چھوٹی سی قیامت

پچھلے دنوں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ دفتری مصروفیت کے باعث گھر تاخیر سے پہنچا۔ دس بجے کا وقت تھا۔ دیکھا کہ اہلیہ اور بیٹی خاموش بیٹھے ہیں۔ دوسرے بچے بھی خلاف معمول شرارتوں میں مشغول نہیں تھے۔ ماحول پر ایک خاص قسم کی سنجیدگی طاری تھی۔ پہلے تو ماتھا ٹھنکا کہ اللہ خیر کرے، کہیں سے کوئی بری خبر تو نہیں آئی۔ دریافت کیا تو ''اللہ کا شکر ہے، سب ٹھیک ہے‘‘ کا مختصر اور متین جواب ملا۔ مجھے اندازہ ہو گیا کہ وجہ کوئی اور ہے، مزید کوئی سوال پوچھنے کے بجائے چند لمحے انتظارکر لینا ہی بہتر رہے گا۔ ویسا ہی ہوا، ایک دو منٹ کے اندر ہی بچے گویا ٹرانس سے باہر آ گئے۔ بیٹی نے اپنے مخصوص پُرجوش انداز میں بتایا کہ ابھی ٹی وی پر ایک ڈرامہ دیکھا، جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ڈرامہ ختم ہوتے ہی سب بچوں نے بڑے خشوع و خضوع سے وضو کر کے نماز پڑھی، تسبیحات کا بھی ارادہ ہے۔ حیرت سے پوچھا کہ کون سا ایسا ڈرامہ تھا، جس نے ہمارے فرزندگان کو اچھل کود سے ابھی تک روکا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ ایک نیا چینل شروع ہوا ہے‘ جس پر ترکی ڈراموں اور پاکستانی پروگراموں کا مکسچر دکھایا جا رہا ہے۔ یہ ڈرامہ اس چینل پر ہر ہفتے کی شام دکھایا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں ترک ڈرامے عشق ممنوع جیسے بولڈ موضوع پر بنے ڈرامے سے متعارف ہوئے، بعد میں ایک ترک سلطان پر تیارکردہ پُرشکوہ ڈرامہ سیریل بھی مقبول ہوئی۔ ترکی میں مگر صرف بولڈ موضوعات پر ڈرامے نہیں بنتے، وہاں ایسے چینل بھی ہیں جنہوں نے مشرقی، اسلامی قدروں کا خیال رکھتے ہوئے جاندار کہانیوں پر ڈرامہ سیریل بنائے۔ یہ سب ترک اسلامسٹوں کے زیر اثر ہوا۔ یہ نیا چینل ایسے ہی ترکی ڈراموں، پروگراموں
اور بچوں کے کارٹونوں کو لے کر چل رہا ہے۔ اسی چینل پر ''چھوٹی سی قیامت‘‘ کے نام سے وہ ڈرامہ شروع ہوا، جس نے ہمارے بچوں تک کو متاثر کر ڈالا۔ بعد میں خود دیکھا تو اندازہ ہوا کہ واقعی وہ جھنجھوڑ دینے والا ڈرامہ ہے۔ ہر ہفتے اس میں ایک مکمل کہانی دکھائی جاتی ہے۔ ہر بار سفید لباس میں ملبوس نورانی چہرے والا ایک نوجوان مختلف کرداروں کو آ کر خبر دیتا ہے کہ تمہاری زندگی کے چوبیس گھنٹے یا دو دن رہ گئے ہیں، اپنا حساب چکتا کر لو۔ یہ بات سن کر ہر کوئی ششدر رہ جاتا ہے۔ کئی لوگ تو اسے دھکے دے کر نکال دیتے ہیں کہ تم کہاں سے آ گئے یہ خبر سنانے۔ وہ نورانی کردار دو باتیں زور دے کر کہتا ہے، ایک یہ کہ روز حشر ہر بات، ہر چیز کا حساب ہو گا، کسی سے کوئی زیادتی کی ہے تو دنیا ہی میں اس سے معافی مانگ لو، تلافی کر لو، ورنہ ہر بات کا حساب دینا پڑے گا۔ دوسری یہ کہ دنیاوی کاموں میں دھنسے ہونے کے باوجود روز آخرت کو نہ بھولو، ہر چیز میں نشانی ہے، ہمارے سامنے لوگ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، جانور مر رہے ہیں، چیزیں ٹوٹ کر فنا ہو جاتی ہیں... ان سب میں نشانیاں ہیں، سیکھنے کی چیزیں ہیں، دیکھو اور روز آخرت کی تیاری کو اپنی اولین ترجیح بنا لو۔ ڈرامے کو موثر بنانے کے لئے بعض منفی کرداروں کو مرنے کے بعد جس کٹھن مرحلے اور مثبت کرداروں کو جس دل خوش کن انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے، اس کی جھلک بھی دکھائی جاتی ہے۔ عمدہ ڈرامائی پیش کش نے اسے متاثر کن ڈرامہ بنا دیا۔ 
سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے دنیاوی معمولات میں اس قدر منہمک ہو جاتے ہیں کہ جن بنیادی حقائق کو اپنی زندگی کا مرکزی حصہ بنانا چاہیے، ہم انہیں فراموش کر بیٹھتے ہیں۔ پھر اچانک رونما ہونے والا کوئی بڑا واقعہ ہمیں اس سے نکال کر حقیقت سے روشناس کراتا اور روز آخرت کی تذکیر کراتا ہے۔ چند دن پہلے آنے والا زلزلہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا، جس نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا۔ لاہور جیسے شہر میں اس زلزلے سے نقصان تو زیادہ نہیں ہوا، مگر اس کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ہوش اڑ گئے، بے اختیار ہر ایک کی زبان پر استغفراللہ اور کلمہ طیبہ جاری ہو گیا۔ زلزلے کے بعد سے اس پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت بحث ہوئی۔ کچھ لوگوں نے اسے عذاب الٰہی قرار دیا تو بعض لوگ اس پر چڑ گئے کہ ہر واقعے کو مذہب سے کیوں جوڑ دیا جاتا ہے، یہ تو خالصتاً سائنسی مظہر تھا، زمین کے نیچے پلیٹوں کی حرکت ہوئی، فالٹ لائن پر بسنے والے علاقوں میں زلزلہ آیا، اسے اللہ کی ناراضی یا تنبیہ کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟ میں یہ تمام بحثیں پڑھتا رہا، سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں میں ایک حلقہ اس پر برہم ہے کہ خدا کا نام کیوں لیا گیا، خوف خدا پیدا کرنے کی کوشش کیوں کی گئی؟
اگرچہ اس وقت بلدیاتی انتخابات کا غلغلہ ہے، توجہ اس جانب مرکوز ہو چکی، مگر میرے خیال میں زلزلے کے حوالے سے جو بحث شروع ہوئی ہے، اس میں تناظر کو واضح کرنے کے لئے چند باتوں کا اضافہ کرنا اہم اور ضروری ہے۔ اس پر اپنے نقطہ نظر کا اظہار اگلی نشست میں کروں گا، آج زلزلے کے بعد شروع ہونے والی بحث کے حوالے سے معروف دانشور اور سکالر زاہد مغل کا دلچسپ اور فکر افروز نقطہ نظر پڑھیے۔
زاہد مغل لکھتے ہیں: ''زلزلہ آتے ہی ''مذہبی‘‘ و ''سائنسی‘‘ نقطہ نظر رکھنے والے احباب کے مابین حسب سابق بحث کا سلسلہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ مگر یہ سلسلہ ہمیشہ کی طرح ''کیوں‘‘ اور ''کیسے‘‘ کے خلط مبحث کا شکار ہے۔ ''زلزلہ کیوں آتا ہے‘‘ اور ''زلزلہ کیسے آتا ہے‘‘ دو الگ سوالات ہیں۔ اول الذکر کا تعلق اس واقعے کی
''مقصدیت‘‘ (انسان کے ساتھ اس کے تعلق) جبکہ مؤخرالذکر کا ''پروسس‘‘ سے ہے؛ چنانچہ جب اہل مذہب کہتے ہیں کہ ''یہ زلزلے انسانوں کو خدا کی طرف سے تنبیہ ہیں‘‘ تو وہ اس کی مقصدیت بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں اہل سائنس کی طرف سے یہ کہا جانا کہ ''زلزلے زیر زمین تہوں میں ہلچل کی وجہ سے آتے ہیں‘‘ تو درحقیقت یہ اس کی مقصدیت نہیں بلکہ پراسس کا بیان ہے۔ علمی ماہیت کے اعتبار سے اہل سائنس کا یہ دعویٰ اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا یہ دعویٰ کہ ''زلزلہ گائے کا سینگ بدلنے کی وجہ سے آتا ہے‘‘ (کہ دونوں ہی ''کیسے‘‘ کا بیان ہیں) مقصدیت اس سوال میں پنہاں ہے کہ ''زیر زمین یہ تہیں کیوں ہلتی ہیں (یا گائے اپنا سینگ کیوں بدلتی ہے)؟‘‘ مقصدیت سے متعلق یہ سوال ایک ما بعدالطبیعیاتی سوال ہے؛ چنانچہ اس بحث میں عام طور پر جنہیں اہل سائنس کہا جاتا ہے ان کا نقطہ نظر ''خود بخود ہو جانے‘‘ کا ہے۔ گویا اس کا انسانی عمل سے کوئی تعلق نہیں، اگر ہے تو اس قدر کہ ایسا کیا کیا جائے کہ اس پر قابو پا سکیں؛ چنانچہ اہل مذہب و اہل سائنس کے مابین اصل نزاع اس کے پروسس کے حوالے سے نہیں کیونکہ اہل مذہب کو سلسلہ اسباب سے انکار نہیں بلکہ اس ما بعدالطبیعیاتی نقطہ ہائے نگاہ کے حوالے سے ہے جس کی رو سے اہل سائنس کائنات و مافیہا میں معنویت یا مقصدیت دیکھتے ہیں۔ پس خوب سمجھ رکھنا چاہیے کہ ''زلزلہ زیر زمین تہیں ہلنے کی بنا پر آتا ہے‘‘، یہ اس سوال کا ہرگز جواب نہیں کہ یہ کیوں آتا ہے۔ ''کیوں‘‘ کے سوال کو دونوں گروہ اپنی مخصوص ما بعدالطبیعیات سے حل کرتے ہیں نہ کہ مشاہدے میں آنے والے کسی طبعیاتی قانون سے۔ ایک مسلمان کے لیے سانسوں کا چلتا ہوا سلسلہ بھی خدا کے فضل کی علامت ہے جبکہ اہل سائنس کے لیے گیسوں کی آمد و رفت کا سلسلہ۔ لیکن ظاہر ہے یہ سائنسی بیان کسی بھی طرح میری زندگی کے قیام و بقا کی توجیہ نہیں‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں