پہلی کامیابی

چند ماہ پہلے عراق میں داعش نے موصل اور آس پاس کے شہروں پر ڈرامائی انداز سے قبضہ کیا تو مغربی دنیا حیران رہ گئی۔ امریکی ماہرین یہ توقع نہیں کر رہے تھے کہ ان کی برسوں کی محنت سے تربیت پانے والی عراقی فوج داعش کے غیر تربیت یافتہ جنگجوئوں کے سامنے نہیں ٹھیر سکے گی۔ موصل میں یہ غضب ہوا کہ داعش کے صرف آٹھ سو جنگجو شہر میں داخل ہوئے اورتیس ہزار کے قریب عراقی فوجی یوں سر پر پیر رکھ کر بھا گے کہ اپنے ٹینک اور گاڑیاں تک پیچھے چھوڑ گئے، اتنی مہلت بھی نہ مل سکی کہ موصل کے سرکاری بینک میں موجود کروڑوں ڈالر کرنسی ساتھ لے جاتے۔ داعش کی یہ کامیابی غیر معمولی تھی، یہ اور بات کہ ان کی انتہائی جاہلانہ، سفاکانہ بلکہ درندگی پر مبنی پالیسیوں نے پورے عراق میں ان کے خلاف نفرت کی ایسی لہر پیدا کر دی کہ کرد علاقوں کے ساتھ بغداد اور اس کے قریبی شیعہ شہروں میں عوامی ملیشا سرکاری فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہوگئی اور وہ داعش کے فتنے کو محدود رکھنے میں کامیاب رہے۔
جن دنوں داعش نے عراق میں تہلکہ مچا رکھا تھا، ایک دو محفلوں میں افغانستان کے حوالے سے بات ہوئی تو میں نے رائے ظاہر کی کہ افغانستان میں بھی موصل جیسا منظر دہرایا جائے گا۔ جب امریکی فوجوں کا انخلا شروع ہوگا اور سکیورٹی افغان فوج کے ہاتھ آئے گی تو طالبان اسی انداز سے مختلف شہروں پر حملے کریںگے اور افغان آرمی بھی عراقی آرمی کے انداز میں ''شاندار پسپائی‘‘ اختیار کرتی نظر آئے گی۔ ''شاندار پسپائی‘‘ کی اصطلاح کو طنز نہ سمجھا جائے، یہ چرچل کا مشہور زمانہ فقرہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب ایک محاذ سے برطانوی فوج کو شکست ہوئی اور اسے پسپا ہونا پڑا تو برطانوی وزیراعظم نے اپنی فوج اور عوام کا حوصلہ بلند کرنے کے لئے یہ خوبصورت فقرہ کہا: ''It was a glorious retreat‘‘۔ یہ اور بات کہ خوبصورت الفاظ کچھ دیر کے لئے گمراہی تو پھیلا سکتے ہیں، حقیقت کو چھپا نہیں سکتے۔ خیر بات طالبان کی ہو رہی تھی، ان کی جانب سے حملوں اور مختلف شہروں پر قبضے والی بات بہت سے دوستوں کو ناگوار گزری۔ ان کا خیال تھا کہ طالبان اب ماضی کا قصہ بن گئے اور امریکہ نے ساڑھے تین لاکھ افغان فوج کی تربیت کر کے انتہائی مضبوط دفاعی لائن تیار کر لی ہے۔ طالبان کو مختلف وجوہ کی بنا پر پسند نہ کرنے والے تجزیہ کاروں کی برہمی اور ناراضی قابل فہم تھی، میرا تجزیہ مگر زمینی حقائق اور اپنی معلومات کی بنا پر تھا۔
دراصل طالبان کے حوالے سے ہمارے ہاں خاصا کنفیوژن پایا جاتا ہے۔ عام لوگ تو خیر اس حوالے سے مغالطے کا شکار ہیں ہی، اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بلکہ سینئر صحافی تک بنیادی حقائق سے بے خبر ہیں۔ وہ افغان طالبان اور نام نہاد تحریک طالبان پاکستان کو ایک سمجھتے ہیں۔ یہ بنیادی نوعیت کی غلطی ہے۔ میں بار بار لکھ چکا ہوں، اب اعادہ کر رہا ہوں کہ افغان طالبان الگ وجود رکھتے ہیں۔ درحقیقت طالبان کی اصطلاح بھی انہی کے لئے وضع ہوئی تھی اور انہی کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی اپنی قیادت، الگ نظم یعنی تنظیمی ڈھانچہ اور ایک نہایت فوکسڈ ایجنڈا ہے۔ پاکستانی ریاست کے وہ قطعی مخالف نہیں۔ ماضی میںکبھی کوئی منفی قدم اٹھایا، لڑائی کی نہ مخالفانہ بیان دیا۔ 2006-07 ء سے ٹی ٹی پی یا تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستانی فورسز کی لڑائی جاری ہے۔ ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں افغان طالبان نے پاکستانی فوج، ایجنسیوں یا ریاستی اداروں اور عوام کے خلاف کارروائی کی ہو یا ٹی ٹی پی کا ساتھ دیا ہو۔ وہ اپنی مجبوریوں کے باعث کھل کر ٹی ٹی پی کے خلاف صف آرا نہیں ہوسکتے تھے کہ قبائلی ایجنسیوں خاص طور پر باجوڑ، شمالی اور جنوبی وزیرستان وغیرہ میں ان کا بیس کیمپ تھا اور یہاںکے مقامی محسود ودیگر قبائل کے ساتھ وہ لڑائی مول نہیں لے سکتے تھے، جو ٹی ٹی پی میں شامل تھے۔ افغان طالبان کا فوکس اور محاذ ہمیشہ افغانستان رہا ، ان کی تمام تر جدوجہد افغانستان پر قابض غیرملکی افواج کو نکالنے کے لئے تھی۔ اس اعتبار سے افغان طالبان کا شمار فریڈم فائٹرز میں ہوتا ہے، انہیں دہشت گردوں کے ساتھ ملانا زیادتی اور ظلم کے مترادف ہے۔ اب تو خیر انہیں دہشت گرد قرار دینے والا امریکہ خود ایک ایک کر کے ٹاپ طالبان کمانڈروں کے نام دہشت گردوں کی فہرست سے خارج کر رہا ہے۔ دوحہ ، قطر اور ترکی وغیرہ میں افغان طالبان کو دفاتر کھولنے کی اجازت دینا، ان پر دہشت گردی کا لیبل اتارنے کے مترادف تھا۔ ہمارے ہاں میڈیا کے ایک حصے نے ٹی ٹی پی کے ساتھ طالبان کا لفظ استعمال کر کے یہ سب کنفیوژن پیدا کیا۔ بڈھ بیر حملے کے اگلے روز ایک سینئر صحافی دوست سے بات ہو رہی تھی، کمال معصومیت سے انہوںنے کہا کہ اب تو طالبان کی قوت بڑھ گئی ہے، انہوں نے غزنی کی جیل سے کئی سوقیدی بھی چھڑا لئے ہیں۔ میںنے انہیںبتایا کہ بھیا، وہ دوسرے والے طالبان ہیں، غزنی جیل سے رہا ہونے والے بھی لڑیںگے، مگر پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ امریکی فوج کے خلاف۔ 
بات افغانستان میں طالبان کی جانب سے سٹرائیک بیک کی ہو رہی تھی۔ چند ماہ پہلے جو اندازہ تھا، دو دن پہلے قندوز پر طالبان نے اچانک حملہ اور قبضہ کرکے اسی انداز میں افغان حکومت، افغان آرمی اور نیٹو افواج کو دھچکا پہنچایا جیسا عراقی حکومت کو پہنچا تھا۔ قندوز پر حملے اور قبضے سے دو تین باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملا عمر کے بعد بھی افغان طالبان پہلے کی طرح متحد، طاقتور اور خطرناک ہیں۔ نئے امیر کی گرفت نہ صرف مضبوط ہے بلکہ معلوم ہو رہا ہے کہ طالبان نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ملا اختر منصور نے قندوز پرقبضے کے بعد پالیسی بیان جاری کیا، جس میںتین چار باتیں واضح طور پر کہیں۔ انہوں نے طالبان جنگجوئوںکو کہا کہ لوٹ مار نہیں کرنی، شہریوںکوقطعی طور پرتنگ نہیںکرنا، قیدیوںکو قتل نہیںکرنا، ہسپتالوںاور دیگر دفاتر میں پناہ لینے لوگوںکو کچھ نہیں کہنا بلکہ انہیںکام کرتے رہنے دینا ہے۔ انہوں نے خاص طور سے غیر ملکی این جی اوز سے کہا کہ آپ کام کرتے رہیں، کوئی آ پ کو ہاتھ نہیں لگائے گا، کوئی تنگ کرے تو ہمیں بتائیں۔ طالبان کی سابق پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ بہت اہم اور نمایاں تبدیلی ہے۔ طالبان کے امیر نے ایک بات خاص طور سے افغان صدرکوکہی کہ آپ طالبان کی قوت کو تسلیم کریں، قندوز میں طالبان ہی ہیں، کوئی غیرملکی جنگجو نہیں، اس لئے ہماری کامیابی کا کریڈٹ ہمیں دیں، کسی اور (یعنی پاکستان) پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ 
بدھ کا دن میں امریکی میڈیا دیکھتا اور پڑھتا رہا۔ امریکی ماہرین نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ طالبان نے ہر ایک کو حیران کیا ہے۔ مشہور ری پبلکن سینیٹر جان مکین نے تسلیم کیا کہ قندوز پاکستانی سرحد سے سینکڑوں میل دور ہے، یہاں پر طالبان کی اکثریت نہیں تھی، اس لئے ان کا قبضہ بہت اہم ہے۔ امریکہ کے عسکری ماہرین پریشان ہوگئے ہیں اور اب اس پر غور ہو رہا ہے کہ نیٹو افواج کے انخلا کے شیڈول کو تبدیل کیا جائے، مگر اوباما کا مسئلہ یہ ہے کہ اگلے سال وائٹ ہائوس سے رخصت ہونے تک وہ افغانستان کا مسئلہ حل کردینا چاہتے ہیں۔ طالبان کے منظم انداز میںدوبارہ ظہور نے تمام امریکی اندازے اور پلان درہم برہم کردیے ہیں۔ قندوز کے بارے میں یہ بتاتا چلوںکہ نائن الیون کے بعد جب نیٹو افواج اور شمالی اتحاد نے قندوز فتح کیا تو یہاں ہزاروں طالبان نے ہتھیار ڈال دیے تھے، قیدیوں کو جیل تک منتقل کرنے کے دوران بدترین مظالم کئے گئے، دوستم کے سپاہیوں نے سینکڑوں طالبان کنٹینروں میں ٹھونس کر گھنٹوں دھوپ میں کھڑے کر دیے، بے شمار طالبان دم گھٹنے سے مرگئے۔کسی میںہمت ہو تو دشت لیلیٰ کے قتل عام (Dasht-i-Leili massacre)کی تفصیل گوگل کرکے پڑھ لے۔ اس پس منظر میں طالبان کا قندوز پر قبضے کے بعد پرامن رہنا قابل ستائش ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ طالبان نے بغلان پربھی حملہ کر دیا ہے۔ قندوز پر مستقل قبضہ رکھنا طالبان کا مقصد نہیں ہوسکتا، انہوں نے جو دکھانا تھا، دکھا دیا۔ مزید شہروں پر حملے کر کے وہ اپنی قوت کو تسلیم کرائیں گے، اس کے ثمرات انہیں مذاکرات کی میز پر ملیں گے۔ یاد رہے کہ طالبان کے نئے امیر ہی نے مذاکرات کا اہم ترین دور شروع کیا تھا جو ملا عمرکے انتقال کی خبر سے ملتوی ہوگیا۔ مذاکرات پر فیصلہ ہوگا، مگر طالبان اپنی عسکری قوت منوا چکے، انہیں کمزور سمجھنا افغان حکومت کی بدترین غلطی ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں