پاکستانی کرکٹ کو بچائیں

کرکٹ ہمارا مقبول ترین کھیل ہے۔ بچوں سے لے کر جوانوں اور معمر افراد تک اس کے اسیر ہیں۔ جن لوگوں نے کبھی کرکٹ کے بلے کو ہاتھ تک نہیں لگایا، وہ بھی گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر میچ دیکھتے اور زور شور سے تبصرے کرتے ہیں۔ ویسے تو ہم نے اپنے قومی کھیل ہاکی کا بھی بیڑا غرق کر لیا ہے، مگر ہاکی پچھلے دو عشروں سے اتنا زیادہ دیکھا جانے والا کھیل نہیں رہا، اس لیے نئی نسل کا اس کے ساتھ جذباتی تعلق دیکھنے میں نہیں آتا۔ کرکٹ سے البتہ ہماری دو تین نسلوں کا دلی اور جذباتی تعلق ہے۔ قومی کرکٹ ٹیم کی شکست اور عالمی سطح پر ناقص کارکردگی پوری قوم کو پژمردہ کر دیتی ہے۔ کرکٹ ہمارے ہاں ایک طرح سے قومی ایشو بن گیا ہے، جس پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کل کرکٹ کے حوالے سے حالت خاصی پتلی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں تو ہم اچھی پوزیشن پر کھڑے ہیں، پچھلے کئی برسوں سے ٹاپ تھری، فور رینکنگ میں جگہ ملتی ہے۔ ٹیسٹ ٹیم نے آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسی مضبوط ٹیموں کو شکست دے کر اپنے آپ کو منوایا ہے۔ آسٹریلیا کو تو پچھلے سال کلین سویپ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی ٹیم کا حال البتہ برا ہے۔ ون ڈے میں پاکستان نویں نمبر پر ہے، ستمبر میں جتن کر کے آٹھویں نمبر پر آیا، ورنہ اگلی چیمپیٔنز ٹرافی میں جگہ نہ مل پاتی۔ انگلینڈ سے سیریز ہار کر دوبارہ نیچے جانا پڑا۔ ٹی ٹونٹی رینکنگ میں دوسرے نمبر پر تھے، انگلینڈ سے کلین سویپ شکست کے بعد نمبر چھ پر چلے گئے۔ کرکٹ شائقین کی نظر تین ساڑھے تین ماہ بعد ہونے والے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ پر ہے۔
کرکٹ ٹیم کی تباہی یا انحطاط کی ذمہ داری کسی ایک شخص پر نہیں ڈالی جا سکتی، ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالا ہے۔ اگر درست تجزیہ کرنا ہے تو مسئلے کا بڑے تناظر میں جائزہ لینا ہوگا۔ چلیں کرکٹ بورڈ سے شروع کرتے ہیں کیونکہ اس کی ذمہ داری اور اہمیت سب سے زیادہ ہے۔ اصولی طور پر تو چیئرمین کرکٹ بورڈ پر سب سے پہلے تنقید کرنی چاہیے کہ وہ ٹیم لیڈر ہیں۔ کسی بھی ادارے کے سربراہ کے لیے دو تین چیزیں لازمی ہوتی ہیں۔۔۔۔اہم عہدوں پر تقرریاںمیرٹ کی بنیاد پر کی جائیں، آگے جانے کا ویژن ہو اور ایسا سسٹم بن جائے کہ اگلے کئی برسوں تک تسلسل قائم رہ سکے۔ ہمارے ہاں ابھی یہ تک واضح نہیں کہ اصل چیئرمین شہریار خان ہیں یا سیٹھی صاحب کے پاس حقیقی طاقت ہے۔ چیئرمین سلیکشن کمیٹی سے لے کر دوسری اہم انتظامی عہدوں پر تقرریوں تک محسوس ہوتا ہے کہ عبوری انتظام چل رہا ہے، جسے پنجابی میں ڈنگ ٹپائو سسٹم کہا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ سلیکشن کمیٹی میں ان لوگوںکو لیا جائے جن کے پاس گرائونڈ میں جاکر ڈومیسٹک کرکٹ دیکھنے کا وقت ہو اور جو باصلاحیت کھلاڑیوں کو کھلانے کے لیے سٹینڈ لے سکیں۔ ہمارے ہاں کا حال سب کے سامنے ہے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ مسابقت سے خالی کمزور ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم ہے۔یہاں ٹاپ پرفارم کرنے والے کھلاڑی مسلسل انٹرنیشنل سطح پر ناکام ہو رہے ہیں۔ رفعت اللہ مہمند کو انتالیس سال کی عمر میں موقع دیا گیا کہ انہوں نے ڈومیسٹک ٹی ٹونٹی میں اچھا کھیل پیش کیا تھا۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں انہیں مسلسل تین میچ ملے مگر وہ بری طرح ناکام رہے۔ محسوس ہوا کہ رفعت نے اچھی فاسٹ بائولنگ (140کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ)کا سامنا پہلی بار کیا ہے۔کم وبیش یہی حال اکثر نئے بلے بازوں کا ہے۔ دبائو سے عاری کمزور میچوں میں، ڈیڈ سلو پچوں پر اوسط سے کم درجے کی بائولنگ پر رنز بنا کر جب وہ انٹرنیشنل کرکٹ کھیلتے ہیں تو پہلے میچوں میں ہی ایکسپوز ہوجاتے ہیں۔ کسی بھی چیئرمین کرکٹ بورڈ نے اس جانب توجہ نہیں دی۔ اگلا مرحلہ یہ تھا کہ جو برا بھلا ٹیلنٹ ہے، اسے گروم کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے نیشنل کرکٹ اکیڈیمی بنائی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیشنل کرکٹ اکیڈیمی پر فوکس کرکے نوجوان کھلاڑیوںکی اچھی کوچنگ کی جاتی، ان کی تکنیکی کمزوریاں دور کی جاتیں تاکہ قومی ٹیم میں جانے کے بعد وقت ضائع نہ ہو۔ دنیا بھرکی اچھی ٹیموں نے اکیڈیمی کوچنگ کے لیے بہترین کوچز رکھے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا نے میکڈرموٹ جیسے فاسٹ بائولرکو قومی ٹیم کے ساتھ لگانے کے بجائے اکیڈمی کے ساتھ منسلک کیا جس نے جانسن جیسے بائولرکو طوفانی بائولر بنا دیا۔ مچل سٹارک جیسے تیز ترین بائولر کی گرومنگ کے پیچھے بھی میکڈرموٹ کا ہاتھ ہے۔ ہمارے ہاں نیشنل کرکٹ اکیڈیمی میں کوئی ڈھنگ کا کوچ ہی نہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی ٹیمیں آنے کو تیار نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے ہماری قومی ٹیم کو بہت کم میچزکھیلنے کو مل رہے ہیں۔ ایسے میں اے ٹیم اور انڈر نائنٹین ٹیم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ نوجوان کھلاڑیوں کوگروم کر کے باہر بھیجا جائے تاکہ انہیںاچھی مسابقت والی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ ہو۔ لیکن یہ پہلو نظر انداز ہو رہا ہے۔
قومی کرکٹ ٹیم کی تباہی میں بورڈ کے برابر یا اس سے کچھ کم حصہ ہمارے میڈیا بالخصوص سپورٹس چینلزکے تبصرہ نگاروں کا بھی ہے۔ میڈیا چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کا ماہر ہے۔ سپورٹس کے حوالے سے لکھنے اور بولنے والے بنیادی طور پر دو بڑے حلقوں میں تقسیم ہیں۔۔۔۔ کراچی کرکٹ اور لاہور کرکٹ۔ چونکہ نجی سپورٹس چینل کراچی سے پہلے شروع ہوئے، اس لیے وہاں ایک خاص لابی اس پر قابض ہوگئی۔ ان کی اپنی پسند ناپسند اور تعصبات ہیں۔ قومی کرکٹ کو پروفیشنل نظر سے دیکھنے کے بجائے بالعموم علاقائی تعصبات حاوی ہو جاتے ہیں۔ بعض کھلاڑیوں کی بلاجواز مخالفت اور بعض کی غیرمعمولی حمایت کی جاتی ہے۔ ماضی میں شاہد آفریدی اور مصباح الحق کی آویزش کے پیچھے یہی حلقے تھے، جو بلاوجہ مصباح اور آفریدی میں ٹکرائوکرا دیتے۔ آج کل انہوں نے وقار یونس کو ہدف پر لے رکھا ہے، قومی کوچ ٹیسٹ ٹیم کو جتوا دے تو اچھا، ون ڈے ٹیم اگر ہار جائے تو کوچ بدلنا چاہیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر ون ڈے ٹیم ہار جائے تو اس کاکپتان تبدیل کیا جائے اور ٹی ٹونٹی ٹیم ہار جائے تو اس کے کپتان پر کوئی بات تک نہ کی جائے کہ اس کا نام شاہد آفریدی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ میرٹ پر بات کی جائے، اچھے کھلاڑیوں کو پروموٹ اور ناقص کارکردگی دکھانے والوں پر تنقید کی جائے۔ 
سلیکشن کمیٹی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ میڈیا کو خوش رکھنا چاہتی ہے، اس لیے کئی بار کسی ٹی وی پروگرام سے خوفزدہ ہوکرکسی کھلاڑی کو شامل یا ڈراپ کر دیا جاتا ہے۔ بہت ہوگیا، یہ سب اب بدلنا ہوگا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بچانا ہے تو اپنی کمزوریاں دورکرنا ہوںگی۔ بورڈ کو اپنی تمام تر توجہ ڈومیسٹک سٹرکچر ٹھیک کرنے، نوجوان کھلاڑیوں کی اچھی تربیت اور اے ٹیموں کے زیادہ سے زیادہ دورے کرانے پر دینی چاہیے۔ سلیکشن کمیٹی کو جو ٹیلنٹ دستیاب ہے، اس میں سے بہترین کا انتخاب کرنا ہوگا۔ میڈیا کے دبائو سے بے نیاز ہوکر میرٹ پر پروفیشنل فیصلے کئے جائیں، ایسا نہیںکہ سب غلط ہے۔ بابر اعظم اور محمد رضوان بھی اسی سسٹم سے نکل کر آئے ہیں، اسی طرح عماد وسیم کو بھی انہی سلیکشن کمیٹیوں نے منتخب کیا۔ چلے ہوئے کارتوسوں کو البتہ بار بار آزمانے سے گریزکرنا چاہیے ۔ عمر اکمل، صہیب مقصود نے ثابت کر دیا کہ ان میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہی حال احمد شہزاد کا ہے، وہ باصلاحیت کھلاڑی ہے، مگر ڈسپلن کے مسائل اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اسے آگے نہیں لے جا رہے۔ ایسے کھلاڑیوں سے اب جان چھڑا لینی چاہیے۔ سہیل تنویرکو آخرکتنے اور مواقع ملیںگے؟ ٹی ٹونٹی میں دس بیس رنز بنانے والے اوسط درجے کے بائولرکی جگہ سپیشلسٹ بائولرکوکھلایا جائے جو مخالف ٹیم پر دبائو ڈال سکے، ورنہ ہر میچ میں ہماری بیٹنگ بڑے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے آدھے راستے میں ہی ہمت ہار بیٹھے گی۔ ون ڈے اور ٹی ٹونٹی میں چار سپیشلسٹ بائولرز کے ساتھ جانا چاہیے، پانچویں کی کمی شعیب ملک اور عماد وسیم جیسے آل رائونڈرز پوری کر سکتے ہیں۔ سرفرازکی جگہ بطور سپیشلسٹ بلے بازکے بنتی ہے، ورنہ رضوان اس سے کہیں بہتر بلے بازاور اسی کلاس کا وکٹ کیپر ہے۔ سخت فیصلے کرنے ہوںگے، ورنہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں مایوس کن کارکردگی نوشتہ دیوارہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں