ہم بھارت کے حوالے سے کیوں سوچتے ہیں؟

میرے ایک دوست قانون کی تعلیم سے وابستہ ہیں، برطانیہ سے انہوں نے لاء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی ہے، لاہور کی ایک معروف یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ قانون کے علاوہ سیاست، عالمی امور پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ روایتی دائیں بازو کی فکر کے ناقد، مضبوط اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور پرو جمہوریت موقف رکھتے ہیں۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ ہمارے ہاں ایک خاص پرو اسٹیبلشمنٹ حلقہ موجود ہے، بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے اس کی مخصوص سوچ ہے، ہمارے دوست اس سوچ کے مخالف اور ناقد تھے بلکہ ہیں۔ تین چار سال پہلے وہ دہلی کی ایک بڑی یونیورسٹی میں پڑھانے گئے، یہ سارک کا پروگرام تھا، جس کے تحت دو تین سال انہیں دہلی میں رہنا پڑا، اب واپس آ چکے ہیں۔ چند ماہ پہلے انہوں نے ایک تفصیلی نشست میں اپنے خیالات شیئرکیے۔ دو تین نکات پر خاص زور تھا، کہنے لگے: ''بھارت کی جو تصویر ان کے میڈیا، فلموں وغیرہ سے بنتی ہے، حقیقت اس سے مختلف ہے۔ وہاں ذات برادری اور مذہب کے تعصبات بہت خوفناک حد تک طاقتور اور ان کی جڑیں بہت نیچے تک ہیں۔ بہت پڑھے لکھے لوگ بھی انہی تعصبات کا شکار ہیں اور ان پر سماج کا دبائو اس قدر شدید ہے کہ وہ اس سے نکل نہیں پاتے۔ نارتھ اور سائوتھ انڈیا کی تقسیم، اونچی اور نچلی ذاتوں کی تقسیم، ہندو اور مسلمانوں کے مابین خلیج... یہ تینوں قسم کی تقسیم وہاں موجود ہے، جو جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ سائوتھ کے پروفیسروں کے ساتھ واضح زیادتی اور ناانصافی کی جاتی ہے۔ دلتوں کا تو حال یہ ہے کہ وہ کوٹہ کی وجہ سے یونیورسٹی میں آ تو جاتے ہیں، مگر ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ایک بار سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات تھے، ایک دلت لڑکا بھی کھڑا ہوگیا، اس کا ہر جگہ مذاق اڑایا جاتا۔ ایک بار وہ تقریر کرنے لگا تو طلبہ کے ہجوم نے اس پر آوازے کسنے شروع کر دیے۔ اس کے رنگ، کپڑوں، بالوں کے سٹائل کا بھی مذاق اڑایا جانے لگا۔ آخر تنگ آ کر اس نے اونچی آواز میں کہا، آپ لوگوں نے چار ہزار سال سے ہمیں دبا رکھا ہے، آج کم ازکم ہماری بات تو سن لیں، ووٹ بے شک نہ دیں۔ مسلمانوں کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ان کے معاملے میں پہلی دونوں تقسیمیں بھی مٹ جاتی ہیں۔ یوں زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔ ان کے لئے اچھے علاقوں میں گھر لینا، حتیٰ کہ بینک اکائونٹس تک کھولنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ میں یونیورسٹی میں پروفیسر تھا، سب کی تنخواہ بینکوں میں جاتی تھی، پاکستانی ہونے کے ناتے میرا بینک اکائونٹ نہیں کھل پایا، مقامی پروفیسروں، ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ ،حتیٰ کہ وائس چانسلر تک کی درخواست، فون اور تمام تر کوششوں کے باوجود تین سال تک میرا بینک اکائونٹ نہیں کھل پایا، حالانکہ سری لنکا اور بنگلہ دیش کے مہمان پروفیسروں کے اکائونٹس فوری کھل گئے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کا ویزا میرے پاسپورٹ پر موجود تھا، ایک دو بار وہاں جانے کا سوچا، مگر سری نگر میں رہنے والے ایک دو کشمیری صحافیوں نے باقاعدہ روک دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ رسک مت لو، ورنہ یہاں پکڑکرکوئی نہ کوئی کیس بنا کر اندرکر دیں گے، تمام کاغذات درست ہونے کے باوجود دو چار سال تک سڑتے رہوگے۔ دہلی میں مجھے اس پر بھی بڑی حیرت ہوئی کہ وہاں گندگی بھی خاصی ہے اور لوگوں کی عادات بھی عجیب انداز میں بگڑی نظر آئیں۔ سڑک کنارے پیشاب کرتے لوگ عام نظر آتے۔ کئی بار دیکھا کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سوار لوگ گاڑی روکتے اور مزے سے سڑک کنارے پیشاب کرنے لگ جاتے۔ حیرت ہوتی کہ یہ کیا ہے، اسی طرح بکھری جھاڑیاں ہر جگہ نظر آتیں، درختوں کی جھکی شاخوں کی کٹائی نہ ہوتی، پھر کسی نے بتایا کہ اس کے پیچھے بھی کوئی مذہبی وہم یا عقیدہ ہے۔ یہ غیرمعمولی باتیں نہیں، مگر بھارتی میڈیا، ڈراموں یا فلموں میں اس کی کبھی جھلک نہیں ملے گی، انہیں دیکھ کر تو لگتا ہے کہ بھارت میں ہر گلی میں کوئی مس ورلڈ، مس یونیورس گھوم رہی ہے۔ حقیقت اس سے یکسر مختلف ملے گی۔ بھارت کا مگر کمال یہ ہے کہ اس نے اپنی کمزوریوں بلکہ بدصورتیوں کو کمال مہارت کے ساتھ ڈھانپ رکھا ہے، ان کا امیج بھارت سے باہر بہت چمکدار اور گلیمرائزڈ ہے۔ بھارت کا تمام تر گلیمر اور بھرم تین چیزوں پر کھڑا ہے۔ بھارتی جمہوریت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، سیکولرازم اور بالی وڈ کی فلمیں ہیں۔‘‘
لاہور میں رہنے والے ہمارے اس پروفیسر دوست کے بقول پاکستان میں جو حلقے بھارت سے دوستی کے لئے مرے جاتے ہیں یا بھارت کا پرکشش چہرہ دیکھ کر مسحور ہیں، انہیں صرف چند دنوں کے لئے وہاں بھیج دیا جائے، کانوں کو ہاتھ لگاتے واپس آ ئیں گے۔ بھارت کے اندرونی بدصورت تضادات اورتعصبات دیکھ کر ان کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ یہ بات واقعی درست ہے۔ بھارت میں تین چار قسم کی اندرونی تقسیم موجود ہے۔ پہلے تو نارتھ انڈیا اور سائوتھ انڈیا کو سمجھ لیا جائے۔ نارتھ انڈیا میں دہلی، اترپردیش یعنی یوپی، پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، اترکھنڈ شامل ہیں۔ بہار، مدھیہ پردیش اور راجستھان کو بھی اسی فہرست میں شامل کر لیا جاتا 
ہے۔ سائوتھ انڈیا میں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ، کرناٹکا، کیرالہ کے صوبے شامل ہیں۔ ایک بڑی تقسیم تو نارتھ انڈیاا ور سائوتھ والوں کی ہے۔ دوسری تقسیم اونچی ذات اور نچلی ذات کی ہے، یہ اپنی جگہ بڑی گمبھیر اور بھیانک ہے۔ اعلیٰ ذات کے ہندو نچلی ذاتوں کے دلت، شیڈولڈ کاسٹ وغیرہ کو سخت ناپسند کرتے اوران کے لئے واضح طور پر تعصبات رکھتے ہیں۔ منڈل کمیشن رپورٹ کے مطابق ان نچلی ذاتوںکے لیے ستائیس فیصد کوٹہ رکھا گیا۔ انہیں فائدہ ہوا، مگر ٹرانسفر، پروموشن وغیرہ میں انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کی زبان، رہن سہن، کلچر کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ دانشور طبقہ اور میڈیا خاص طور پر ہندی میڈیا میں بھی یہ تعصبات موجود ہیں۔ حال یہ ہے کہ مقبول ٹی وی ٹاک شوز، جیسے کامیڈی نائٹ ود کپل وغیرہ میں بھی ان علاقوں کے لوگوں کی زبان اور کلچر کا تمسخر اڑایا جاتا ہے۔
بھارت کے اندرونی تضادات پر ہمارے ہاں زیادہ گہرائی میں بات نہیں ہوتی، ہوتی بھی ہے تو ایک خاص لہجے اور رنگ میں۔ روایتی رائٹ ونگ کے بعض لوگ اس پر لکھتے یا بات کرتے ہیں تو ان کے تعصبات بھی صاف جھلکتے ہیں۔ میرے خیال میں بھارت کے اندرونی تضادات کو سمجھنا چاہیے۔ بات یہ نہیں کہ ہم لوگ بھارت کے سیکولرازم سے ناخوش ہیں یا وہاں پر مذہبی شدت پسندی کے مظاہروں پر خوش ہوگئے ہیں۔ بھارت کے حوالے سے سوچنے اور بات کرنے کی دو تین عملی اور ٹھوس وجوہ ہیں۔
ایک تو بھارتی ترقی، خوشحالی اور آگے نکل جانے کے غیر حقیقی دعوئوں اور منظر کشی سے ہمارے ہاں منفی اثرات پڑتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا احساس کمتری پیدا ہوتا ہے، جسے ہمارے ہاں کے پرو انڈیا حلقے یا تجزیہ کار بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ سب اس طرح کیا جاتا ہے کہ آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرنے کے بجائے شکست خوردگی پیدا ہو اور پاکستانی بھارتی ایجنڈے اور دبائو کے آگے سرنڈر کرنے کا سوچیں۔ اس وجہ سے بھی بھارتی ترقی کے مصنوعی ماڈل پر بعض اوقات تنقید کی جاتی ہے تاکہ اس غبارے سے ہوا نکالی جا سکے اور حقیقی تصویر سامنے رہے۔ پاکستان کے اپنے مفادات ہیں، جنہیں ہمیں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ بدقسمتی سے ان میں سے بعض بھارت سے ٹکراتے ہیں، اس لیے ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی بھارتی ایجنڈے کو کائونٹر کرنا پڑتا ہے۔ دنیا بھر میں ایسا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں خرابی یہ ہوئی کہ ہماری بیڈ گورننس اور بدترین نااہلی نے اندرونی نظام تباہ کر دیا ہے۔ ایک خاص حلقہ اس کا فائدہ اٹھا کر ہماری نااہلی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا ذمہ دار بھی ہماری فارن یا سکیورٹی پالیسی کو قرار دیتا ہے۔ گویا بھارت کے ساتھ غیر مشروط دوستی کرنے سے ہمارے سب مسائل حل ہوجائیں گے۔ یہ بات درست نہیں، اس بیانیہ کو کائونٹر کرنے کے لیے کبھی ہمیں بھارت کے اندرونی تضادات کی نشاندہی کرنا پڑتی ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ جب بھارت میں شدت پسندی بڑھی ہے، شدت پسند رائٹ ونگ ہندو اقتدار میں آتا ہے تو یہ معاملہ صرف بھارت کا اندرونی مسئلہ اور وہاں کے مسلمانوں کے لیے پیدا ہونے والے ایشوز تک محدود نہیں رہتا، بلکہ پاکستان پر بھارتی دبائو بڑھتا ہے اورکنٹرول لائن پر فائرنگ کے ساتھ جنگ کے خدشات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں ان تمام چیزوں پر نظر رکھنا، انہیں زیر بحث لانا اور ان سے ایک خاص تاثر پیدا کر کے نیشنل ازم کے جذبے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ ہماری انٹیلی جینشیا کی مجبوری بلکہ ایک خاص سطح پر جا کر ان کا فرض بھی بن جاتا ہے۔ بھارت کے حوالے سے چلنے والی ہماری بحثوںکو اس بڑے تناظر میں بھی سمجھنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں