تحریک انصاف کا مستقبل

جولائی کے حبس آلود بھیگے موسم میں‘ جب سانس لینا دوبھر ہو رہا ہے، تحریک انصاف کو ایک ایسا سیاسی دھچکا لگا ہے، جسے سہنا اچھی خاصی پرانی جماعتوں کے لئے بھی آسان نہیں۔ کوئی شک نہیں کہ جوڈیشل کمیشن رپورٹ نے عمران خان، تحریک انصاف اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں ان کے پُرجوش فدائین کو متاثر کیا ہے۔ جمعرات کے دن سوشل میڈیا، خاص طور پر فیس بک پر انصافین کے پیجز اور گروپوں میں شہر خموشاں کا سا سماں تھا۔ ایسی ماتمی فضا، جس میں انتہائے غم سے نوحہ خواں کا حلق خشک ہو جاتا ہے۔ اگرچہ کم و بیش یہی فیصلہ ہی متوقع تھا، لیکن انصافین نوجوان شاید یہ گمان کر رہے تھے کہ کوئی درمیانی صورت اختیار کی جائے گی اور ان کے لئے باعزت واپسی کا راستہ موجود رہے گا۔ جوڈیشل کمیشن نے اپنے فیصلے یا رپورٹ میں ایسی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی۔ 
تحریک انصاف نے الیکشن کے بعد سے اپنی تمام سیاسی جدوجہد اور مہم اسی نکتے کے گرد استوار رکھی کہ مسلم لیگ نے منظم دھاندلی کر کے اکثریت حاصل کی، جس میں انہیں نگران انتظامیہ، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے سربراہ کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ جوڈیشل کمیشن نے اس نکتے کو واضح طور پر رد کر دیا ہے اور اب ایک لحاظ سے یہ طے ہو چکا ہے کہ مئی 13ء کے انتخابات میں کسی بھی طرح کی منظم دھاندلی نہیں ہوئی تھی۔ خواجہ سعد رفیق کے حلقے کے حوالے سے الیکشن ٹربیونل نے یہ قرار دیا تھا کہ دھاندلی نہیں ہوئی، لیکن اس قدر سنگین نوعیت کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں کہ اس نشست پر دوبارہ انتخاب کرایا جانا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کو یہ رعایت بھی نہیں دی اور اگرچہ الیکشن کمیشن پر تنقید کی ہے، ان کی بعض کوتاہیوں کی نشاندہی کی ہے‘ لیکن ان غلطیوں کو اس قدر سنگین قرار نہیں دیا کہ دوبارہ الیکشن کرانے کی نوبت آئے۔ اس اعتبار سے تحریک انصاف کے پچھلے ڈیڑھ سال، خاص طور پر دھرنے کے بعد سے آٹھ دس ماہ کی محنت رائگاں گئی۔
جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ مگر کسی کی ہار یا جیت تک محدود نہیں، اس کے خاصے مضمرات ہیں، پاکستانی سیاست آنے والے برسوں تک اس کے اثرات سے نہیں نکل سکے گی۔ میرے خیال میں تحریک انصاف کی قیادت سے دو بنیادی سیاسی غلطیاں ہوئیں۔ ایک تو وہ سیاسی بیانیہ کو قانونی دائرے میں لے گئے۔ سیاسی تقریر، بیان، الزام مختلف بات ہے اور اسے قانونی طور پر ثابت کرنا یکسر دوسری چیز۔ اس کو ایک سادہ سی مثال سے سمجھ لیں۔ پاکستان میں مختلف بڑے سیاستدانوں کے بارے میں کرپشن کہانیاں مشہور ہیں۔ پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت نوے کے عشرے میں شریف خاندان پر کرپشن کے الزامات لگاتی رہی۔ اس ضمن میں بے شمار واقعات کیے جاتے ہیں۔ کوآپریٹو سکینڈل سے بینکوں کے قرضوں‘ اور انہیں معاف کرانے تک‘ بہت کچھ کہا جاتا رہا۔ موٹر وے بنی تو اس میں اربوں کے کک بیکس کی کہانیاں سامنے آئیں۔ اسی دور میں مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف‘ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے مختلف رہنمائوںکے بارے میں بہت کچھ کہتے رہے۔ مسٹر ٹین پرسنٹ کی اصطلاح تو امریکی اور برطانوی اخبار بھی استعمال کرتے رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں چودھری برادران پنجاب پر حکمران تھے۔ اس وقت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کرپشن کے الزامات چودھری صاحبان خاص طور پر نوجوان مونس الٰہی پر لگاتی رہیں۔ پچھلے دور حکومت میں اے این پی کی صوبائی حکومت پر کرپشن کے بے پناہ الزامات عائد ہوئے، ''ایزی لوڈ‘‘ کی پھبتی عام ہو گئی تھی۔ ماضی کے ان سب الزامات میں سے بعض بادی النظر میں وزنی محسوس ہوتے ہیں۔ کسی سیاستدان کی دولت اور اس کے اثاثوں میں اگر دو تین عشروں میں بے پناہ اضافہ ہو جائے تو یہ سب بلاوجہ نہیں ہوتا۔ اس سب کے باوجود ان الزامات میں سے کچھ ثابت نہیں ہو سکا، شاید ہو بھی نہیں سکتا۔ غیرمنظم، انفرادی کرپشن تو ثابت ہو جاتی ہے، منظم کرپشن اگر یوں ثابت ہو جائے تو پھر اسے منظم کیوں کہا جائے؟
بات سادہ سی ہے، خیال اور تصور (Perception) کی حد تک ایک بات پر یقین رکھنا اور چیز ہے مگر اسے قانونی طور پر عدالت یا کمیشن میں ثابت کرنا بالکل مختلف امر ہے۔ سیاستدان انتخاب ہارنے کے بعد دھاندلی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں، کبھی ان میں وزن بھی ہوتا ہے، جب ایسا ہو تو لوگ ایک خاص سطح تک اسے سچا اور درست مان لیتے ہیں۔ سمجھدار سیاستدان مگر ان الزامات کو عدالت کے کٹہرے میں نہیں لے جاتے کہ وہاں اسے ثابت کرنے کے لئے ایسے ٹھوس ثبوت چاہئیں جو نہیں مل سکتے۔ ہمارے ہاں ایسے ثبوت صرف مقتدر اداروں 
ہی کے پاس ہو سکتے ہیں، اگر وہ کسی حکومت کو گرانا چاہیں تو پھر آڈیو اور ویڈیو فوٹیج میڈیا میں لیک ہو جاتی ہیں۔ اگر ملکی یا عالمی حالات کی وجہ سے حکومت کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں ہوتا‘ تو پھر یہ سب حلقے خاموش رہتے ہیں۔ 1997ء کے انتخاب میں مسلم لیگ نے دو تہائی اکثریت حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی کا صفایا ہو گیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پیپلز پارٹی کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی، اس کی شکست کی توقع کی جا رہی تھی، لیکن ایسا بُرا انجام کسی نے نہیں سوچا تھا۔ بی بی نے اجلاس بلایا تو ہارے ہوئے امیدواروں نے شکایات کے انبار لگا دیے اور کہا کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ محترمہ سب باتیں سنتی رہیں اور پھر کہا کہ صرف الزام نہیں اس کے ثبوت بھی چاہئیں، وہ اگر کسی کے پاس ہیں تو دیں۔ ٹھوس ثبوت امیدوار کہاں سے لے کر آتے؟ محترمہ نے دانش مندی کے ساتھ دھاندلی کے حوالے سے پروپیگنڈا تو خوب کیا، الیکشن کو جھرلو قرار دیا، وائٹ پیپر نکالا‘ مگر عدالت میں جانے سے گریز کیا کہ وہاں الزام ثابت نہ ہو سکے تو نواز شریف حکومت کے الیکشن مینڈیٹ پر عدالتی مہر لگ جائے گی، پھر دھاندلی کا الزام لگانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔
عمران خان اپنے مخصوص لاابالی انداز میں جہاں اور بہت سے سیاسی غلطیاں کرتے رہے ہیں، جوڈیشل کمیشن پر رضامند ہونے کی تباہ کن غلطی بھی وہ کر بیٹھے۔ دھرنا ختم کرنے کے بعد انہیں باعزت واپسی کے لئے جوڈیشل کمیشن کی پیش کش کی گئی تھی، مگر انہیں اسے قبول نہیں کرنا چاہیے تھا اور نیا سیاسی بیانیہ دینا چاہیے تھا کہ میں فیصلہ عوام سے لوں گا۔ سیاست میں تحمل سے کام لینا بڑا اہم ہے، مخالف پر ضرب لگانے کے لئے مناسب وقت کا انتظار کامیابی کی کنجی ہے۔ خان صاحب نے دھرنے کا دائو کھیلا۔ وہ ضرورت سے زیادہ آگے چلے گئے، مگر وقت اور حالات نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ ان کی خوش قسمتی کہ اسلام آباد میں ان کا دھرنا سکڑ جانے کے باوجودکراچی، لاہور، ملتان اور دیگر شہروں میں عوام نے ان کے جلسے بھرپور طریقے سے کامیاب کرائے، ان کا بھرم رہ گیا۔ اب تھوڑا پیچھے ہٹ کر مناسب لمحے کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ کے پی کے میں گڈ گورننس، پارٹی کی تنظیم نو اور ملک بھر میں گراس روٹ لیول پر عوامی رابطہ مہم ان کے لئے بہترین آپشنز تھیں۔ اس پر توجہ دیتے تو کنٹونمنٹ الیکشن نہ ہارتے اور بلدیاتی انتخابات جلد کرا کر اس میں مضبوط پوزیشن لینے کی کوشش کرتے۔ 
جوڈیشل کمیشن کی بازی انہوں نے کھیلی، غیرمعمولی توقعات بھی وابستہ کر لیں۔ معلوم نہیں کس نے انہیں اس خوش فہمی میں رکھا کہ فیصلہ ان کے حق میں آئے گا۔ عمران خان یہ دائو ہار گئے، لیکن ابھی کھیل ختم نہیں ہوا۔ ان کے پاس بہت کچھ باقی ہے۔ یہ درست کہ فوری طور پر مسلم لیگ ن کو نفسیاتی برتری مل گئی، لیکن پنجاب میں آج بھی تحریک انصاف دوسری بڑی آپشن ہے۔ ہر وہ شخص، گروہ یا طبقہ جو مسلم لیگ ن اور شریف برادران کے طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا، اس کے پاس تحریک انصاف کی طرف جانے کے سوا اور کوئی آپشن نہیں۔ عمران نے رپورٹ کو تسلیم کر کے جرات کا مظاہرہ کیا۔ انہیں نئے سیاسی بیانیے اور ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ سامنے آنا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی بیڈ گورننس اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ون مین شو سٹائل سے جو خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں، اس کے باعث تحریک انصاف کے لئے مزید سیاسی گنجائش پیدا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں