فکری غذا

پاکستان میں رہنے والے اہل علم و فکر کے سامنے کئی ایسے پہلو ہیں جن پر غورکرنے اور بحث و تمحیص کے بعد کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ دینی فکر رکھنے والے دائیں بازو کے لوگ ہوں یا لبرل و سیکولر سوچ رکھنے والے حلقے، ان سب کے لیے ریاست کو درپیش چیلنجز بنیادی ترجیح ہے۔ شدت پسندی، اس کے محرکات، اسے قوت فراہم کرنے والا بیانیہ اور ریاست کی ہیٔت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات سب کے لیے اہم ہیں۔ دینی حلقے اپنے انداز سے اس ایشو کا سامنا کر رہے ہیں اور سیکولر سوچ کا اپنا لائحہ عمل ہے۔ ایک بڑا ایشو البتہ بنیادی طور پر دینی سوچ رکھنے والے معتدل طبقات اور روایتی دینی حلقوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز ہے۔ چند بنیادی سوالات ہیں۔ مغربی تہذیب کے غلبے سے مسلم تہذیب کو کس طرح بچایا جائے؟ مسلم تہذیب کو دنیا کے سامنے کس طرح مستحکم بنیادوں پر استوار کر کے پیش کیا جا سکتا ہے؟ مغرب کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہو؟ مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کا رویہ، مسلم امہ کی بقا، مسلم تہذیب، اسلامی بینکاری، بلاسود مائیکرو کریڈٹ فنانس (اخوت ماڈل) اور اس طرح کے دیگر ملتے جلتے موضوعات ہمارے رائٹ ونگ، سنٹر آف دی رائٹ یا زیادہ واضح اصطلاح میں دینی سوچ رکھنے والے لوگوں کا مسئلہ ہیں۔ 
یہ لبرلز یا سیکولر دوستوں کا ایشو نہیں کہ وہ تو سر ے سے مسلم تہذیب، مسلم امہ وغیرہ کی اصطلاحات ہی سے اتفاق نہیں کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جو لوگ البتہ اللہ کے دین کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، اسے سرفراز دیکھنا اوررب کی خوشنودی پانے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر یا کم از کم ان کا ایک حصہ اس جانب کھپانا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ محض اصطلاحات نہیں، بلکہ مقصد حیات ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ جہاں مجموعی طور پر ایک خوفناک قسم کے جمود کا شکار ہو چکا ہے، فکری حوالے سے یہ صورت حال زیادہ گمبھیر ہے۔ لگتا ہے جیسے ہم کسی جوہڑ میں رہ رہے ہوں۔ ادیب، صوفی اور دانشور احمد جاوید کے تازہ انٹرویو نے اس جمود کو توڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کئی موضوعات پرایک شاندار بیانیہ تشکیل دیا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ اس بیانیہ پر بات کریں، اس کے مختلف پہلوئوں کاجائزہ لیں اور ایک سنجیدہ فکری مکالمے کی بنیاد ڈالیں۔ ہمارے جیسے عام اخبارنویسوں کا کام اہل علم کو اس جانب متوجہ کرنا تھا، وہ کام ہم کیے جا رہے ہیں۔ اب اس انٹرویو کے چند مزید اقتباسات جو مختلف موضوعات کا عمدگی سے احاطہ کرتے ہیں۔
''سیکولرازم اور لبرل ازم دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔ لبرل ازم ایک رویہ ہے، سیکولرازم ایک نظام ہے۔ سیکولرازم کا مطلب ہے کہ دنیا کے معاملات انسان چلائے گا، اس کے لیے کسی خدائی ہدایت نامے کی ضرورت نہیں۔ لبرل ازم کا مطلب ہے کہ کفر بھی ٹھیک ہے، ایمان بھی ٹھیک ہے، آدمی کو کافر ہونے کا بھی کھلا موقع ملنا چاہیے، مومن ہونے کا راستہ بھی صاف رہے۔ یہ رویہ ہے کہ کافر سے اس کے کفر کی بنیاد پر دوری نہ محسوس کرنا اورمومن سے اس کے ایمان کی بنیاد پرخصوصی محبت محسوس نہ کرنا، یہ لبرل ازم ہے۔کوئی مذہبی آدمی سیکولر نہیں ہوسکتا۔ سیکولر ہونے کا مطلب ہے دنیا میں خدا کے اختیارات سلب کر لینا، خدا کو غیر متعلق کر دینا۔۔۔۔ تو سیکولر ازم مذہب، خاص کر اسلام کی نفی ہے۔ عیسائیت نے تو اس پوزیشن کو قبول کر لیا کہ چلو دین انفرادی معاملہ ہے، لیکن اسلام کا تو دعویٰ ہی اس بات پر ہے کہ انسان، اس کی انفرادیت، اجتماعیت سب کی سب اسلام کے دائرے میں ہونی چاہیے، یعنی اسلام کو انسان کی انفرادی، اجتماعی سرگرمیوں کا مرکز ہونا چاہیے۔ سیکولرازم اس کو مانتا ہی نہیں، کہتا ہے مرکز انسان خود ہے‘‘۔
''آگے بڑھنے کے لیے آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے زاویہ نظر (Perspective) سے ترقی اور کامیابی کے تصورات کو عمل میں لے آئیں۔ ہمیں یہ کہنے کے لائق ہونا چاہیے کہ ترقی کا مغربی ماڈل ہمیں قبول نہیں، کامیابی کا مغربی نظام ہمیں قبول نہیں۔ ہم انسانی فضائل اور انسانی زندگیوں کی آسانیوں اور راحتوں کا اپنا ایک تصور رکھتے ہیں اور اس تصور پر عمل کرنے کی قوت موجود ہے۔ مثال کے طور پر ہماری خوشحالی سود سے پاک ہونی چاہیے۔ ہمارا یہ آئیڈیل ہے۔ ہم اس کے پابند ہیں کہ ہمارا مال سود سے پاک ہونا چاہیے۔ ہمارے اخلاق حیا کی بنیاد پر ہوں، آزادی یا کاروبارکی بنیاد پر نہیں۔ ہماری شخصیت انکسار کے جوہر سے تعمیر ہو، کسی اور تصور سے نہیں۔ جب تک ہم اسلام کا ورلڈ ویو بنانے، بتانے اور اسے عمل میں لانے کی صلاحیت پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ہمیں مغرب کے تسلط سے بچانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ ہر امت، قوم کی پہلی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کا ورلڈ ویو کیا ہے؟ ورلڈ ویو سے مراد (یہ) ہے کہ اس امت یا قوم کا تصور علم کیا ہے؟ تصورِ دنیا کیا ہے، تصور انسان کیا ہے؟ پہلے ہمیں فراموشی کی دھند میں موجود اپنے ورلڈ ویو کوذہن میں لانے، زبان سے اظہار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تصور کا شعور حاکم طبقے کو ہونا چاہیے، علما کو، تعلیم یافتہ طبقات کو ہونا چاہیے، لیکن اس کا احساس عام ہونا چاہیے، خاص کر وہ طبقات جوسوسائٹی کو چلانے کی قوت رکھتے ہیں، جو اپنے فیصلوں کو نتیجہ خیز بنانے کے اسباب رکھتے ہیں یا جن کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے علما مغرب کو نہیں سمجھتے، مگر ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقات بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں، خاص کر وہ صاحبان جنہیں مغرب میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا، وہ بھی مغرب کے حوالے سے اتنے ہی جاہل ہیں، جتنا گائوں کا کوئی مولوی۔ فہم مغرب یعنی وہ فہم جو مغربی تہذیب کے اثرات، اس تہذیب کے مزاج اور اس کے چھپے ہوئے مقاصد (Hidden Agenda)کو سمجھ سکے، وہ شعور ہمارے تعلیم یافتہ طبقات میں بالکل نہیں۔ اپنی تہذیب کی عائد کردہ ذمہ داریوں کا احساس ان میں نہیں ہے (اس اعتبار سے) اعلیٰ تعلیم یافتہ آدمی اپنی تہذیب کا غدار ہے، وہ اپنی تہذیب کی وفاداری کی رمق سے بھی محروم ہے‘‘۔
''علم کیا ہے اور علم کس لیے ہوتا ہے؟ کوئی تہذیب ان دو سوالوں کے جواب دیے بغیر وجود ہی میں نہیں آ سکتی۔ مغرب کہتا ہے کہ علم محسوسات کا علم ہے اور علم آرام سے، آزادی، سلامتی، خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے ہے۔ علم دنیا کو اپنے لیے آسان اور پرآسائش بنانے کے لیے ہے۔ مغرب کے پاس ان دونوں سوالات کے جواب بھی ہیں اور وہ اسے عملی جامہ پہنانے میں کامیاب بھی ہوگئے۔ انہوں نے کہا، علم محسوساتی(Empirical) ہوتا ہے۔ اس سے انہوں نے فزکس، میتھ اور وہ تمام علوم جو انسان اور دنیا سے تعلق رکھتے ہیں، وہ لکیر انہوں نے پیدا کر دی، پھر اس علم کو نتیجہ خیز بنا کر بھی دکھا دیا۔ انہوں نے
کہا، ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ ایٹم ہے، ہم اس ایٹم کو استعمال کر کے بھی دکھا سکتے ہیں اور ایسا کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم صرف یہ نہیں کہتے کہ دنیا میں خوشحالی ہونی چاہیے، ہم نے وہ خوشحالی دکھا بھی دی۔
مغرب نے پوری طرح یکسو ہو کر ان دو جوابات سے مدد لی اور پھر ان دو جوابات کو زندگی کے تمام گوشوں میں جار ی کر کے دکھا دیا۔ یہ سبق بھی دیا کہ نہ صرف وہ، بلکہ جو بھی ان کے نظریے کو اپنائے گا، وہ بھی ان کے معیار پر خوشحال اور ترقی یافتہ ہوسکتا ہے۔ عالم اسلام میں جتنی بھی ترقی ہے، وہ مغربی اصول کی تقلید کے نتیجے میں ہے، اسلامی تعلیم کے نتیجے میں نہیں۔ یہ مغرب کے تسلط کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ آپ کو بھی ترقی یافتہ ہونے کے لیے دنیاوی معاملات میں مسلمان ہونا چھوڑنا پڑتا ہے۔ عالم اسلام میں جو چھوٹی موٹی ترقیاں نظر آ رہی ہیں۔۔۔۔ ملائشیا، ترکی وغیرہ، یہ سب انہی دو مغربی اصولوں کی پیروی کے نتیجے میں ہیں۔ اس لیے اس غلبے سے نکلنے، اس میں مسلمان کی حیثیت سے سانس لینے کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم پہلے ان دو سوالات کے جواب بتائیں۔ اپنے جواب میں خود کو کلیئر کریں اور پھر اس جواب کو عمل میں لانے کی اجتماعی سرگرمیوں کا پورا ایک مربوط نظام بنائیں۔ اس میں چاہے سو سال لگیں، لیکن یہ کیے بغیر ہم تہذیبی بقا حاصل نہیں کر سکتے۔ مغرب نے ایک ڈسکورس دیا جمہوریت کا ۔ جمہوریت اہل مغرب کے لیے دین کی طرح ہے۔ انہوں نے بتا دیا کہ جمہوریت عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے ہے۔ دوسری طرف اللہ کی حکومت، اللہ کے بندوں کے لیے۔۔۔۔ یہ ہمارا سلوگن ہے۔ اس کے لیے ہمارے پاس کیا ہے؟ سودی نظام سے نکلنے کا کیا لٹریچر ہے؟کیپیٹلسٹ معیشت کی پیچیدگیاں، موجودہ نیشن سٹیٹ میں شہری مساوات کا حق ہے، اس کو اسلام سے کس طرح جوڑیںگے، اللہ کی حاکمیت کس سٹرکچر میں ہوگی؟ اس سب کچھ کے لیے کیا بیانیہ ہے ہمارے پاس؟‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں