معافی کون مانگے؟

جوڈیشل کمیشن رپورٹ اور اس کے بعد معافی مانگنے اور منگوانے کے حوالے سے جو بحث چھڑی ہے، اس پر بات کرتے ہیں، مگر پہلے بھارت سے آئی ایک تازہ خبر۔ سری سانتھ بھارت کے معروف کرکٹر ہیں۔وہ انڈیا میں ہونے والے مشہور سالانہ ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ آئی پی ایل میں راجستھان رائل کی ٹیم کی طرف سے کھیل رہے تھے۔ سوا دو سال پہلے تیرہ مئی 2013ء کو دہلی پولیس نے سری سانتھ اور ان کے دو ساتھی کھلاڑیوں اجیت چنڈیلا اور انکیت چاون کو گرفتار کر لیا۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے مختلف میچز میں جوا کھیلنے والے بکی مافیاز سے پیسے لے کر سپاٹ فکسنگ کی۔ دہلی پولیس نے ان کھلاڑیوں کی بکی کے ساتھ فون کالزریکارڈ کر لیں، پھر بکی کو گرفتار کیا تو اس نے اگل دیا کہ مختلف مواقع پر ہزاروں ڈالر دے کر ان کھلاڑیوں نے ہمارا من پسند کھیل پیش کیا، کبھی جان بوجھ کر برا اوور کرایا، کبھی اپنی ٹیم کو جیتا میچ ہروایا وغیر وغیرہ۔ 
آئی پی ایل کے میچز دنیا بھر میں دیکھے جاتے ہیں، براڈ کاسٹنگ ، مارکیٹنگ وغیرہ کے ذریعے اربوںبلکہ کھربوں کی کمائی ہوتی ہے۔ ایسے میں یہ دھماکہ خیز خبر منظر عام پر آگئی کہ اسی آئی پی ایل میں کھلاڑی سٹہ بازوں سے پیسے لے کر خراب کھیل پیش کرتے ہیں اور بکیوں کے مرضی کے نتائج نکلتے ہیں۔ یوں آئی پی ایل کا پورا پراجیکٹ خطرے میں پڑ گیا۔ پولیس نے اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا تو معاملات اور زیادہ گنجلک اور پیچیدہ ہوتے گئے۔ معلوم ہوا کہ آئی پی ایل میں شامل بعض ٹیموں کے مالکان تک سٹے بازی میں ملوث ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ چنئی سپر کنگ کے مالکان میں سے ایک مئے پن براہ راست جوئے میں ملوث تھا، مئے پن بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ سری نواسن کا داماد تھا، یوں چئیرمین کرکٹ بورڈ بھی اس میں پھنس گیا اور سپریم کورٹ کے حکم پر سری نواسن کو اپنی ذمہ داریاں چھوڑنی پڑیں۔ یہ بھی سامنے آیا کہ ایک اور ٹیم راجستھان رائلز کا مالک راج کندرا بھی سٹہ مافیا کا حصہ رہا ہے، مسٹر کندرا معروف بھارتی اداکارہ شلپا شیٹھی کے خاوند ہیں۔ پچھلے دو سال سے یہ سلسلہ چلتا رہا ہے، کچھ عرصہ پہلے بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پرمقرر کردہ ایک کمیشن نے چنئی سپر کنگ اور راجستھان رائلز پر دوبرس کے لئے پابندی لگا دی اور ان کے مالکان پر تاحیات کرکٹ کے معاملات میں حصہ لینے پر بین لگا دیا۔
اس ایشو میں اچانک ایک نیا موڑآ گیا ہے۔دہلی کی عدالت نے گزشتہ روز سری سانتھ اور ان کے ساتھیوں کو میچ فکسنگ، سپاٹ فکسنگ سکینڈل سے بری کر دیا ۔دہلی پولیس نے اس کیس کی طویل تفتیش کی تھی، بیالیس افراد کو چارج شیٹ کیا گیا، چھ ہزار صفحات پر مشتمل مواد عدالت میں پیش کیا گیا، ملزم کھلاڑیوں کی آڈیو ریکارڈنگ پیش کی گئی، جس میں وہ سٹہ بازوں سے گفتگوکے دوران گفٹ مانگتے اور ان کی پسند کی کارکردگی دکھانے کا وعدہ کر رہے ہیں۔ تاہم عدالت نے ان تمام ثبوتوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھااور ان کھلاڑیوں کو بری کر دیا۔ دوسرے الفاظ میں انہیں عدالت کی جانب سے کلین چٹ مل گئی۔ آنے والے دنوں میںیہ سوال بھی پیدا ہوگا کہ چونکہ سری سانتھ کی گرفتاری ہی سے آئی پی ایل سپاٹ فکسنگ، میچ فکسنگ کا تنازع شروع ہوا تھا، جب ان کے خلاف کوئی الزام ثابت نہیں ہوا تو پھر سپریم کورٹ کے کمیشن نے کیسے چنائی سپر کنگ، راجستھان رائلزکو آئی پی ایل سے باہر کر دیا اور ان کے مالکان پر پابندی لگا دی؟بھارتی کرکٹ بورڈ نے سپاٹ فکسنگ سکینڈل آنے کے بعد ،پولیس کے دئیے گئے ثبوتوں کو دیکھ کر سری سانتھ اور اس کے ساتھی کھلاڑی پر تاحیات پابندی لگا دی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت سے کلین چٹ ملنے کے باوجود بھارتی بورڈ نے اعلان کیا کہ اس کی پابندی برقرار ہے اور وہ اسے واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔دوسرے لفظوں میں بھارتی بورڈ نے یہ قرار دیا ہے کہ اگرسری سانتھ وغیرہ کے خلاف ثبوت عدالت میں سزا دلوانے کے لئے کافی نہیں ہوسکے، یا عدالت قائل نہیں ہوسکی، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے کچھ کیا ہی نہیں، یا وہ بے قصور ہیں۔ 
پاکستان میں جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے بعد مسلم لیگ ن اورمیڈیا میں موجود ان کے حامی قلم کاروں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف معافی 
مانگے۔یہ مطالبہ بے جااورنامناسب ہے۔ یہ درست ہے کہ جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کے الزامات مسترد کر دئیے، مگر ساتھ یہ بھی لکھا کہ تحریک انصاف کی جانب سے دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبات جائز تھے۔ جوڈیشل کمیشن رپورٹ کے آخری چند صفحات پڑھے جائیں تو ان میں کچھ تضادات نظر آتے ہیں۔اس کی تفصیل میں جائے بغیر ہم اتنا کہیں گے کہ ہرعدالتی فیصلہ یا کمیشن رپورٹ مقدس یاسو فیصد درست نہیں ہوتی، اس میں کمزوریاں بھی ہوسکتی ہیں، تضادات بھی ہوسکتے ہیں۔ اہم بات مگر یہ ہے کہ ہمیں اس رپورٹ کو تسلیم کرنا چاہیے اور اس کے بعد اس تنازعے کو ختم کر دینا چاہیے۔ عمران خان کارویہ اس لحاظ سے مناسب اور مستحسن ہے، انہیں ظاہر ہے کچھ تحفظات ہوسکتے ہیں، لیکن اگر وہ رپورٹ کو تسلیم کر کے ، دھاندلی ایشو کو دفن کر کے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو بڑھنے دینا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے یوم تشکر کے لبادے میں یوم فتح منانا نامناسب اور سیاسی ناپختگی کی علامت ہے۔ انہیں فتح تو ملی ہے، لیکن زیادہ بڑی کامیابی تب سمجھی جائے گی ،جب یہ سسٹم ہموار طریقے سے آگے بڑھے۔ 
میں ذاتی طور پر عمران خان کے دھرنے کا مخالف تھا۔ انہیں اس انتہا تک نہیں جانا چاہیے تھا، عوامی قوت سے حکومت ہٹانے کی کوشش درست نہیں تھی، ان کا لب ولہجہ بھی غیرمناسب حد تک جارحانہ تھا، مخالفین پر تنقید میں وہ ذاتیات تک بھی پہنچ گئے۔ یہ سب غلط تھا۔ دھرنے سے پہلے اور اس کے دوران میں نے کئی کالم اس حوالے سے لکھے اورکھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔اس سب کے باوجود عمران خان اور تحریک انصاف کی قومی سیاست میں بہت اہمیت ہے، انہیںکارنر کرنا مناسب نہیں۔
آخر میں جو لوگ جوڈیشل کمیشن رپورٹ کو مقدس قرار دیتے ہوئے اپنی ہر دلیل اس پر استوار کر رہے ہیں، ان سے ایک سادہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ پاکستان میں بننے والا واحد کمیشن نہیں تھا۔ پچھلے دو تین برسوں میں کم از کم چار اہم ترین عدالتی کمیشن بنائے گئے۔ میمو گیٹ سکینڈل ، ایبٹ آباد واقعہ اورپرویز مشرف کے دور میں لال مسجد آپریشن کے حوالے سے بھی کمیشن بنا تھا ۔ ان تمام کی رپورٹیں آ چکی ہیں۔ کیا پیپلزپارٹی میمو کمیشن رپورٹ سے اتفاق کرتی ہے؟ جے یو آئی لال مسجد واقعے پر کمیشن رپورٹ تسلیم کرتی ہے ؟تحریک انصاف پر تنقید کرنے والے اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کے دعوے دار ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کو مانتے ہیں؟ سب سے بڑھ کر کیا مسلم لیگ ن سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے بننے والے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو مانتی ہے؟ جوڈیشل کمیشن رپورٹ تو اگلے روز ہی ویب سائیٹ پر جاری کر دی گئی، باقر نجفی رپورٹ تو کئی مہینے بعد بھی کسی کو دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔معلوم نہیں ہم کب اس سیاسی منافقت اور پوائنٹ سکورنگ سے باہر آئیں گے۔ جو بات دوسروں کے لئے درست ہے، اسے اپنے اوپربھی لاگو کرناچاہیے۔ معافی منگوانے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو ہر ایک کی باری آئے گی۔ یہاں کسی کا دامن بے داغ نہیں۔ بہتر ہوگا کہ سیاسی سسٹم کو چلایا جائے۔ غلطیوں سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھنا سیکھیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں