کیا بلاول پیپلزپارٹی بچا سکتے ہیں؟

پیپلزپارٹی کی سیاست کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے تو دو باتیںپہلی نظر میں واضح ہوجاتی ہیں۔ انہیں تسلیم کر کے ہی آگے بڑھا جاتا ہے ، اگر کوئی انہیں نہیں مان رہا تو اس کا مطلب وہ اس موضوع پر سنجیدہ تجزیہ نہیں کرنا چاہتا۔پہلی یہ کہ پیپلزپارٹی اپنی سیاسی زندگی کے بدترین دور میں ہے اوردوسرا اس حقیقت کا ادراک کہ اس کے موجودہ قائد آصف زرداری صاحب پارٹی کوپہلی والی پوزیشن میں نہیں لا سکتے، ان کے اندر اس کی اہلیت اور استعداد ہے نہ ہی ایسا کوئی عزم۔ پیپلزپارٹی نے 1997ء کے انتخابات میں بھی نہایت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، اس وقت بھی پنجاب میں انہیں بدترین شکست ہوئی تھی۔ اس وقت کی پیپلزپارٹی اور آج کی پارٹی میں دوتین بڑے اہم اور بنیادی نوعیت کے فرق موجود ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو موجود تھیں،وہ پیپلزپارٹی کا چہرہ تھیں ، بھٹو کی پگ ان کے سر پر تھی، وہ ناراض کارکنوں اور روٹھے ووٹروں کو دوبارہ پارٹی میں فعال بنانے کی صلاحیت اور قوت رکھتی تھیں۔ ویسے بھی کارکن اور ووٹرز ''زرداری فیکٹر ‘‘کی وجہ سے ناخوش ہو کر پیچھے ہٹ گئے تھے، وہ کرپشن اور بیڈ گورننس کا ذمہ دار اسی فیکٹر کو قرار دیتے تھے۔پھر اس وقت اسٹیبلشمنٹ بھی پیپلزپارٹی کے خلاف تھی، صدر فاروق لغاری نے پارٹی کی حکومت توڑی تھی اور عام تاثر تھا کہ نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پیپلزپارٹی کو دوبارہ نہیں آنے دے گی، اسی الیکشن ہی میں میاں نواز شریف صاحب پر جھرلو پھیرنے کا الزام بھی لگا۔
مئی2013 ء کے انتخابات میں نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ہرگز پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں تھی، سندھ کی نگران انتظامیہ تو پیپلزپارٹی کی مرضی سے بنی، پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بھی ایسی نگران حکومتیں نہیں تھیںجو پارٹی کی مخالف ہوں۔ اس لئے یہ بدترین شکست پیپلزپارٹی کو اپنے ''میرٹ‘‘پر ہوئی۔ ستانوے کے انتخابات میں اگرچہ پیپلزپارٹی کو شکست ہوئی ، مگر ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں دوسری جماعت وہی تھی، کہیں دور دور تک بھی تیسری جماعت کا خطرہ نظر نہیں آ رہا تھا، شکست اس لئے ہوئی تھی کہ بھٹو ووٹ بینک کا بڑا حصہ دل شکستہ ہو کر گھروں میں بیٹھا رہا، باہر نکلا ہی نہیں، جبکہ میاں نواز شریف نے اینٹی بھٹو ووٹ اکٹھا کر کے بڑی لہر پیدا کر لی۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں اس کے برعکس ایسا ہوا کہ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک باقاعدہ طور پر تحلیل ہوا۔ اس کا بڑا حصہ پی پی پی چھوڑ کر تحریک انصاف کے ساتھ جا ملا۔ لاہور اور سنٹرل پنجاب کے شہروں میں تو بہت جگہ یہ دیکھنے کو ملا کہ ایک خاندان جو چالیس سال سے پیپلزپارٹی کے ساتھ جڑا ہوا تھا، جو لوگ فخریہ کہتے تھے کہ ہمارا ووٹ بھٹو کی قبر کے لئے ہے، اسی خاندان کی نوجوان نسل عمران خان کے شخصی سحر میں گرفتار ہو کر تحریک انصاف کی طرف چلی گئی۔ مجھے پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی دوستوں نے کرب سے بتایا کہ 1970ء کے بعد پہلی بار ہمارے گھر سے ووٹ پیپلزپارٹی کے خلاف پڑا۔ نوجوان بیٹے، بیٹیوں نے نہ صرف خود تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا بلکہ اپنی مائوں کو بھی ساتھ ملا لیا۔بھٹو ووٹ بینک میں اتنا بڑا شگاف پہلی بار پڑا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں اس کمزوری کو دور کرنے، شگاف پر کرنے کی قطعی کوشش نہیں کی گئی۔ پارٹی کی بدترین شکست کا سائنٹفک تجزیہ ہوا نہ ہی بچے کھچے دل برداشتہ کارکنوں کو ساتھ رکھنے کی تدبیر کی گئی ۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پارٹی قیادت نے ذہنی طور پرشکست تسلیم کرلی ہے،وہ پنجاب پر صبر کر چکی اور اب سندھ ہی ان کی واحد آپشن ہے، وہاں بھی زیادہ کوشش زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے کی ہے تاکہ اگلے الیکشن میںوہاں پیسے کے زور پر الیکشن ہائی جیک کیا جاسکے۔اس مایوس کن صورتحال میں پیپلزپارٹی کے پرانے کارکنوں اور مخلص حامیوں کی واحد امید بلاول بھٹو زرداری ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ نوجوان بلاول اپنے نانا اور والدہ کے سیاسی ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے پارٹی کو دوبارہ سے قدموں پر کھڑا کردیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بلاول ایسا کر پائیں گے؟
میرے خیال میں بلاول کے لئے تین چار بڑے چیلنجز ہیں، اگر وہ کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں ان چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ ان کی حقیقی صلاحیتوں کے بارے میں اندازہ تب لگایا جا سکے گا۔ سب سے پہلے تو بلاول کو پارٹی میں اپنی پوزیشن منوانی ہوگی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک موت کے بعد ان کی مبینہ وصیت سامنے آئی، جس میں بلاول بھٹو کو ان کا وارث اور پارٹی کا چیئرمین نامزد کیا گیا، بلاول کی تعلیم کی وجہ سے مصروفیت کے پیش نظر آصف زرداری کو شریک چیئرمین یعنی ایک لحاظ سے عبوری سربراہ بنایا گیا۔وصیت اس وقت کی ضرورت تھی، زرداری صاحب کے حوالے سے پیپلزپارٹی میں زیادہ خوشگوار جذبات نہیں پائے جاتے تھے۔آج مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ 
زرداری صاحب ہی پیپلزپارٹی کے حقیقی سربراہ اور طاقت کا سرچشمہ ہیں۔پارٹی پر ان کی گرفت مضبوط ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے جب انہوں نے یہ کہا کہ بلاول ابھی میچور نہیں ہیں، انہیں وقت لگے گا ، تب پارٹی سے ایک بھی آواز نہیں اٹھی کہ جناب آپ تو عبوری سربراہ تھے، جو حقیقی چیئرمین ہے، اس کو یوں آپ نے سیاسی نابالغ کیسے کہہ دیا۔سچ یہ ہے کہ اگر زرداری صاحب چاہیں تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ بلاول کو ایک سائیڈ پر کر کے بختاور یا آصفہ کو آگے لاسکتے ہیں۔اسی لئے بلاول کو اگے آگے بڑھنا، بڑے فیصلے کرنے ہیں تو پہلے انہیں اپنے لئے پارٹی میںسپیس پیدا کرنا ہوگی۔ صرف بھٹو کا نواسا ہونا کافی نہیں۔ وہ مرتضیٰ بھٹو سے بڑھ کر بھٹو صاحب کے قرابت دار نہیں ہوسکتے، نہ ہی بلاول کی مرتضیٰ جیسے دبنگ شخصیت ہے، اس کے باوجود مرتضی بھٹو سیاسی طور پر زیرو ہوگئے، پیپلزپارٹی کے لیڈروںاور کارکنوں نے بھٹو صاحب کے بیٹے کی جگہ ان کی بیٹی کا ساتھ دیا کہ جنرل ضیا کا مشکل دور ان کے ساتھ بی بی نے کاٹا تھا ، مرتضیٰ نے نہیں۔ بلاول کو بھی کارکنوں کے دل جیتنے کے لئے ان کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، ان کے دکھ درد کا ساتھی بنے بغیر وہ پارٹی میں کبھی حقیقی لیڈر کے طور پر نہیں دیکھے جا سکتے۔ 
بلاول کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اب ستر کے عشرے کے نعرے نہیں چل سکتے۔ ان کے اساتذہ نے انہیں بھٹو صاحب کے انداز میں جوشیلی تقریریں کرنا اور روایتی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ سکھا دیا۔ یہ سب مگر پرانے ، گھسے پٹے حربے ہیں۔پاکستان اور عوام بہت آ گے جا چکے ہیں۔ اب یہاں تبدیلی، گڈ گورننس، اصلاحات کی بات کرنی ہوگی۔ اپنا ویژن سامنے رکھنا اور عوام کو قائل کرنا ہوگا۔ جوش وجذبے کے ساتھ عقل اور ہوشمندی کا امتزاج بنانا ہوگا، اس کے بغیر کام نہیں بنے گا۔سب سے بڑھ کر انہیں لکھی ہوئی تقریر کرنے کے بجائے اپنے خیالات کو فطری انداز میں لوگوں تک پہنچانا چاہیے۔ رومن اردو میں لکھی تقریریں پڑھنے سے اچھا تاثر نہیں رہا۔انہیں نوجوانوں سے رابطہ بھی رکھنا چاہیے۔ وہ سوشل میڈیا کو استعمال کرتے ہیں، مگر صرف ٹوئٹر پر طنزیہ کمنٹس کافی نہیں، اپنے کارکنوں، نوجوان ووٹروں سے مسلسل رابطہ رکھیں، فیس بک پر سوالات کے جواب دیں، اپنے نظریات، خیالات شیئر کریں۔ 
اہم ترین چیلنج سندھ حکومت ہے۔ جس طرح عمران خان کی کارکردگی اور وعدوں کو کے پی کے میں ان کی حکومتی کارکردگی کے پیمانوں پر پرکھا جا رہا ہے، اسی حوالے سے انہیں کریڈٹ اور ڈ س کریڈٹ مل رہا ہے، اسی طرح پیپلزپارٹی کا اصل امتحان اور محاذ سندھ ہے۔ سندھ حکومت کی کارکردگی بہتر بنائے بغیر بلاول مستقبل کا کوئی بھی دل خوش کن خواب نہیں بیچ سکتے۔ انہیں سندھ کا چیلنج قبول کرنا ہوگا، صرف چہروں کی تبدیلی نہیں بلکہ بدترین گورننس کو ڈرامائی انداز میں اٹھا کر گڈ گورننس میں بدلنا آسان کام نہیں،مگر اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ کام مشکل ہے، مگر پہلا قدم اٹھانے سے نیت کا اندازہ ہوجائے گا۔ اہم عہدوں پر تقرریاں ہی بتا دیں گی کہ پیپلزپارٹی کی نئی قیادت سندھ میں مختلف انداز سے کام کرنا چاہ رہی ہے۔پیپلزپارٹی جس قدر نیچے آ چکی ہے، اسے اوپر اٹھانے کے لئے غیرمعمولی کاوش درکار ہے، کیا نوجوان بلاول ایسا کر پائیں گے،کیا ان کے والد محترم انہیں ایسا کرنے دیں گے؟... یہ ایسے سوالات ہیں، جن کے جواب پانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں