انتخابی نظام کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات

پاکستان کے انتخابی نظام کے حوالے سے بعض جینوئن سوالات ایسے ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے ضروری ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست اور سیاسی نظام کے حوالے سے ہمیشہ خدشات رہتے ہیں، سیاسی تجزیہ کاروں کو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ سسٹم چلتا رہے گا‘ یا ''میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کی آواز گونجنے لگے گی؟ بعض تجزیہ کار اس خوف کی وجہ سے اور چند ایک سیاسی جماعتوں سے وابستہ اپنے مفادات کے باعث سیاسی نظام میں تطہیر اور انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کی حمایت نہیں کرتے۔ انہیں لگتا ہے کہ ایسی ہر تجویز کہیں سیاسی نظام ہی گول کر دینے کا بہانہ نہ ثابت ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسا ہوتا بھی رہا، آمروں نے حقیقی جمہوریت کے نعرے کو اپنے اقتدار کے لئے استعمال کیا۔ جنرل پرویز مشرف اپنے اقتدار کے پہلے برسوں میں حقیقی جمہوریت کی رٹ لگاتے رہے، مگر پھر وہی چودھری برادران کو اقتدار میں لے آئے‘ اور اپنی کٹھ پتلی حکومت بنانے کی خاطر پیٹریاٹ بنوا کر پیپلز پارٹی کی پشت میں خنجر گھونپا۔ اس لئے آمریت کا خوف اپنی جگہ، مگر سیاسی اصلاحات کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ کام سیاستدانوں کو کرنا چاہیے، انہیں ہی کرنا ہو گا۔
یہ ایک کلیشے یعنی مہمل، گھسی پٹی، بیکار بات ہے کہ نظام چلتا رہے تو خود بخود اس کی تطہیر ہو جائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا، کہیں نہیں ہوا۔ بھارت میں مسلسل انتخابات ہوتے رہے ہیں، فوج ہمیشہ پیچھے رہی، مگر کیا وہاں سیاسی نظام میں اصلاحات آ چکی ہیں؟ ہرگز نہیں، آج بھی پارلیمنٹ میں سینکڑوں کی تعداد میں فوجداری ملزم موجود ہیں، کئی کئی ہزار کروڑ روپے کے سکینڈل آئے روز سامنے آتے ہیں۔ بھارتی دانشور چلا رہے ہیں کہ سیاست پر کارپوریٹ کلچر غالب ہو چکا، نریندر مودی کو وزیر اعظم بنا کر سرمایہ دار گروپوں نے اپنی طاقت ثابت کر دی‘ اس لئے یہ ضروری نہیں کہ مسلسل سیاسی عمل چلتے رہنے سے سسٹم ٹھیک ہو جائے گا۔ سسٹم ٹھیک کرنے کی نیت جب ہو، تب ہی کچھ ہو پاتا ہے۔ 
سادہ سا سوال ہے کہ جب سیاست طاقتور استحصالی طبقات کی گرفت میں آ جائے تو وہ کیوں اصلاحات کریں گے، اپنے اقتدار کی راہ کیوں بند کریں گے؟ جس طرح فوجی آمر کبھی ملک میں جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، ایسی ہر کوشش صرف ایک ڈھکوسلا ہو گا، اپنے ناجائز اقتدار کو جائز ثابت کرنے کی سعی لاحاصل ہو گی، اسی طرح سیاست پر قابض گروہوں کی طاقت ختم کرنے کے لئے سب کو مل جل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ چلتی مشین اپنی صفائی خود بخود نہیں کرتی، صفائی باہر سے کرنا ہوتی ہے اور اس کے لئے ماہرین کو اچھا طریقہ ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ مشین بند بھی نہ ہو، کارکردگی میں بھی فرق نہ پڑے اور اس کے نقائص بھی دور ہو جائیں۔ 
ہمارے ہاں ایک دلیل یا بیانیہ مشہور ہے کہ سیاستدانوں کو موقع ہی کتنا ملا؟ آدھے سے زیادہ وقت تو آمر حکمران رہے۔ یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ سچ یہ ہے کہ آمروں کو سہارا اور ان کا ساتھ سیاستدانوں ہی نے دیا۔ وہ سیاستدان جو بعد میں سیاست اور جمہوریت کے گاڈ فادر بن گئے۔ ایوب خان کے ساتھیوں میں بھٹو صاحب جیسے لوگ تھے، چودھری خلیق الزماں جیسے پرانے مسلم لیگی نے کنونشن لیگ کی صورت میں فیلڈ مارشل کو سیاسی قوت فراہم کی۔ جنرل ضیاء الحق کے ساتھیوں میں سے آج کے مسلم لیگی سرفہرست ہیں۔ میاں نواز شریف، الہٰی بخش سومرو، غوث علی شاہ، راجہ ظفرالحق وغیرہ۔ پرویز مشرف کے ساتھیوں میں چودھری برادران، لیاقت جتوئی، پیر پگاڑا، شیخ رشید، ماروی میمن، امیر مقام، زاہد حامد، دانیال عزیز، طلال چودھری جیسے لوگ، جو آج دھل کر، پاک ہو کر حکمران مسلم لیگ کا حصہ ہیں اور اپوزیشن کو غیر جمہوری رویے اپنانے کے طعنے دیتے ہیں۔ بات صاف ہے کہ کسی آمر نے ملکی نظام کو کیا ٹھیک کرنا ہے، اس کا تو اقتدار بھی غاصبانہ ہوتا ہے، اس سے کیا توقع رکھی جائے۔ رہے سیاستدان تو خواہ یہ آمر کی دور میں اقتدار کے حصے دار ہوں یا پھر سویلین دور میں اقتدار کے بلاشرکت غیر مالک... ان میں سے کسی کی ترجیح سیاسی اصلاحات نہیں، سٹیٹس کو کے یہ علمبردار ہیں، سب چیزیں جوں کی توں رکھنا چاہتے ہیں کہ یہی گلا سڑا نظام اور اس میں موجود خامیاں ہی ان کی قوت اور سہارا ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ اگر ایک بار ہار بھی گئے تو اگلی بار اسی راستے سے کامیابی مل جائے گی۔ ایسا مگر زیادہ دیر چل نہیں سکتا۔ تحریک انصاف خواہ سیاست میں کامیاب ہو سکے یا نہیں، مگر اس نے یہ ضرور واضح کر دیا ہے کہ سیاست میں اصلاحات کی شدید ضرورت ہے، خاص طور پر ہمارے انتخابی نظام میں جوہری نوعیت کی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ 
بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے قطع نظر ہماری سیاست کے حوالے سے دو باتیں بڑی واضح ہو چکی ہیں۔ پہلی حقیقت اب سب کو مان لینی چاہیے کہ ہماری سیاست (خاص طور پر پنجاب اور سندھ کی) امیر اور طاقتور طبقات نے ہائی جیک کر لی ہے۔ الیکشن کا عمل اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ مڈل کلاس تو دور کی بات ہے، اچھے بھلے امیر لوگ بھی اب الیکشن لڑنے کا نہیں سوچ سکتے۔ قومی اسمبلی کا الیکشن آٹھ دس کروڑ سے تیس چالیس کروڑ تک جا چکا ہے۔ صوبائی بھی پانچ سات سے پندرہ بیس کروڑ روپے کی حد کو چھو رہا ہے۔ اگلے روز ایک سینئر صحافی بتا رہے تھے کہ اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب میں جس آزاد امیدوار نے میدان مارا، اس کے ارب پتی خاندان نے الیکشن سے پہلے اکٹھے ہو کر چالیس کروڑ روپے مختص کر دیے کہ اس بجٹ کو استعمال میں لا کر ہر حال میں سیٹ جیتنا ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے، حکومتی ٹکٹ پر لڑنے والے نے جو مقامی طور پر بااثر خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اسے آزاد امیدوار سے نصف ووٹ ملے، جبکہ اپوزیشن کے امیدوار کی ضمانت ضبط ہو گئی۔ بلدیاتی انتخابات نے پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر کی جانے والی سیاست کو مزید واضح کر دیا۔ پنجاب میں حکمران جماعت کے لگ بھگ آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ ان آزاد جیتنے والوں میں سے اسی نوے فیصد وہ ہیں‘ جنہوں نے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر کو ہرایا۔ اب یہ آزاد بے شک حکمران جماعت میں شامل ہو جائیں، لیکن انہوں نے اپنی طاقت اور سیاسی جماعتوں کی بے بسی واضح کر دی۔ میرا خیال ہے کہ اب الیکشن ریفارمز میں پیسے کی سیاست کو روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے، ورنہ سیاسی جماعتوں طاقتور مقامی امیدواروں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہیں گی۔ اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کس طرح ہو؟ کیا اس کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے؟
ہماری سیاست کی دوسری حقیقت یہ ہے کہ ووٹر کی سیاسی اور سماجی تربیت نہایت ناقص ہے۔ لوگ اپنے ناک کی حد سے آگے دیکھنے کو تیار نہیں۔ بلدیاتی الیکشن میں تو سو فیصد مقامی امیدوار کو دیکھا گیا کہ کون سا امیدوار تھانے، کچہری کی سیاست میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور مشکل وقت میں ہماری مدد کر سکے گا۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اس پارٹی کی قومی پالیسیاں کیا ہیں اور ان کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، فلاں پارٹی نے ملکی معیشت ڈبو دی اور ملک قرضوں کے بوجھ تلے دب گیا یا فلاں پارٹی کو اگر ووٹ دیا گیا تو ملک میں فرقہ واریت یا لسانی منافرت بڑھے گی۔ ان تمام باتوں سے بے نیاز ووٹر اپنے محدود مفاد کو دیکھتا اور اسی کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔ قصور کس کا ہے؟ اس میں سیاسی جماعتوں، اہل دانش، پڑھے لکھے لوگوں کے ساتھ ہم میڈیا والے برابر کے شریک ہیں۔ ہم نے کبھی ووٹر کی تربیت کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اسے سکھایا ہی نہیں کہ بڑے تناظر میں کس طرح دیکھنا اور سوچنا ہے اور گلی، سڑک پکی کروانے والا، تھانے کچہری میں کام آنے والے امیدوار کی جگہ اسے جتوانا چاہیے جو جا کر اس سسٹم کو ٹھیک کر دے اور ہمیں تھانہ، کچہری میں کسی کی پرچی لے کر جانا ہی نہ پڑے، میرٹ پر ہر ایک کا کام ہو جائے۔ جو پارٹیاں تبدیلی لانے کی داعی ہیں، انہیں عوام کی سیاسی تربیت کا بیڑا بھی اٹھانا چاہیے۔ تبدیلی کے نعرے کے بجائے اب اس کا ٹھوس نقشہ پیش کرنا ہو گا۔ عام ووٹر کو علم ہونا چاہیے کہ وہ اگر روایتی سیاست سے ہٹ کر کسی کو جتوانے کا رسک لے تو پھر اسے کس قدر ثمرات حاصل ہوں گے۔ نظام گرانے کے نعرے لگانا آسان، مگر عملی طور پر نظام بدلنے کے لئے جو محنت کرنا پڑتی ہے، سیاسی کارکنوں کو اس کا ادراک بھی کرنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں