ہم ان جیسے نہیں ہیں!

بھارت میں شدت پسندی کی جو خوفناک لہر ابھری ہے، اس نے نہ صرف بھارت میں بے شمار لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی بہت سوں کا بھارت کے حوالے سے تاثر تبدیل ہوا ہے۔ پاکستان میں ایک بڑے حلقے کوبھی دھچکا پہنچا ہے، جو اس سے پہلے پاکستانی قوم اور پاکستانی ریاست کو بے بھائو کی سناتے رہتے تھے، لعنت ملامت کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ تھا ،جو ان کے لبوں اور قلم سے جاری تھا۔ ہر عیب اور خامی پاکستان میں ڈھونڈی جاتی اور پاکستانیوں کو شرمندہ کرنے کے لئے بھارت کی مثالیں دی جاتیں،چمکے دمکتے بھارت(شائننگ انڈیا)کی اکانومی ، ان کی ترقی ، سماجی بیداری، سیکولرازم ، جمہوریت اور سیاسی کلچر کے نجانے کون کون سے واقعات سنائے جاتے ۔ اب اچانک ہی بھارتی سماج کاایک تاریک رخ اس طرح سامنے آیا کہ ان سب کے پاس کہنے کو کچھ نہیں بچا۔ہمارے ہاں کچھ لوگ اس خاص تنقیدی اور پوری قوم پر لعنت ملامت کرنے والوں کو ملامتی فرقہ یا ملامتیہ کہہ دیتے ہیں۔ یہ غلط اصطلاح ہے۔ تصوف میں ایک فرقہ ملامتیہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ لوگ دوسروں پر لعن طعن نہیں کرتے تھے، بلکہ دانستہ طور پر ایسی حرکتیں کرتے کہ لوگ ان کے عقیدت مندبننے کے بجائے ان سے خفا ہو کر دور ہوجائیں۔ کوئی ایسی حرکت، جوخالص شرعی اصولوں یا فرائض کے خلاف نہیں، لیکن بظاہر یوں لگے کہ شاید ایسا کرنے والا شریعت کا پابند نہیں ہے۔ مقصد صرف یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہماری بزرگی یا صاحب عرفان ہونے کی خبر لوگوں کو نہ مل جائے اور وہ عقیدت مندی کا شکارنہ ہوجائیں۔ میرامقصد ملامتی فرقے کی وکالت نہیں ۔تصوف کی نامی گرامی شخصیات اس رویے کو پسند نہیں کرتی تھیں اور ملامتی بننے سے گریز کرتیں۔ وجہ صرف یہ تھی کہ غلط اصطلاح استعمال نہ ہو۔ 
ہمارے ہاں جو حلقہ پاکستان اور پاکستانی قوم پر تنقید کے تیر برساتا، طنز وتشنیع کو اپنا شعار کرتا ہے ، اس کا مقصد ملامتی فرقے کی طرح اپنے آپ پر تنقید کرانا نہیں بلکہ وہ خود کو پوتر اور اعلیٰ وا رفع تصور کر کے اونچے سنگھاسن پر براجمان ہو کر قوم پر ملامت کے تیر برساتا ہے۔ اب بھارت میں شدت پسندی کے بھیانک چہرے نے جہاں بھارتیوں کو شرمندہ کیا ہے، وہاں پاکستانیوں کو ایک طرح کی اخلاقی برتری دلائی ہے۔ ہمارے ان مہربانوں سے وہ بھی برداشت نہیں ہو رہی۔سوشل میڈیا پر میں نے کئی پوسٹیں دیکھیں۔ ان تمام میں چند سوالات مشترک ہیں: ''بھارتی سیکولرازم پر بات کرنے سے پہلے پاکستانی مذہبی انتہا پسندی کو دیکھو،جہاں دن دہاڑے انسانوں کو جلایا جائے ، اقلیتیوں کی بستیوں کو جلایا جائے ، وہاں بھارت میں اقلیتیوں کے خلاف کارروائیوں کی بات کیوں کی جائے؟جہاں لاکھوں لوگ پینے کے پانی کی وجہ سے مر جائیں،وہاں بھارت میں ایک قتل پر واویلا کیوں ؟اگر بھارت میں حالیہ ہندومسلم کشیدگی دو قومی نظریے کا ثبوت ہے تو پھر پاکستان میں شیعہ سنی تنازعات کیا ہیں،کوئٹہ میں ہزارہ کا قتل عام کیا ثابت کرتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘ 
بات بڑی سادہ سی ہے، انتہا پسندی پاکستان میں بالکل موجود ہے۔ اس سے انکار کرنے والا احمق ہی ہوگا۔ جیسے مغربی معاشرے میںداعش کے بڑھتے اثرونفوذ سے انکار حماقت ہے، حالانکہ ان معاشروں کا مجموعی مزاج اور کلچر قطعی طور پر داعش کے خلاف ہے۔ ہمارے ہاں فرقے اور مسلک کی بنیاد پر دہشت گردی کرنے والے موجود ہیںلیکن ان کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ پاکستان کی آبادی بیس بائیس کروڑ بتائی جاتی ہے، اس میں اگر ایک فیصد بھی انتہا پسند ہوں تو وہ تعداد بیس بائیس لاکھ بنتی ہے۔کوئی ہے جو یہ دعویٰ کرے کہ پاکستان میں بائیس لاکھ دہشت گرد رہتے ہیں؟ جواب قطعی انکار میں ملے گا۔ دہشت گردوں، تحریک طالبان پاکستان کے گروہوں، کالعدم تنظیموں کے تمام لوگ (ہر مسلک اور فرقے کے)اکٹھے کر لئے جائیں ، تب بھی ان کی کل تعداد چند ہزار سے زیادہ نہیں۔ ان کے فکری حامی دس بیس یا پچاس ہزار کے قریب سمجھ لیں۔ یہ تعداداعشاریہ صفرصفر صفر ایک(.001) بھی نہیں بنتی۔ سب سے بڑھ کر ان دہشت گردوں کے خلاف بھرپورآپریشن کلین اپ چل رہا ہے، پورا ملک جس میں متحد اور یکسو ہے۔ اس حوالے سے ہم نے ماضی میں کوئی غلطی کی بھی تو اسے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل چکے ہیں۔ بھارت میں اس کے برعکس ایک تو ہندو شدت پسندوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، لاکھوں بلکہ کروڑوں میں۔ وہاں وہ اپنے عروج پر ہیں، الیکشن جیت کر آئے ہیں، کچھ اقتدار میں براہ راست ہیں، باقی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔ یہ واضح فرق ہے۔
پاکستان میں ہزارہ کلنگ کا ہونا افسوسناک باب ہے، یہ بات مگر واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس کی حمایت نہیں کرتی، کرنے کی جرات بھی نہیں کر سکتی۔ کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما کھڑا ہو کر ان قاتلوں کا دفاع نہیں کر سکتا۔ شیعہ سنی تنازعات اپنی جگہ، مگر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں،حتیٰ کہ صف دو م، سوم کی جماعتیں بھی اس سب کی مذمت کرتی ہیں۔بھارت میں ایسا نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی جماعت بھارتی جنتا پارٹی نہ صرف ہندو شدت پسندی کا ایجنڈا رکھتی ہے بلکہ اس کے اہم ترین لیڈر ، جو ملک کا وزیراعظم ہے، اس پر اپنے وزارت اعلیٰ کے دور میں بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے قتل وغارت کا الزام ہے۔ معمولی الزام نہیں، بلکہ ایسا وزنی الزام کہ امریکہ جیسے بھارت دوست ملک نے اسے ویزا دینے سے انکار کر رکھا تھا۔ پھر پاکستان میں رائٹ ونگ کی جماعتیں جو ٹھیٹھ مذہبی ایجنڈا رکھتی ہیں، جماعت اسلامی، جے یوآئی، جے یوپی وغیرہ ... ان میں سے کسی نے کبھی اقلیتیوں کے خلاف کارروائی کی نہ اس کی حمایت یا وکالت کی۔ پاکستان میں دو تین افسوسناک واقعات میں مسیحی بستی جلائی گئی ، مگر یہ سب انفرادی اور مقامی نوعیت کے واقعات تھے، ہر کیس میں بنیادی جھگڑا زمین یا پراپرٹی کا تھا اور بدمعاشوں یا لینڈ مافیا کے گروہ نے اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی، جسے پورے ملک ، قوم اور تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں نے مسترد کر دیا ۔ کسی ایک بھی واقعے میں کوئی سیاسی جماعت اقلیتیوں پر ظلم کرنے والے گروہ کی حمایت میں نہیں آئی۔ 
رہی بات کہ بھارت میں ایک قتل کو اتنا ایشو کیوں بنایا گیا؟یہ عجیب مضحکہ خیز دلیل ہے،بات تعداد کی نہیں، شدت کی ہوتی ہے۔ شائننگ انڈیا کے نعروں کے باوجود صرف بھارتی پنجاب میں ہزاروں کسان خودکشی کر رہے ہیں، یہ بھی افسوس ناک واقعہ ہے، مگر ظاہر ہے ہجوم کے ہاتھوں گوشت کھانے کے بے بنیاد الزام پر کسی شخص کی ہلاکت یا پھر نچلی ذات کے ہندوئوں کے گروہ کو برہنہ کر کے بازاروں میں گھمانے جیسا واقعہ زیادہ خوفناک تاثر رکھتا ہے۔ بعض اوقات کسی ایک شخص کی ہلاکت ایسے افسوسناک انداز میں ہوتی ہے کہ اس کا غم ہزاروں پر بھاری پڑ جاتا ہے اور وہ واقعہ نمایاں ترین خبر بن جاتا ہے۔ ہر ملک میں مختلف افسوسناک وجوہات کی بنا پر ہر سال ہزاروں معصوم بچے وفات پا جاتے ہیں، وہ غنچے بن کھلے مرجھا جاتے ہیں، مگر دنیا بھر میں جو تاثر ایک ننھے شامی بچے ایلان کی ساحل سمندر پر پڑی لاش نے ڈالا ، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ افریقہ ، بھارت یا کسی اور ملک میں ہر سال ہزاروں بچے پانچ سال سے کم عمر میں مر جاتے ہیں ، پھر پانچ سالہ ایلان الکردی کے سمندر میں ڈوبنے پر یہ صف ماتم کیوں بچھی؟...تو ایسا احمقانہ اور سفاکانہ سوال کرنے والے کو ذہنی مریضوں کے ہسپتال بھیجنا چاہیے۔
ہر واقعے کی اپنی قوت اور تاثر ہوتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں ان دنوں جو کچھ ہوا، اس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔یہ سب بھارتی سماج کے چہرے پر منڈھے پرکشش، چمکتے دمکتے نقاب کے اترجانے کے مترادف تھا۔ جس سیکولرزم کا ڈھنڈورا بھارتی دانشور، میڈیا اور سیاستدان پیٹتے تھے، پاکستان میں ان کے حامی جس پر سر ہلا ہلا کر صاد کرتے اور ہمارے جیسے لوگ جو اس وقت بھی اپنی معلومات ، ریسرچ اور تجزیے کی بنیاد پر یہ کہتے کہ یہ پروپیگنڈا درست نہیں، اصل حقیقت بالکل مختلف ہے... اب جب بی جے پی کے دور حکومت میں وہ سب چیزیں پوری طرح آشکار ہوگئی ہیں تو پھر انہیں مان لیجئے۔ جو غلط ہے ، غلط ہے۔ ہمارے اندر بھی بہت سی خامیاں ہیں، وہ ٹھیک ہونی چاہئیں، لیکن یہ کہنا بہرحال غلط ہے کہ بھارتی بھی ہم جیسے نکلے۔ یہ غلط ہے۔ فہمیدہ ریاض کا وہ مصرعہ سچ نہیں کہ تم بھی ہم جیسے نکلے۔ ہم پاکستانی اپنے عیوب، تمام تر خامیوں کے باوجود بھارتیوں سے بہرحال بہتر ثابت ہوئے ۔ اس میں ہمارے قومی تفاخر کا جو پہلو نکلتا ہے، اسے لے لینے میں کوئی برائی نہیں۔ ہاں ہمیںکئی چیزیں ٹھیک کرنا ہیں، دہشت گردی ، شدت پسندی کو جڑوں سے اکھاڑنا ہے ، وہ جدوجہد اپنی جگہ ہے۔ وہ ہم کر رہے ہیں، انشاء اللہ کرتے رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں