بھارت کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟

بھارت کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات رکھے جائیں اور اس حوالے سے پاکستان کو کس حد تک آگے جانا چاہیے؟ یہ ایسے سوالات ہیں جو ہمارے ہاں مسلسل زیر بحث رہتے ہیں۔ ان پر آنے والی آرا مختلف ہیں۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے دو حلقے زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک رائے رائٹ ونگ کی ہے، جس میں روایتی مذہبی حلقے سرفہرست ہیں۔ یہ بھارت کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصورکرتے اور اس حوالے سے جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے حامی ہیں۔ دوسری طرف ہمارا لبرل، سیکولر حلقہ ہے جو بھارت کے ساتھ دوستی کو بہت اہمیت دیتا اور اس حوالے سے بہت آگے چلے جانے کا حامی ہے۔ ان کے خیال میں پاک بھارت تعلقات کو کشمیرکا یرغمال نہیں رہنا چاہیے۔ بھارت جیسے پڑوسی ملک کے ساتھ تجارت لازمی ہونی چاہیے اور اس عمل کو اس طرح تیزی سے آگے بڑھایا جائے کہ معاملات یورپی یونین جیسے ماڈل کی طرف چل پڑیں۔
ایک تیسری رائے درمیان والوں کی بھی ہے، اگرچہ وہ زیادہ نمایاں نہیں ہو پاتی، دونوں انتہائی اطراف کی آواز اور ان کی باہمی لڑائی پورے منظرنامے پر غالب آ جاتی ہے۔ اس اخبارنویس کی رائے میں پاک بھارت تعلقات کیسے ہونے چاہئیں سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پہلے ان زمینی حقائق کو سمجھ لیا جائے، جن کی وجہ سے بار بار اڑچن پڑجاتی ہے۔ اس پر بات ہوگی، مگر پہلے گزشتہ روز(اتوار)کوشائع ہونیوالے رئوف کلاسرا کے کالم ''پہلی گولی کون چلائے گا؟‘‘ پر بات ہو جائے۔ برادرم رئوف کلاسرا کے ساتھ میرے تعلق کی نوعیت تین طرح کی ہے۔ وہ سرائیکی ہے اور ایسا سرائیکی جس نے اپنے علاقے اور بے پرسان حال لوگوں کو کبھی نہیں بھلایا، ان کے لئے ہمیشہ آواز بلند کی۔ دوسرے، ان کے ساتھ میرا تعلق برادرانہ اور دوستانہ رہا۔ انہوں نے ہمیشہ میرے حوالے سے درگزر اور لحاظ کا مظاہرہ کیا، ورنہ نظریاتی حوالوں سے میرے بیشتر کالم ان کی سوچ اور فکر سے بہت مختلف بلکہ متصادم ہیں، اس کے باوجود وہ طرح دے جاتے ہیں۔ تیسرا تعلق یہ ہے کہ میں ان کی تحریر اورگفتگو کا مداح ہوں۔ جیسی جرأت اور شدت سے وہ کرپٹ مافیاز کا محاکمہ کرتے اور صاحبان اقتدارکے مقابل کھڑے ہوتے ہیں، اسے دیکھ کر رشک آتا ہے۔کتابیں وہ بے تحاشا پڑھتے اورگاہے اپنے کالموں میں شیئر بھی کرتے ہیں۔ اتوار کے کالم میں انہوں نے دو اہم نکات اٹھائے ہیں۔ جنگ ستمبر 1965ء کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ تاشقند معاہدے میں بھارتی وزیراعظم شاستری یہ چاہتے تھے کہ پاکستان اور بھارت میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہونا چاہیے، جس کی وزیرخارجہ بھٹو نے مخالفت کی؛ تاہم بعد میں صدرایوب خان نے اپنے قلم سے معاہدے میں اضافہ کرتے ہوئے مذکورہ بات لکھ دی، اگرچہ وہ بھارتی حکمران کے حسب منشا نہیں تھی۔ برادرم کلاسرا کا خیال ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت میںجنگ نہ ہونے کا معاہدہ ہوجاتا تو مشرقی پاکستان الگ نہ ہوتا۔ اسی استدلال کی بنیاد پر انہوں نے لکھا کہ اب بھارتی وزیر داخلہ نے جو پیش کش کی ہے کہ بھارت کنٹرول لائن پر پہلی گولی نہ چلانے کا معاہدہ کرنے کو تیار ہے، اسے فوراً قبول کر لینا چاہیے کیونکہ ہم ہر وقت حالت جنگ میں نہیں رہ سکتے، اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے چاہئیں وغیرہ وغیرہ۔ میں برادرم کلاسرا کی اس بات سے متفق ہوں کہ ہم ہر وقت حالت جنگ میں نہیں رہ سکتے، کوئی بھی ملک نہیں رہ سکتا۔ اپنے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات ے ضروراچھے ہونے چاہئیں، اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے؛ تاہم دو تین سوال ذہن میں اٹھتے ہیں، ان کے جواب بھی کھوجنے چاہئیں کہ ان کے بغیر یہ الجھا ہوا معاملہ گرفت میں نہیں آسکے گا۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ پاک بھارت مشترکہ سرحد پر پہلی گولی نہ چلانے کا معاہدہ ہوبھی گیا، تو بھی اس پر عمل درآمد کیسے ہوگا؟ بھارت نے اب کون سا تسلیم کر لیا ہے کہ پہلی گولی اس نے چلائی؟ بھارتی وزارت خارجہ و دفاع کے بیانات اور بھارتی میڈیا پر نظر ڈال لیں، نیٹ پر سب اخبارات اور چینلزکے صفحات موجود ہیں، وہ تو مسلسل یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بھارت نے جواب دیا ہے۔ اب ان سے کون یہ سوال کرے کہ میٹرک کی سطح کا ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ پاکستانی فوج کئی محاذوں پر بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔ ڈیڑھ دو لاکھ فوج فاٹا میں آپریشن کر رہی ہے، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب عضب چل رہا ہے، بلوچستان میں معاملات سنوارنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ایسے میں کون احمق بھارتی سرحد پر گولی چلا کر اپنے لئے مصیبت مول لے سکتا ہے؟ بھارت کی سرحد کے ساتھ سیالکوٹ ، ناروال وغیرہ کے پاکستانی دیہات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ روزنامہ دنیا کے میگزین سیکشن کے فیچر رائٹر نے پچھلے ہفتے ان علاقوں کا دورہ کیا اور اس پر تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے، بھارتی فائرنگ اور گولہ باری سے مکان چھلنی ہوئے پڑے ہیں، ایک درجن کے قریب افراد شہید اور بیسیوں زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ سب ناقابل تردید حقیقت ہے، اقوام متحدہ کے نمائندوں کو بھی دکھایا جا چکا، مگر بھارت نے کبھی تسلیم نہیںکیا کہ وہ جارحیت کر رہا ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ بھارت پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لئے ایسا کر رہا ہے تاکہ پاکستانی فوج مشتعل ہو کر سخت جواب دے اور پھر کشیدگی بڑھائی جا سکے۔ پاک فوج اور عسکری قیادت نے مگر نہایت تحمل اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ بھارت کے پاس ایسا کچھ نہیں جو وہ دنیا کو دکھا سکے کہ پاکستانی فائرنگ اورگولہ باری سے یہ نقصان ہوا۔ ہماری طرف سے صرف واضح الفاظ میں سخت پیغام دیا گیا ہے تاکہ اگر بھارتی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کسی ایڈونچرکا سوچ رہی ہے تو اس پر ری تھنک کر لے۔ فوج کو اگر جنگ کا اتنا شوق ہوتا تو پھرکنٹرول لائن پرکشیدگی بڑھائی جاتی۔ اس میں کیا جاتا ہے؟ دو چار گولے ہی پھونکنے ہوتے ہیں۔ اگر فوج جنگ لڑنے کے لئے اتنی بے تاب اور جنونی ہو رہی ہوتی تو پھر یمن جانے کا فیصلہ کر لیا جاتا، جس کے بدلے اربوں ریال بھی ملتے ۔ فوج قطعاً جنگ نہیں چاہتی، نہ ہی ہماری سیاسی قیادت کی ایسی کوئی خواہش ہے۔ حتیٰ کہ اپوزیشن کی اہم جماعتیں پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی وغیرہ بھی اس حوالے سے دبائو نہیں ڈال رہیں۔
جنگ نہ کرنے کے معاہدے میں کوئی حرج نہیں، مگر عملی طور پر یہ کاغذ کے ٹکڑے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ معاہدہ تاشقندکولے لیں۔ ایوب خان نے اپنے قلم سے معاہدے میں بھارتی منشا کے مطابق اضافہ کر دیا تھا، جسے بھارت نے اس قدر اہمیت دی کہ اسے اپنے آرکائیوز میں شامل کر رکھا ہے، کلدیپ نائر نے جس کا عکس تک چھاپ دیا۔ سوال یہ ہے کہ پھر چھ سال بعد بھارت نے یک طرفہ حملہ کرکے مشرقی پاکستان کو الگ کیوں کرا دیا؟ ہمارے سیکولر دوستوں کا شکوہ ہے کہ ہم نے جنگ ستمبر کے بارے میں نصاب میں شامل کر رکھا ہے کہ چھ ستمبر کو مکار دشمن نے بغیر اعلان حملہ کر دیا، یہ بات نہیں لکھی جاتی کہ اس سے پہلے آپریشن جبرالٹر کی صورت میں ہم نے مقبوضہ کشمیر میں پنگا لیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پینسٹھ سے اکہتر تک تو پاکستان نے بھارت کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیںکی، کوئی ایشو نہیں تھا، پھر بلاجواز بھارت نے مشرقی پاکستان پر فوج کشی کیوںکر دی؟ جبکہ معاہدہ تاشقند کی صورت میں ان کے پاس ایک دستاویز بھی موجود تھی، جس کا احترام کرنا چاہیے تھا۔ 
بات بڑی سادہ ہے، ملک معاہدوں سے نہیں، اپنی اندرونی طاقت اور جواب دینے کی بھرپور صلاحیت ہی سے محفوظ رہتے ہیں۔ شمالی کوریا نے کس ملک سے معاہدہ کر رکھا ہے؟ جنوبی کوریا اس سے سخت متنفر ہے، امریکی بہت ناراض ہیں، پوری مغربی دنیا انہیں شیطان سمجھتی ہے، لیکن کسی کو یہ جرأت نہیں ہوسکی کہ اس پر حملہ کر دے۔ وجہ شمالی کوریا کی دفاعی اور ایٹمی صلاحیت ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو شمالی کوریا کو عراق، افغانستان یا لیبیا کے انجام سے دوچار نہیں ہونے دیتا۔ ہمیں اپنے دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر اپنی معیشت سنوارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لیفٹسٹ سولہ سترہ فیصد دفاعی بجٹ کو کوستے تھے، پچھلے سات برسوں کے دوران تیس چالیس ارب ڈالرکا ملک پر قرضہ چڑھ چکا، بجٹ کا نصف سے زیادہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے، اسحاق ڈار جیسے ماہر معیشت ہر سال اربوں ڈالرکا مزید قرض لے کر خوش خبری سناتے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے۔ یہ بے رحمانہ مذاق بندکر کے اپنے ٹیکسیشن سسٹم کو ٹھیک کرنا ہوگا، قرضے اتارنے ہوںگے۔ داخلی استحکام، مضبوط معیشت ، مطمئن عوام اور دفاع کی مضبوط قوت ہو تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں