ڈوبتی کشتی

دو سوال جن پر سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے اور عملی سیاست میں دلچسپی لینے والے کارکن بات کرتے رہتے ہیں... پیپلزپارٹی کی حالیہ ابتر پوزیشن اور اس کا ممکنہ مستقبل ۔ بھٹو کی پارٹی ان کے ''جینئس ‘‘داماد کے سات سالہ دور چیئرمینی میں اپنے سیاسی سفرکے بدترین مرحلے میں پہنچ چکی ہے۔ وہ پارٹی جس کو زیر کرنے کے لئے ایک عرصے تک اس کی مخالف جماعتوں کو وسیع تر اتحاد بنانا پڑتا تھا، اسٹیبلشمنٹ کے روایتی حلقے جس کے خلاف پس پردہ متحرک رہتے، جس کے ووٹ بینک کے بارے میں مبصرین یہ حتمی فیصلہ سنا کر نچنت بیٹھے تھے کہ الیکشن خواہ کیسا ہو، حکومت کسی کی ہو، یہ تیس سے پینتیس فی صد ووٹروں پر مشتمل ووٹ بینک نہیں ٹوٹتااور صرف پیپلزپارٹی کی جھولی میں گرے گا۔وہی پیپلزپارٹی آج اس حال میں پہنچ گئی کہ پنجاب ، کے پی کے اور بلوچستان سے اس کا صفایا ہوچکا، صرف سندھ میں اس کی حکومت قائم ہے ، وہاں بھی یہ حالت ہے کہ کرپشن اور بدترین گورننس کے سیاہ بھیانک بادل اس کے اوپر چھائے ہیں۔حد یہ ہوگئی کہ پیپلزپارٹی کے صوبائی رہنما اور وزراء سندھ کا رڈ استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر کوئی بات نہیں بن پا رہی ۔ سندھی پریس اور وہاں لکھنے والے کالم نگار، تجزیہ کار اور سندھی دانشور جو روایتی طور پر پیپلزپارٹی کے لئے نرم گوشہ رکھتے تھے، اب وہ بھی سخت تنقید کرتے ہوئے سندھ کارڈ کو کرپشن چھپانے کا ایک ناکام حربہ قرار دے رہے ہیں۔ 
بلاول بھٹو زرداری اپنی والدہ کی چھوڑی اس جماعت کو کیا دوبارہ سے فعال بنا پائیں گے،ناراض ورکروں، روٹھے ہوئے ووٹروں کو اپنی طرف کھینچ سکیں گے؟ اس پر بات کرتے ہیں ، لیکن پہلے ایک اعتراف جو بنیادی طور پر رائیٹ ونگ میڈیا اور انٹیلی جنشیا کو کرنا چاہیے، میرے جیسے رائیٹ آف سنٹر ہونے کے دعوے داروں پریہ قرض واجب نہیں ہے، لیکن پھر بھی ریکارڈ درست رکھنے کے لئے اپنانقطہ نظر بیان کردیتا ہوں۔میرے خیال میں رائیٹ ونگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہمیشہ زیادتی کی ، اس کے خلاف مبالغہ آمیز مہم چلائی اور غلط طور پر بھٹو خاندان کو سکیورٹی رسک قرار دیا۔حالات اور تاریخ نے وہ الزامات غلط ثابت کئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو یا ان کی پارٹی پر کئی حوالوں سے تنقید کی جاسکتی تھی، مگر انہیں جس طرح محب وطن اور غیر محب وطن کے خانوں میں بانٹا گیا،وہ غلط تھا۔ میاں نواز شریف کی حمایت کرنا ایک الگ بات تھی، ہر ایک کا حق ہے کہ وہ کسی بھی جماعت یا لیڈر کو سپورٹ کرے، لیکن ضروری نہیں تھا کہ ایسا ان کے مخالفوں کو غدار ثابت کر کے کیا جاتا۔ میثاق جمہوریت کے موقعہ پر میاں صاحب نے تو اپنی رائے سے رجوع کر لیا، اس کے بعد سے انہوں نے کبھی پیپلزپارٹی کو سکیورٹی رسک قرار نہیں دیا۔ رائیٹسٹوںکویہ قرض ابھی چکانا ہے۔مجھے اندازہ ہے کہ ستر کے عشرے میں بھٹوصاحب نے بھی رائیٹ ونگ لکھاریوں اور دانشوروں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ زندگی، اردو ڈائجسٹ اور دیگر جرائد کو بدترین سنسر اور حکومتی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی ممتاز صحافیوں کو جیل جانا پڑا، ان کے رسائل اور جرائد کے ڈیکلیریشن منسوخ ہوتے رہے۔ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، تاریخ کے صفحات میں بھٹو صاحب بھی اس حوالے سے ملزم ٹھہرتے ہیں۔ رائیٹ ونگ نے مگر اس دشمنی اور اینٹی بھٹو جذبات کو اپنے اندر یوں سینچا کہ برسوں بلکہ عشروں تک اس کو لے کر چلے۔ نوے کے عشرے میں انہوں نے میاں نواز شریف اور مسلم لیگ کی حمایت میں پیپلزپارٹی کے بارے میں ایسا پروپیگنڈا کیا، جس سے وہ آج خودبھی اتفاق نہیں کرتے۔ 
میرے نزدیک پیپلزپارٹی کا ایک اہم اور طاقتور سیاسی جماعت کے طور پر باقی رہنا قومی سیاست کے لئے اہم اور ضروری ہے۔ اس کی دو تین بڑی وجوہ ہیں۔ پیپلزپارٹی ایک وفاقی جماعت رہی ہے، جس کا سندھ میں گہرا اثرورسوخ اور پنجاب ، خیبر پختون خوا کی بعض پاکٹس میں اچھی پوزیشن رہی ہے۔ جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی ایک طویل عرصے تک اہم ترین جماعت رہی، سنٹرل پنجاب میں بھی اس نے شریف برادران کی مسلم لیگ کو ٹف ٹائم دیا۔ یہ پوزیشن کسی اور جماعت کو حاصل نہیں رہی ۔ مسلم لیگ کی کبھی سندھ میں زیادہ نمائندگی نہیں رہی،ستانوے کے الیکشن میں اس نے وہاں سے کچھ نشستیں ضرور لیں، مگر مسلم لیگ یا شریف برادران کبھی روایتی سندھی ووٹ بینک کے نمائندہ نہیں رہے‘ نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ سندھ میں موجود دیگر اینٹی پیپلزپارٹی گروپ درحقیقت چند شخصیات پر مشتمل ہیں۔ پیر پگاڑا، ممتاز بھٹو، لیاقت جتوئی، ارباب رحیم وغیرہ میں سے کسی میں اتنا دم نہیں کہ وہ سیاسی خلا کو پر کر سکیں۔ تحریک انصاف قومی سیاست پر ایک نیا فیکٹر بن کر ابھری ہے۔ عمران خان میں اگرچہ پوٹینشل ہے کہ وہ سندھی ووٹرکو اپنی طرف کھینچ سکیں، مگر ابھی اس میں وقت لگے گا۔ ان کا اصل زور خیبر پختون خوا اور پنجاب ہی ہے، زیادہ سے زیادہ وہ کراچی میں دو چار سیٹیں نکال لیں گے۔ اس لئے پیپلزپارٹی جس انداز میں سندھی ، سرائیکی ، پنجابی اور پشتون اور کسی حد تک بلوچ ووٹروں کی کڑیوں کو ایک زنجیر میں جوڑ سکتی ہے، وہ دوسری جماعتوں کے لئے آسان نہیں۔ 
پیپلزپارٹی کی سیاست کا دوسرا اہم عنصر یہ رہا کہ چونکہ اس کا ووٹ بینک بنیادی طور پر لوئر مڈل اور لوئر کلاسز پر مشتمل ہے، اس لئے ان کی پالیسیوں میںعام آدمی کے لئے ریلیف کا عنصر خاصی حد تک شامل رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹونے جنرل ضیا الحق کے دور میں ایک بار کہا تھاکہ پیپلزپارٹی لیفٹ آف سنٹر پارٹی ہے۔ بعد میں اگرچہ اقتدار میں آ کر ان کی سوچ میں نمایا ں تبدیلی آئی اور رفتہ رفتہ پیپلزپارٹی اورکیپیٹل ازم کی حامی کسی دوسری جماعت میں کچھ خاص فرق نہیں رہا۔ اس کے باوجود پیپلزپارٹی پر لیفٹ کے تھوڑے بہت اثرات باقی رہے ۔تنخواہوں میں اضافہ، نئی بھرتی اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کرنے کی پالیسی جاری رہی۔ صوبائی خود مختاری ، قوم پرستوں کو ساتھ لے کر چلنا، لبرل سیاسی سوچ کو برداشت کرنا... اپنی دیگر خامیوں کے باوجود پیپلزپارٹی کی عملی سیاست میں یہ عنصر شامل رہے ہیں۔ جیالے کارکنوں کی صورت میں ایک خاص فلیور بھی ہماری سیاست میں شامل ہوا۔ اگرچہ اب تحریک انصاف کی سیاست میں بھی پُرجوش نوجوان سیاست کے رنگ جھلکتے ہیں، مگر پیپلزپارٹی کے خاص جیالے کلچر کی
اپنی انفرادیت تھی۔ ایک اور اہم فیکٹر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں پس پشت چلے جانے سے سیاست ایک بار پھر دو پارٹی نظام کی طرف جا رہی ہے۔دو پارٹی نظام امریکہ جیسے ملک کے لئے ٹھیک ہوگا، لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں ابھی جمہوری کلچر پنپ سکا ہے نہ ہی ہماری سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت اور سیاسی کلچر پیدا کر سکیں، یہاں ٹو پارٹی سسٹم زیادہ کامیاب نہیں۔ جب تک تیسرے کا دبائو نہ ہو، دونوں جماعتیں ٹریک پر نہیں رہتیں، وہ اپنی اپنی باری کے چکر میں مک مکا ٹائپ کی مفاہمتی سیاست کی طرح ڈال دیتی ہیں، جس کا تمام تر نقصان صرف اور صرف عوام کو پہنچتا ہے۔ 
سوال مگر وہی ہے کہ پیپلزپارٹی کے وجودکو برقرار رکھنے اور قومی سیاسی جماعت کے طور پر اس کی موجودگی کی اہمیت کے حوالے سے جتنے مضبوط دلائل جمع کر لئے جائیں، اپنے کارکنوں، روایتی ووٹروں اور عوام کا دل جیتنے کے لئے انہیں خود ہی کوشش کرنی ہوگی۔ پچھلے سات سال کی سیاست اور کارکردگی نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ یہ کام جناب زرداری سے نہیں ہوسکتا۔ ان کے بعض مداحین، جن میں جاوید ہاشمی جیسے تجربہ کار سیاستدان بھی شامل ہیں، کا کہنا تھا کہ زرداری صاحب کی سیاست کو سمجھنے کے لئے اس پر پی ایچ ڈی کرنی ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ کسی نوجوان مگر محنتی محقق کو ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ اس پر بھی کرنا چاہیے کہ کس مہارت کے ساتھ ایک بڑی وفاقی جماعت کو تباہ کر کے ایک صوبے بلکہ اس کے بھی دیہی علاقے کی جماعت بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بحث نامکمل ہے، اگلا سوال یہ ہے کہ کیا نوجوان بلاول اپنے نانا اور والدہ کی تباہ حال پارٹی کو دوبارہ فعال اور متحرک قومی جماعت بنا سکتے ہیں؟ اس پر انشاء اللہ اگلی نشست میں بات کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں