجے میں آئے گی، اس کے بغیر چارہ کوئی نہیں۔ اس رپورٹ نے معاملات واضح کر دئیے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہوسکتا ہے۔ ایک سینئر تجزیہ کار نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے دلچسپ نقطہ اٹھایا، کہنے لگے، کرپشن وغیرہ کے معاملات آتے رہتے ہیں، لیکن سیاسی عمل جاری رہنا چاہیے، جمہوریت کا سفر متاثر نہیں ہونا چاہیے، دس بیس ارب کرپشن میں لگ بھی گئے تو ان کی وجہ سے سسٹم ڈسٹرب نہیں ہونا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی طرف جھکائو رکھنے والے ایک صحافی دوست نے اس نقطہ نظر میں دلچسپ اضافہ کرتے ہوئے کہا: ''پچھلے کچھ عرصے کے دوران سندھ میںبعض قوم پرست گروپوں اور شدت پسند بلوچ دہشت گرد گروپوں کے مابین تعاون کی خبریں آتی رہی۔ یہ دونوں مل کر ریاست پاکستان کے خلاف سرگرم ہو رہے ہیں۔ملک وقوم کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔ سندھ میں پہلے بھی محترمہ کی شہادت کے بعد بہت شور شرابا ہوا تھا، پاکستان کے خلاف نعرے لگے تھے۔ پیپلزپارٹی نے سندھی شدت پسندوں کا راستہ روکا ہے۔ پیپلزپارٹی کے خلاف کچھ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیں کہ کہیں کل کو یہ نہ کہنا پڑے کہ کرپشن برداشت کر لیتے، اب تو دہشت گردی سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ ‘‘ یہ باتیں سن کر میرے جیسے طالب علم ششدر بیٹھے سوچ رہے تھے کہ کیا ہمارے مقدر میں ہمیشہ بدترین حاکم ہی رہیں گے؟ ڈکٹیٹر آتے ہیں تو ملک کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ ان کے خلاف تحریکیں چلا کر سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں لایا جاتا ہے تو وہ آتے ہی لوٹ مار کا بازار گرم کر دیتی ہیں۔نااہلی، کرپشن اوراقرباپروری کی ایسی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے۔کیا سسٹم اور جمہوریت، بدعنوانی اور نالائقی کے بغیر نہیں چل سکتیں؟ آخر کب تک ہم سسٹم اور جمہوریت کے نام پر بلیک میل ہوتے رہیں گے۔ کیا پاکستان کھپے کا نعرہ لگوانے کے لئے ضروری ہے کہ سندھ کو ایک پارٹی کے حوالے کیاجائے، چاہے وہ وہاں سالانہ کئی سو ارب کی لوٹ مار کرے، ایک ایک کر کے تمام صوبائی ادارے تباہ کر دے، میرٹ کو ایک طرف پھینک کر پیسے لے کر ہزاروں لوگوں کی بھرتی ہوں اور اگر کوئی قومی ادارہ یہ سب کچھ روکنے، گند صاف کرنے اور احتساب کی بات کرے تو اسے یہ کہہ کر خاموش کرایا جائے کہ چپ چاپ یہ کرپشن برداشت کرو، ورنہ ملک توڑنے کے نعرے لگیں گے اور کرپشن کے مقابلے میں دہشت گرد گروپوں سے واسطہ بھی پڑ سکتا ہے؟
پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف زرداری نے منگل کی شام اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے جو کچھ کہا، وہ سب کے سامنے آ چکا ہے۔ ان کا غصہ ، جھنجھلاہٹ دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ ٹی وی سکرین کو دیکھتے ہوئے یہی سوچ رہا تھا کہ اس سب کچھ میں رینجرز، فورسز یا
کسی اور کا کیا قصور۔ پچھلے سات برسوں سے سندھ صوبے کی حالت ایسے یتیم بچے کی سی ہے، جس کا کوئی پرسان حال نہ ہو۔ ایسی کرپشن، انتظامی نااہلی... کبھی سنی نہ دیکھی۔ہر ایک چیخ رہا تھا کہ خدارا صوبے کا وزیراعلیٰ تو بدل لیں۔ اپنی پسند کا، کوئی کمزور سہی ،مگر نسبتاً جواں سال اور متحرک وزیراعلیٰ ہی لے آئیے۔ تباہ حال سندھیوں کا کچھ تو خیال کریں۔ کراچی شہر برباد ہو رہا ہے، اس پر توجہ دیں، مفاہمت اچھی بات ہے ، لیکن اس نام پر کب تک ناحق خون بہتا رہے گا، ظلم سہنا پڑے گا۔ جناب زرداری اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ یہ سب باتیں سنتے اور جواباً مسکراہٹ سے نوازتے رہے۔ جناب قائم علی شاہ کو وزیراعلیٰ برقرار رکھنا تو قوم ، میڈیا،قومی اداروں ... ہر ایک کو چڑانے کے برابر تھا، مگر ایک شان بے نیازی کے ساتھ یہ سب ہوتا رہا۔گزشتہ روزکے اخبار میں خود پیپلزپارٹی اور وزیراعلیٰ سندھ کی مقرر کردہ انسپکشن اور انکوائری کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر مظفر علی شجرہ کی پریس کانفرنس شائع ہوئی ، جس میں انہوں نے بتایا کہ سندھ کے محکموں میں اربوں روپے کی کرپشن ہو رہی ہے، محکمہ خزانہ، صحت اور تعلیم سب سے زیادہ کرپٹ ہیں، ان تمام محکموں کا ایک نیٹ ورک بنا ہوا ہے جو کرپشن میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ خلاف ضابطہ بھرتیاں ہوئیں، فنڈز غلط استعمال ہوئے۔ ‘‘ مظفر شجرہ صاحب نے کچھ مثالیں بھی دی ہیں، کہتے ہیں: ''محکمہ بلدیات میں ہزاروں خلاف ضابطہ بھرتیاں کی گئی ہیں، ٹنڈو غلام حیدر میں بھاری رقم کے عوض پندرہ سو بھرتیاں ایک ہی دن ہوئیں۔محکمہ داخلہ سندھ کی
جانب سے وزیراعلیٰ کو سمری بھیجی گئی کہ سندھ بھر کے اضلاع میں نئے تھانے بنائے جائیں، وزیراعلیٰ نے صرف ایک ضلع میں منظوری دی، محکمہ داخلہ کے حکام نے وائٹنر لگا کر (سفیدی سے حکم مٹا کر) سندھ میں نئے تھانے بنانے کی منظوری دے دی، بیس کروڑ سے زائد رقم خرچ ہوئی۔شہداد کوٹ میں تین سو کے قریب ملازمیں کو دگنی تنخواہ دی جا رہی تھی، محکمہ خوراک کے افسروں کی جانب سے پرائیویٹ فیکٹری میں گندم ذخیرہ کر کے اسی گندم پر مختلف ناموں سے بینکوں سے قرضے لئے گئے، نوشہرو فیروز میں چوکیدار، قاصد، نائب قاصد وغیرہ نے بیس بیس لاکھ کے جی پی فنڈز منظور کرائے، وغیرہ وغیرہ۔‘‘
یہ تو خود وزیراعلیٰ کے مقرر کردہ ایک افسر کی رپورٹ ہے، جسے دیگ کے چند چاول سمجھنا چاہیے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جناب زرداری نے جو حال پیپلزپارٹی کا کیا، وہی اپنی سرپرستی میں چلنے والی سندھ حکومت کا کیا۔ انہیں ملک کی سب سے بڑی پارٹی ورثے میں ملی، بھٹو ووٹ بینک جس کا سرمایہ تھا، ایسا ووٹ بینک جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ کبھی کم نہیں ہوتا، ہر بار پیپلزپارٹی کے حصے میں آتا ہے،ایسے کارکن ودیعت ہوئے جن کے جذبوں اور کمٹمنٹ کی وجہ سے جیالے کی سیاسی اصطلاح وجود میں آئی ۔ پانچ برسوں میں وہ پارٹی ملک گیر سے ایک صوبے کی پارٹی بن گئی، بھٹو ووٹ بینک تحلیل ہوگیا، جیالا کارکن دلبرداشتہ ہو کر گھر بیٹھ گیا یا پھر تحریک انصاف کی طرف چلا گیا۔ آج پیپلزپارٹی کا اپنا وجود ہی خطرے میں پڑ چکا ہے۔ جناب آصف زرداری نے یہی سب کچھ سندھ حکومت سے کیا ہے۔ جو فصل انہوں نے بوئی ، انہیں وہی کاٹنی پڑے گی۔ دھمکیوں، جوشیلے بیانات، طعنوں، طنز کے تیروں سے زمینی حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں