داعش اور پاکستان

داعش کی '' پاکستان میں موجودگی اور اس کا پوٹینشل‘‘ کے سوال پر بات کرنے سے پہلے اس کے حوالے سے تین بنیادی اجزا کو دیکھتے ہیں: 
1: داعش کے بنیادی ارکان، کمانڈرز اور قیادت کا تعلق مشرق وسطیٰ سے ہے۔ ''دولت اسلامیہ عراق و شام‘‘ کا اصل ایجنڈا پہلے عراق و شام میں اپنی حکومت قائم کرنا اوراس کے بعد اردن، لبنان اور دیگر قریبی ممالک میں اس کو وسعت دینا ہے۔
2: داعش کے سربراہ ابوبکر بغدادی نے اپنی خلافت کا ڈول ڈال دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی دوسرا گروہ ان کے ساتھ صرف ایک ہی صورت میں مل سکتا ہے کہ پہلے وہ اس کی خلافت کو تسلیم کرے۔
3: داعش اور اس کے جنگجوئوں کا تعلق سلفی مکتب فکر کی نہایت سخت گیر اور شدت پسندانہ شکل سے ہے۔ یاد رہے کہ یہ مسلک عمومی طور پر دنیا بھر کے سلفی مکاتب فکر کے علما اور ان کے مدارس سے یکسر مختلف ہے۔ مصر میں سخت گیر سلفی گروہ النور کے پلیٹ فارم سے متحرک ہے۔ انہوں نے شروع میں ڈاکٹر مرسی کی حمایت کی تھی‘ لیکن بعد میں یہ اخوان مخالف مظاہروں میں بھی شامل رہے۔ النور کے سلفی، مصر اور مشرق وسطیٰ کے عمومی رجحان کے اعتبار سے انتہائی نقطہ نظر کے حامل ہیں، مگر داعش، النور سے وابستہ مصریوں کی بھی مخالف ہے۔
اب ان تینوں نکات کے حوالے سے پاکستان میں داعش کے ممکنہ پوٹینشل کا جائزہ لیتے ہیں۔ پہلے آخری پوائنٹ کو لیجیے۔ پاکستان اور بھارت میں سلفی مکتب فکر کے لوگ خاصے کم ہیں، مگر ان کی سلفی سوچ بنیادی طور پر ایک الگ فقہی اپروچ کی وجہ سے ہے۔ پاکستان میں غیر مقلد سوچ رکھنے والے لوگ اہل حدیث (سلفی) کہلاتے ہیں۔ ہمارے ہاںجمعیت اہل حدیث کے مختلف دھڑے سیاسی طور پر فعال ہیں، پروفیسر سجاد میر جن میں نمایاں ہیں۔ ان سب گروپوں کی سوچ سیاسی، جمہوری ہے؛ البتہ یہ دھڑے مختلف امور میں سعودی عرب کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ایک تو یہ تنظیمیں پُرامن سیاسی ایجنڈا رکھتی ہیں، دوسرے داعش کے سخت اینٹی سعودی عرب موقف کی وجہ سے بھی یہاں اس کے لیے ناپسندیدگی پائی جاتی ہے۔ یہی پوزیشن سلفی مسلک کی تنظیم دعوۃ الارشاد اور اس کے امیر حافظ سعید صاحب کی ہے۔ حافظ صاحب کا ہمیشہ ایک مضبوط اور واضح پاکستانی نیشنلسٹ موقف رہا ہے۔ زیادہ واضح انداز میں سمجھنے کے لیے اسے پرواسٹیبلشمنٹ کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے حافظ صاحب اور ان کے حامیوں کی تمام تر توجہ مقبوضہ کشمیر پر مرکوز ہے ، افغانستان اور مشرق وسطیٰ وغیرہ ان سب کی توجہ کا مرکز نہیں۔
ابوبکر البغدادی کی خلافت کے حوالے سے پاکستان اور افغانستان کی عسکری تنظیموں میں عمومی طور پر منفی سوچ موجود ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں ملا عمر نے اپنی خلافت قائم کی تھی جن کی تمام طالبان کمانڈروں نے بیعت کی تھی۔ طالبان اور اس مسلک کے دیگر گروہوں میں بیعت کا توڑنا گناہ کبیرہ کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ القاعدہ کے امیر اسامہ بن لادن، ایمن الظواہری اور دیگر کمانڈروں نے بھی ملا عمر کی بیعت کر رکھی تھی۔ افغان طالبان قیادت کی جانب سے دو تین ماہ پہلے داعش کے امیر کے نام عربی میں ایک خط بھیجا گیا، جس کے اردو، انگریزی اور پشتو ترجمہ کو افغان طالبان نے اپنی ویب سائٹ میں بھی شامل کیا۔ اس خط میں داعش کو افغانستان میں مداخلت کرنے سے روکتے ہوئے انہیںافغان طالبان کی قیادت یا خلافت کو تسلیم کرنے کا کہا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نام نہاد پاکستانی طالبان (ٹی ٹی پی) اگرچہ اپنا الگ ایجنڈا اور نظم و نسق رکھتے ہیں، مگر پاکستانی قبائلی علاقوں اور افغانستان کی پشتون بیلٹ میں افغان طالبان کے اثر و رسوخ کی وجہ سے وہ بھی خود کو ملا عمر کی بیعت کے پابند قرار دیتے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی چند ہفتے قبل ایک واضح بیان میں داعش کی خلافت کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اسی لیے افغان طالبان ہوں، القاعدہ کے زیر اثر جنگجو ہوں یا ٹی ٹی پی کے گینگسٹرز، ان سب کے لیے سیکڑوں میل دور واقع داعش کی نام نہاد خلافت کو تسلیم کرنا ممکن نہیں، کوئی چاہے بھی تو زمینی حقائق اسے ایسا نہیں کرنے دیتے۔
پاکستان اور افغانستان میں عرب جنگجوئوں کا ایک خاص کردار رہا ہے۔ اسامہ بن لادن کے شخصی سحر اور دیگر عرب کمانڈروں کی کوشش سے مقامی جہادی تنظیموں کے بعض سپلنٹر گروپ الگ ہو کر القاعدہ کے ساتھ جا ملے تھے، خاص طور پر سابق کشمیری تنظیموں کے وہ لوگ جو 80ء کے عشرے میں روس کے خلاف عرب جنگجوئوں کے ساتھ مل کر لڑتے رہے تھے۔ مشہور کمانڈر الیاس کشمیری کا نائن الیون سے پہلے میں نے انٹرویو کیا تھا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ اس کی ٹریننگ عرب جنگجوئوں نے کی تھی۔ وہ شیخ اسامہ، ڈاکٹر عبداللہ عظام ، محمد عاطف، ایمن الظواہری وغیرہ کے ساتھ رہ چکے تھے اور ان کی شخصیتوں اور فکر سے متاثر تھے۔ جب القاعدہ کے یہ عرب کمانڈر پاکستانی فورسز اور ریاست کے خلاف ہوئے تو سابق کشمیری تنظیموں کے الیاس کشمیری جیسے دوسرے کمانڈر اور لڑکے اپنی ذہنی مرعوبیت اور احترام کی وجہ سے القاعدہ کے ساتھ جا ملے۔ القاعدہ کے برعکس داعش کو یہ ڈس ایڈوانٹج ہے کہ اس کے کمانڈر افغانستان کی روس کے خلاف جنگ میں شامل نہیں رہے۔ داعش کا بڑا حصہ عرب جنگجوئوں کی نسبتاً نئی نسل پر مشتمل ہے۔ پرانے کچھ لوگ ہیں بھی تو وہ القاعدہ سے نکالے ہوئے ہیں اور القاعدہ انہیں اب گردن زدنی سمجھتی ہے۔ اس لیے پاکستان میں سابق کشمیری تنظیموں کا جو حصہ القاعدہ کے عرب، ازبک، چیچن جنگجوئوں کے ساتھ جڑ گیا تھا، ان کے لیے بھی داعش کی خلافت اور داعش کے داعی کمانڈروں میں کوئی کشش موجود نہیں۔ 
پاکستان میں خلافت کی بات کئی لوگ کرتے ہیں۔ پاکستان میں ڈاکٹر اسرار مرحوم اور ان کی جماعت تنظیم اسلامی ہمیشہ خلافت کی بات کرتی اور اس کے لیے علمی، فکری تحریک چلاتی رہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار مگر انتہائی پُرامن، سیاسی جدوجہد کی بات کرتے تھے۔ خلافت کی جدید تحریک زیادہ منظم اور بھرپور انداز میں حزب التحریر نے شروع کی جس کا مرکز برطانیہ ہے، مگر دلچسپ بات ہے کہ وہاں اس تنظیم پر کوئی پابندی نہیں، جبکہ بہت سے دوسرے مسلم ممالک جیسے پاکستان، بنگلہ دیش وغیرہ میں اس پر سخت پابندی عائد ہے۔ حزب التحریر بھی مسلح جدوجہد کرنے والی تنظیم نہیں۔ وہ عالم گیر خلافت کی بات کرتے ہیں اور اس حوالے سے لبنانی سکالر تقی الدین النبہانی مرحوم کے افکار سے رہنمائی لیتے ہیں۔ حزب التحریر کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس نے مسلم ممالک میں فو ج کے اندر اثر و نفوذ پیدا کرنے کو اپنا ایجنڈا بنایا ۔ مصر، ترکی اور پاکستان جیسے ممالک کو خاص طور پر اس حوالے سے ہدف بنایا گیا۔ پاکستان میں حزب التحریر سے تعلقات کے شبے میں حساس اداروں کے بعض لوگوں کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔ حزب التحریر کے حوالے سے آج کل زیرو ٹالرنس پالیسی چل رہی ہے جو میرے ذاتی خیال میں بالکل درست ہے۔ پاکستان آرمی اس وقت ملک کا سب سے مضبوط اور مستحکم ادارہ ہے، جو اس میں خلفشار پیداکرنے کی کوشش کرے یا صرف سوچے، اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہیے۔
ہم نے کوشش کی ہے کہ جو سامنے کی چیزیں ہیں، انہیں ترتیب دے کر سامنے لایا جائے تاکہ تصویر کے مختلف ٹکڑوں کو جوڑنا آسان ہو جائے۔ داعش کے حوالے سے میرا نقطۂ نظر انکار کا ہے نہ پُرجوش اثبات کا۔ داعش کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے والے تو اسے''شعلہ لپکاتے الائو‘‘ کی طرح بیان کر رہے ہیں، درحقیقت پاکستان میں داعش ابھی ایک چنگاری کی سی حیثیت رکھتی ہے، جسے نظر انداز تو قطعی طور پر نہیں کرنا چاہیے، مگر اسے نہایت آسانی سے بجھایا جا سکتا ہے۔ یہ کام کیسے ہو، اس پر ایک اور مکمل نشست میں بات کریں گے۔
(نوٹ: گزشتہ روز (پیر )کے کالم میں داعش کی تشکیل اور اس کے فیبرک پر تفصیل سے بات کی تھی، جن قارئین کو اس موضوع سے دلچسپی ہو، وہ دنیا نیوز کے آرکائیوز (http://dunya.com.pk/index.php/columnist/amir-khakwani/10) سے یہ کالم پڑھ سکتے ہیں۔)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں