ڈی پی جنگ

سوشل میڈیا کی سب سے اہم سائیٹ فیس بک کے حوالے سے ڈی پی (DP )بڑی معروف اصطلاح ہے، ہر فیس بک پیج پر صفحہ بنانے والے کی یا اس کے حوالے سے ایک چھوٹی تصویر دی ہوتی ہے، اسے ڈی پی یا ''ڈسپلے پکچر‘‘ کہتے ہیں، ویسے تو اب فیس بک والے اسے ''پروفائل پکچر‘‘ کہنے لگے ہیں ،مگر یہ ڈی پی کی اصطلاح چونکہ انٹرنیٹ کے شروع کے دنوں سے سے چل رہی ہے، اس لئے زیادہ تر یہی استعمال ہوتی ہے۔ ڈسپلے پکچر میں زیادہ تر لوگ اپنی تصویر لگاتے ہیں، بعض مذہبی لوگ یا پردہ دار خواتین اپنے بجائے اپنے بچوں کی تصاویر بھی استعمال کر لیتی ہیں، کچھ لوگ پھولوں یا کسی خاص منظر کی تصویر لگانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ 
یہ ڈسپلے پکچر آسانی سے بدلی جاسکتی ہے، سمارٹ فون نے تو معاملہ مزید آسان بنا دیا۔ کہیں باہر گھومنے گئے ، کوئی منظر اچھا لگا یا ویسے ہی بیٹھے بٹھائے فون سے اپنی تصویر (سیلفی)لی ، پسند آئی تو وہیں بیٹھے بٹھائے اسے فیس بک پر شیئر کر دیا۔بعض لوگ اسے نظریاتی حوالوں سے بھی استعمال کرتے ہیں۔ فیس بک پر چی گویرا کی ایک خاص پوز والی تصویر بہت استعمال ہوتی ہے۔ دو سال پہلے جب مصر میں فوج نے منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کا تختہ الٹا اور انہیں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا تو جماعت اسلامی سے وابستگان اور دینی میلان رکھنے والے لوگوں میں ڈاکٹر مرسی کی ڈی پی لگانے کی لہر سی آگئی۔ پھر جب اخوان کے خلاف کریک ڈائون ہوا اور رابعہ عدویہ میں بے رحمی سے آپریشن کر کے سینکڑوں لوگ شہید اور ہزاروں گرفتار کرلئے گئے تو ہاتھ کے نشان والی ایک تصویر بہت مشہور ہوئی، ترکی سے مصر اور پاکستان میں بھی اس تصویر کو اخوان سے ہمدردی یا یکجہتی ظاہر کرنے کے لئے ڈی پی بنا یا جاتا رہا۔ برما میں جب روہنگیا مسلمانوں پر قیامت ٹوٹی تو برمی مسلمانوں کی لاشوں والی تصاویر کوپروفائل پکچر یا ڈی پی بنایا جاتا رہا۔ 
چند دن پہلے پیرس میں دہشت گردی کا المناک واقعہ ہوا، جس میں سو سے زیادہ لوگوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا گیا۔ یہ سب نہتے، عام شہری تھے، جو فٹ بال کا میچ دیکھنے، ریستوران میں کھانا کھانے یا پھر کنسرٹ ہال میں موسیقی کا پروگرام سننے آئے تھے۔ اس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف رکھنے والے یا مغربی دنیا کے لئے نرم گوشہ نہ رکھنے والے لوگ بھی ا س کی شدید مذمت کرنے اور مظلوموں سے ہمدردی کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ فیس بک نے ، جو اپنے فیچر ز میں مسلسل تبدیلیاں لا رہی ہے، پچھلے چند ماہ میں اس نے کئی نئے کام کئے ہیں، اس موقعہ پر فیس بک نے ڈسپلے پکچر کے لئے ایک فلٹر جاری کیاجو فرانس کے جھنڈے کے رنگوں کا ہے۔ ایک کلک کرنے سے یہ فلٹر ڈسپلے پکچر کے بیک گرائونڈ میں آ جاتا ہے، یعنی پہلے کی طرح اپنی اصل ڈسپلے پکچر ہٹا کر یہ جھنڈے کے رنگوں والی تصویر لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ فلٹر سامنے آتے ہی دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں نے علامتی احتجاج کے طور پر چند گھنٹوں یا ایک دو دنوں کے لئے اپنی ڈپی کے ساتھ اس فلٹر کو لگا لیا۔یہ ایک سادہ سی حرکت تھی، ایک سیاسی احتجاج ، ایک بیانیہ ، جس میں نہتے شہریوں کو قتل کرنے کی مذمت اور ظالموں سے بریت کا علامتی اعلان تھا۔ اس حوالے سے مگر دلچسپ ردعمل سامنے آیا۔بہت سے لوگوں نے ایسا کرنے والوںپر ''یلغار‘‘ کر دی اورایسے عجیب وغریب نکات اٹھائے کہ پڑھ کر حیرت ہوتی رہی۔ اس کی دو وجوہات تھیں، ایک تو یہ کہ سوشل میڈیا پر جو لوگ نسبتاً لبرل خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ان سب نے پرجوش انداز میں اس فرانسیسی جھنڈے کے رنگوں والے فلٹر کو اپنی ڈی پی میں استعمال کیا۔ ہمارے ہاں دھڑے بندی کا دستورچلتا ہے۔ جو لوگ ہر معاملے میں لبرل کیمپ کی مخالفت کرتے ہیں، انہوں نے اس بار بھی بغیر سوچے سمجھے مخالفت کا فیصلہ کیا۔ ان ''فیس بکی مجاہدین ‘‘نے یہ نہ سوچا کہ جو درست بات ہے، اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ بری بات یہ ہے کہ آپ صرف تعصب اور مخالفت میں اندھے ہوجائیں اور اپنا اصولی مؤقف بھی کھو بیٹھیں۔دوسری وجہ شائد یہ تھی کہ ہمارے ہاں ہر معاملے کو سازشی تھیوری کی عینک سے دیکھا جاتا ہے ۔ ہمارے اہل دانش جذباتیت کو ہوا دیتے ہیں اور قارئین یا ناظرین کی فکری اور سیاسی تربیت کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ 
پیرس دہشت گردی کا معاملہ بڑا سادہ ہے۔چند حملہ آوروں نے بے رحمی سے عام آدمیوں پر فائر کھولا اور سینکڑوں افراد کو ہلاک یا زخمی کر دیا۔ اس قتل وغارت کی جو دلیل دی گئی ، وہ انہتائی احمقانہ ہے کہ چونکہ فرانس شام کے معاملے میں دخل دے رہا ہے ، اس لئے ہم جوابی کارروائی کر رہے ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت ایک الگ چیز ہے، عوام الگ۔ حکومتیں مختلف پالیسیاں بناتی اور اس پر عمل درآمد کراتی ہیں، مگربسا اوقات ان میں عوام کی حمایت یا مرضی شامل نہیں ہوتی۔ عراق پر جب امریکہ نے برطانیہ اور بعض دوسرے مغربی ممالک کے ساتھ حملہ کیا تو اس میں فرانس اور جرمنی جیسے ممالک شامل نہیں ہوئے، حالانکہ امریکہ نے ان پر بڑا زور ڈالا۔ خود امریکہ ، برطانیہ اور سپین جیسے ممالک میں لاکھوں افراد نے عراق پر فوج کشی کے خلاف مظاہرے کئے، بعض شہروں میں تو بیس بیس تیس تیس لاکھ لوگوں نے احتجاج کیا اور جنگ نہ کرنے کے نعرے لگائے ۔ یاد رہے کہ ان دنوں پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں ایک لاکھ افرادبلکہ اس کا نصف یا تہائی کے قریب لوگ بھی باہر نہیں نکلے تھے، حالانکہ نشانہ ایک مسلم ملک عراق تھا۔اہل مغرب کی بڑی تعداد نے البتہ اپنی پوری قوت سے اس جنگ سے بریت کا اعلان کیا۔ اس لئے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ریاست اور حکومت الگ چیز ہے اور عوام الگ ۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی اخلاقی اور قانونی ضابطوں کے مطابق عورتوں، بچوں، بوڑھوں بلکہ جنگ میں شریک نہ ہونے والے نہتے لوگوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی بھی اسلامی فقہ یا مسلک کے مطابق کوئی گروہ، تنظیم یا افراد ایسا نہیں کر سکتا۔ یہ غلط اورصریحاً ظلم ہے۔اسلام برائی کو برائی سے نہیں مٹاتابلکہ برائی کے جواب میں اچھائی پیش کرتا اور یہ بتاتا ہے کہ اعلیٰ اخلاقیات کیا ہے؟ ہمیں بطور مسلمان اپنی اسلامی اخلاقی روایات اور ضابطوں پر عمل کرنا ہے، رسول عربی ﷺ کی امت ہونے کے ناتے ہمیں دنیا کے سامنے اعلیٰ نمونہ پیش کرنا ہے۔ کسی گروہ یا تنظیم کو یہ حق نہیں کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا نام بدنام کرے اور دنیا کے سامنے ایسی تصویر پیش کرے جس سے اسلامی دعوت وتبلیغ کے کام کو نقصان پہنچے۔ بدقسمتی سے داعش ہو ، القاعدہ، بوکو حرام، الشباب ، تحریک طالبان پاکستان یا اس طرح کے دیگر گروہ ... یہ سب یہی کام کر رہے ہیں۔ اپنے خودساختہ تصورات، ایجنڈے اور مائنڈ سیٹ کے تحت یہ لوگوں کو بے گناہ قتل کر رہے ہیں اور خود کو مسلم دنیاکے ترجمان اور علمبردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔اس کی ہر قیمت پر مزاحمت کرنی چاہیے۔ اس قسم کی قتل وغارت کے حوالے سے دو ہی کیمپ ہوتے ہیں۔ ظالموں ، دہشت گردوں اور قاتلوں کا کیمپ، دوسرا کیمپ مظلوموںاور ان کی اخلاقی حمایت کرنے والوں کا ہے۔ ہر ایک کو حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا کیمپ چن لے۔ ایسا کرتے ہوئے مگر یہ سوچ لے کہ اللہ کے ہاں ہر عمل کا مواخذہ اور احتساب ہونا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں