مزید مغالطے

کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کرنٹ افیئرز اور تازہ واقعات پر لکھنا تو ضروری ہے ہی، لیکن اس سے کہیں زیادہ ان ایشوز پر بھی لکھنا ضروری ہو جاتا ہے جن کے بارے میں ہمارے ہاں ابھی تک کنفیوژن چل رہا ہوتا ہے۔ جس ایشو کو بھی اٹھائیں ،اس کے بارے میں کچھ فکری مغالطے عوام میں گردش کر رہے ہوتے ہیں۔ وجہ شاید یہ ہے کہ ہمارے دانشورد کلیشوں پر اپنی فکر استوارکرتے اور اپنے اپنے فکری حصاروں میں مقید ہو کر روزن سے منظر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جتنا نظر آئے، اسی کومکمل تصویر سمجھ کر بیان کر دیتے ہیں، مگروہ منظرکا ایک حصہ ہی ہوتا ہے۔ ان مغالطوں پر بات کرنا اس لئے بھی اہم ہے کہ ان کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہوتی اور پڑھنے والے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے۔
پچھلی بار بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ افغان طالبان اورتحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)الگ الگ وجود، ایجنڈا اور نظم رکھتے ہیں۔ ٹی ٹی پی کی دہشت گردی اور مظالم کو افغان طالبان پر نہیں منڈھ دینا چاہیے۔ یہ بات ایک حلقے کی سمجھ میں نہیں آتی۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دانستہ یہ ابہام رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ افغان طالبان کو رد کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ انہیں پاکستانی طالبان کا ساتھی ثابت کر دو، اس طرح وہ خود بخود پاکستانی عوام کی نفرت کا مرکز بن جائیں گے۔ مشہور انگریزی محاورہ ہے Give a dog a bad name and hang him۔ بہترعلمی رویہ یہی ہے کہ جو چیز جیسے ہے، جتنی ہے، اتنی ہی بیان کی جائے۔کسی ناپسندیدہ فرد، گروہ یا تنظیم میں بھی اگر کچھ مثبت ہے تو اسے بیان کیا جائے، جس قدر ناپسندیدہ چیزیں ان میں ہیں، صرف وہی گنوائی جائیں، خواہ مخواہ گرد نہ اڑائی جائے۔
پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کے الگ الگ بلکہ ایک طرح سے متضاد گروہ ہونے کے لئے ایک نہایت سادہ دلیل ہی سمجھ لی جائے۔ پاکستانی طالبان نے پچھلے کئی برسوں میں فورسز کے سیکڑوں، ہزاروں جوان اور آفیسر شہید کئے۔۔۔۔کرنل، میجر رینک کے متعدد افسر وطن کی خاطر قربان ہوگئے، حتیٰ کہ دو ٹو سٹار جرنیل بھی شہید ہوئے۔ آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملے ہوئے ، حتیٰ کہ پنڈی کی ایک مسجد میں بھی دہشت گردی کر ڈالی گئی ۔ ظاہر ہے، پاکستانی فورسز کے ان نام نہاد پاکستانی طالبان کے بارے میں کیاسوچ اور احساسا ت ہوسکتے ہیں؟ دوسری طرف حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا مرکزی حصہ اور ان کا اہم ترین جنگجو گروپ ہے۔ اس گروپ کے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں۔ وجہ یہی رہی کہ وہ پاکستانی ریاست کے مخالف نہیں بلکہ جہاں موقع ملا، مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔اب ایک دلچسپ تضاد یہ ہے کہ ایک طرف طالبان مخالف لبرل حلقے ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی آپریشن کی تو تعریف کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹیبلمشنٹ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے حقانی نیٹ ورک کا ہمیشہ ساتھ دیا اور ان کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغان طالبان کی کوئٹہ شوریٰ کو برداشت کیا جاتا رہا اور ان کے خلاف کبھی کچھ نہیںکیا گیا۔ اس کو چھوڑیئے کہ یہ الزام کتنا درست ، کتنا سچ ہے، مگر مزے کی بات یہ ہے کہ یہی حلقے اچانک یہ کہہ دیتے ہیں کہ کوئی گڈ ، بیڈ طالبان نہیں ، سب طالبان ایک ہیں، پاکستانی طالبان اور افغان طالبان آپس میں ملے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ کوئی ان سے پوچھے کہ یہ دو متضاد باتیں ایک ساتھ کس طرح ممکن ہیں؟
اسی طرح ایک دلچسپ الزام ملا عمر اور افغان طالبان پر یہ لگایا جار ہا ہے کہ وہ افغان عوام کو نشانہ بنا رہے ہیں اور بے گناہ افراد کی ہلاکت کے ذمے دار بن رہے ہیں۔ یہ مغالطہ بھی دراصل اس وجہ سے پیدا ہوا کہ اس پورے تناظر کو درست زاویے سے دیکھا نہیں جا رہا۔ ہمیں سب سے پہلے کوئی بنیادی اصول طے کرنا ہوگا ، تبھی بات سمجھ میں آ سکے گی۔ ان لوگوں کی چھوڑیئے جو ملا عمر کو اپنا لیڈر مانتے ہیں یا جو طالبان کو بعض مخصوص پیش گوئیوں کے پس منظر میں دیکھتے ہیں، رائیٹ ونگ کے اعتدال پسند لکھنے والے ملا عمر کی اس لئے ستائش کرر ہے ہیں کہ وہ انہیں امریکی استعمار کے خلاف مزاحمت کی ایک علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ ملا عمر اور ان کے طالبان نے دس سال امریکہ جیسی سپر پاورکی عسکری قوت اور ڈیڑھ دو لاکھ نیٹو افواج کا مقابلہ کیا، ان کے خلاف ایک حیران کن گوریلا جنگ لڑی ، چھوٹے چھوٹے زخم لگا کر غاصب قوت کو کمزور کیا اور اس کا اتنا نقصان کرایا کہ انہیں اپنا بڑا ایجنڈا محدود کر کے افغانستان سے نکلنا پڑا۔ ملا عمر کے حق میں لکھنے والے رائیٹ ونگ کے یہ لوگ طالبان کی روایتی مذہبی فکر سے اختلاف رکھنے کے باوجود انہیں بطور فریڈم فائٹر کے دیکھ رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ملا عمر ہی نے افغانوں اور افغان مزاحمت کے صدیوں قدیم روایتی تصورکا بھرم رکھا۔ اگر ملا عمر اور ان کے طالبان نہ ہوتے تو شمالی اتحاد والے تو حکومت کرنے اور اقتدار میں حصہ لینے کی چاہ میں باقاعدہ سرنگوں ہوچکے تھے۔ ان میں اور سامراجی گماشتوں میں کوئی فرق نہیں رہا تھا۔ ملا عمر کی مزاحمت نے ایک بار پھر دنیا کو یہ بتلایا کہ افغانوںکو غلام نہیں بنایا جا سکتا۔ زاویہ نظر کا یہ وہ بنیادی فرق ہے جو رائیٹ ونگ پر تنقید کرنے والوں کو روا رکھنا چاہیے۔ یہ سادہ سی بات انہیں سمجھنی چاہیے کہ اگر غاصب قوت ملک پر اپنا کنٹرول کر لے ، اپنے حامیوں کو اقتدار سونپ دے،تو اس کا قبضہ جائز نہیں ہوجاتا، اس کی مزاحمت کرنے والے باغی نہیں بن جاتے۔ امریکہ کی مزاحمت کرنے والے افغانوں نے تو وہی کیا جو روس کے خلاف کرتے رہے۔ انہوں نے روسی حملے ، قبضے، ببرک کارمل اور پھر جنرل نجیب کی کٹھ پتلی حکومت کی مزاحمت کی اور انہیں شکست سے دوچار کیا۔ اس وقت پوری مغربی دنیا ان کے پیچھے کھڑی تھی۔ جب امریکی حملہ ہوا تو ان دلیر اور جری افغانوں نے وہی کیا، امریکہ کے خلاف ہتھیار اٹھائے اور سامراج کو فتح یاب نہیں ہونے دیا۔ اس باران کا کریڈٹ زیادہ بڑا ہے کہ کوئی ساتھ نہیں تھا، جس ''پڑوسی ‘‘نے مدد کی ، اس نے بھی ڈرتے سہمتے، کسی حد تک ہی کی۔
جنرل پرویز مشرف پر ہر کوئی تنقید کرتا ہے کہ وہ ایک فون کال پر ڈھیر ہوگئے۔ بالکل درست، لیکن دوسری آپشن تو پھر وہی تھی، جو ملا عمر نے اختیار کی۔ سر ہتھیلی پر رکھ کر سپرپاور کی خوفناک عسکری قوت کے سامنے مزاحمت۔ جو لوگ جنرل مشرف پر تنقید کرتے ہیں، انہیں تو ملا عمر کی حمایت کرنی چاہیے کہ اس نے ایک ایسی مثال قائم کی، جس کی وقت آنے پر پیروی کی جا سکتی ہے۔ جہاں تک طالبان مذہبی فکر کا تعلق ہے،اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے، مگر جہاں کہیں مذہبی طبقے کو اقتدارملا، اس کا رویہ ویسا رہا۔ برادر عرب ملک کو دیکھ لیں، جہاں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت نہیں، اوربھی بہت سی پابندیاں ہیں۔ ایران کو دیکھ لیں، وہی مذہبی رویے ہر جگہ نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ کسی ڈرامے یا فلم میں دس سالہ بچی دکھانی ہو، تب بھی اس کے سر پر سکارف لازمی ہے۔ طالبان کا افغانستان بھی سعودی عرب اور ایران سے ملتا جلتا تھا۔ دو فرق تھے، افغانستان سے تیل نہیں نکلتا، جس کی اربوںکھربوں ڈالر کی آمدنی سے شاندار انفراسٹرکچر قائم کیا جاسکے، دوسرا سعودی اور ایرانی مذہبی طبقے کو اقتدار ملے خاصا عرصہ بیت گیا، اس دوران انہیں غلطیاں کرنے، ان سے سیکھنے اور اپنے رویوں میں قدرے لچک لانے کا موقع مل گیا۔ طالبان اس لحاظ سے بدنصیب رہے کہ تاریخ کے اہم موڑ پر ان کا ٹکرائو نائن الیون سے ہوگیا۔ ریکارڈ درست رکھنے کے لئے دوبارہ بتاتا چلوں کہ مقصد طالبان حکومت کا دفاع ہرگز نہیں، ان کے طرز حکومت کا غیر مشروط مداح ہوں نہ ان کی سوچ میں کشش محسوس ہوتی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ جو چیز جہاں ہے، جتنی ہے، جیسی ہے، اتنی ہی بیان کی جائے، زیادہ نہ کم۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں