کہانیاں اور کتابیں

کچھ عرصہ قبل ہماری ایک عزیزہ گھر آئیں۔ گپ شپ ہو رہی تھیں، برسبیل تذکرہ انہوں نے کہا کہ میں اپنی بچی کو کارٹون نہیں دیکھنے دیتی۔ اس پر حیرت سے پوچھا کہ آپ نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ کہنے لگیں، وقت ضائع ہوتا ہے، بچے خواہ مخواہ کارٹون دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں، پڑھائی میں پورا وقت نہیں دیتے۔ آداب اور شائستگی کا طریقہ شاید یہی تھا کہ یہ جواب سن کر خاموش ہوجایا جائے۔ میں عادتاً دوسروں کے معاملات میں دخل نہیں دیتا۔ہر ایک کی اپنی زندگی ہے، اسے اپنے طریقے سے گزارنے دینا چاہیے، خواہ مخواہ کے مشورے دینا دراصل دوسروں کی پرائیویسی میں مداخلت کے برابر ہے۔یہ سن کر رہا نہیں گیا، انہیں کہہ ہی دیا کہ بچوں کو کارٹون ضرور دیکھنے چاہئیں، بچے نہیں دیکھیں گے تو پھر کون انہیں دیکھے گا؟ انہیں سمجھایا کہ یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں کیا جاتا۔ بچوں کے تخیل کو تیز کرنے ، اسے مہمیز لگانے کے لئے ہی انہیں کہانیاں سنائی جاتی ہیں، سپر ہیروز کے کردار تراشے جاتے ہیں، کسی زمانے میں ٹارزن وغیرہ تھے، آج کل سپرمین، بیٹ مین، سپائیڈر مین وغیرہ ہیں۔ کئی ترقی یافتہ ممالک نے دانستہ طور پر سائنس فکشن پر مبنی کارٹون بنائے ہیں، خلائی مخلوق کی آمد اوریہ کائنات بچانے کی کوشش کرنے والے سپرہیرو بچے ۔ ان کی باہمی کشمکش صرف بچوں کی تفریح کے لئے اہم نہیں بلکہ اس میں لاشعوری طور پر انہیں ایک بڑا کردار ادا کرنے کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔ یہ کارٹون بچوں کو کچھ غیر معمولی کر دکھانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک جاپانی کارٹون'' ڈورے مون‘‘ ہے، آج کل بچوں میں بہت مقبول ہے۔ ایک جاپانی بچہ نوبیتا جو پڑھائی میں قدرے کمزور اور کھلندڑا ہے، اس کے پاس کسی دوسرے سیارے سے ایک روبوٹ نما کیریکٹر ''ڈورے مون‘‘ آ کر رہنے لگتا ہے۔ڈورے مون کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے پاس ایک گیجٹ یا سائنسی آلہ ہوتا ہے ۔ وہ اپنی زنبیل نما جھولی میں ہاتھ ڈال کر وہ آلہ نکالتااور نوبیتا کی مشکل آسان کر دیتا ہے۔ میرے اپنے بچے ڈورے مون بڑے شوق سے دیکھتے ہیں اور ایک فرق میں نے دیکھا کہ اب اکثر موقعوں پر وہ آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ بڑے ہو کر ہم فلاں چیز کے لئے گیجٹ بنائیں گے، فلاں آلہ بنائیں گے ، اس طرح کا روبوٹ بنائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ مجھے تو یہ مثبت پہلو لگتا ہے کہ بچے نہ صرف خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ یہ خواب درحقیقت دنیا اور انسانیت میں آسانی لانے ، لوگوں کی مشکلات دور کرنے کے حوالے سے ہیں۔ اس لئے اعتدال کے ساتھ کارٹون دیکھنے میں کوئی حرج نہیں،یہ ضرور دیکھ لیا جائے کہ کارٹون صاف ستھر ے بھی ہیں یا نہیں کیونکہ مغرب اور ہمارے پڑوس سے درآمدہ کارٹونوں میں ایک بڑا مسئلہ ہے کہ وہاں دس گیارہ سالہ بچے کی بھی ایک گرل فرینڈ لازمی ہوتی ہے۔
ہماری عزیزہ یہ تقریردل پذیر سن کر متاثر ہوئیں ا ور انہوں نے فوری اعلان کر دیا کہ اب ان کے گھر میں کارٹون پر پابندی ختم ہوجائے گی۔ اگلے روز البتہ اہلیہ بتار ہی تھیں کہ انہی عزیزہ کا فون آیا تھا، خاصی ناراض تھیں کہ بھائی کے کہنے پر میں نے کارٹون دکھانا شروع کر دیا، مگر اب وہ روزانہ کارٹون دیکھنے کی ضد کرتی ہے، یہ مشورہ ماننے سے میری بچی بگڑ گئی ہے۔ یہ سن کر ٹھنڈی سانس بھر کر خاموش ہوگیا کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا تھا۔ اکثر بچوں کے والدین یہ بات سن کر ناراض ہوجاتے ہیں کہ ان کے بچوں کو کہانیوں کی کتابیں پڑھنے دی جائیں ، انہیں کارٹون دیکھنے اورکرکٹ وغیرہ کھیلنے سے نہ روکا جائے۔ والدین شائد یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے ان کے گھر میں ننھی ننھی مشینیں اتاری ہیں، جن کے ذمے صرف کورس کی کتابیں رٹنے کا کام ہی ہے۔ کھیلنا کودنا، کہانیاں پڑھنا، کہانیاں سننا، کارٹون دیکھنا اورسکول سے ہٹ کر کچھ بھی کام کرنا غلط بلکہ ایک طرح سے گناہ ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوپاتا کہ زندگی میں توازن کوئی شے ہے اور انسانی شخصیت کی تشکیل میں بچپن کا زمانہ کس قدر اہم ہے۔ یہ سادہ سی بات بہت سے لوگ نہیں سمجھ سکتے کہ زندگی میں صرف لائق ہونا، پوزیشن لینا اور ایک اچھی ملازمت حاصل کر لینا ہی کامیابی نہیں۔ ایک اچھا انسان بننا، متوازن شخصیت کا حامل ہونا، مثبت سوچ رکھنا،اور زندگی کے معاملات کو تخلیقی ذہانت کے ساتھ نمٹانا بہت زیادہ اہم ہے۔
ہم سب نے اپنے اردگرد ایسے بہت سے کردار دیکھے ہوں گے، جو ایک خاص حوالے سے کامیاب زندگی گزارر ہے ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اچھی ملازمت پر فائز ہوگئے، ترقی کر کے سینئر پوزیشن بھی لے لی، مگر ان کی زندگی میں کچھ ایسی کجی، کمی اور سٹریل پن رہا کہ ان کے ساتھی ، ماتحت انہیں نفرت کی حد تک ناپسند کرتے رہے۔ ایک خاص روبوٹک انداز میں پرورش پا کر وہ نوٹ کمانے والی مشین تو بن گئے، مگر زندگی سے حظ اٹھانا، رس کشید کرنا انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ ایک اچھی کتاب کو پڑھنا کیسا نشہ آور کام ہے، ایک عمدہ فلم دیکھنا، سحرا نگیز موسیقی سے لطف اٹھانے سے بڑا خمارکہیں اور نہیں ملتا۔ 
بچوں کے حوالے سے کتابوں ، کہانیوں کا ذکر اس لئے آ گیا کہ بچپن میں اگر یہ عادتیں پختہ کر لی جائیں تو پھر زندگی بھر کتابوں کا ساتھ رہتا ہے۔ میں ذاتی طورپر اپنے والدین کا شکر گزار ہوں کہ بہت بچپن ہی میں انہوں نے کہانیوں کی کتابیں خرید کر دیں اور ا ن کے لذت سے آشنا کیا۔ یہ اور بات کہ بعد میں ہم نے ایسے پر پرزے نکالے ، کہانیوں ، ڈائجسٹوں اور کتابوں میں اتنی دلچسپی لی کہ والدین خوفزدہ ہوگئے ، انہیں لگا کہ کہیں پڑھائی کا حرج نہ ہو۔ہر باپ کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ بچے لائق بنیں، پڑھائی میں اچھی پوزیشن لائیں ۔ مجھے اس کے ساتھ ساتھ مگر یہ فکر دامن گیر ہے کہ ان میں مطالعے کی عادت پختہ ہوجائے۔ شدید خواہش ہے کہ مطالعہ ان کی عادت اور کتابیں ان کی زندگیوں کا حصہ بنیں۔ ہر کتابوں کی نمائش میں اکیلا جانے کے ساتھ ساتھ ایک دن بچوں کو لازمی لے کر جاتا ہوں ، ان کی مرضی کی رنگار نگ کتابیں دلوا کر دیتا ہوں ۔ لاہور ایکسپو سینٹر میں جمعرات کے روز سے چار روزہ نمائش شروع ہے۔کتابوں کی نمائش میں جا کر دل خوش ہوجاتا ہے۔
ہر سال کتابوں کی نمائش کے موقع پر کچھ فیس بک فرینڈز لازمی پوچھتے ہیں کہ کون سی کتابیں خریدی جائیں۔ میرا ہمیشہ جواب یہی ہوتا ہے کہ وہاں جائو ضرور، جو جی چاہے خریدو۔ مذہبی کتابیں، شاعری، تنقید، سفرنامے، بائیوگرافی، نان فکشن کچھ بھی۔ فکشن (ناول، افسانوں)کا کچھ حصہ ضرور ہونا چاہیے، دس سے پچیس تیس فیصد تک لازمی فکشن پڑھی جائے کہ اس سے آدمی کے اندر جو نرمی اور گداز آتا ہے ،وہ نان فکشن سے نہیں آ سکتا۔پچھلے برسوں میں میری پسند لاطینی امریکہ کے ادیب خاص کر گارشیا مارکیز، حوزے سارا گومااور میلان کنڈیرا تھے۔ اب ڈیڑھ دوبرسوں سے ترک لکھاریوں کے سحر میں ہوں۔2015ء کا سال نوبیل انعام یافتہ ترک ادیب اوحان پاموک کے ناول مائی نیم از ریڈ (سرخ میرا نام)کے ٹرانس میں گزرا۔ کمال کا ناول ہے۔ فرخ سہیل گوئندی نے اسے اپنے ناشر ادارے جمہوری پبلی کیشنز سے شائع کرایا۔اس بار میں ایک اور ترک ناول نگار یشار کمال کے سحر میں ہوں۔ یشار کمال کاحوالہ مستنصر حسین تارڑ کی تحریروں سے ملا، تارڑ صاحب یشارکمال کے اس قدر بڑے مداح ہیں کہ انہوںنے اپنے پوتے کا نام یشار رکھا، ان کے بقول یہ ادیب اگر کرد نہ ہوتا تو اسے کب کا نوبیل انعام مل چکا ہوتا۔ یشار کمال کے دو ناولوں کے اردو تراجم ''بوئے گل‘‘اور ''اناطولیہ کہانی ‘‘کے نام سے ہوچکے ہیں۔ ایک اور ترک ادیب اورحان کمال کے بھی کئی ناول اردو میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ ایلف شفق جن کے ناول'' فورٹی رولز آف لو‘‘ کی دھوم ہے، ان کا ایک ناول ناموس کے نام سے ترجمہ ہوچکا، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔موقعہ ملے توامین معلوف کا سمرقند بھی پڑھیے اور اگر استنبول کے سحر سے واقف ہونا ہے تو استنبول کہانی دیکھیں۔پچھلے دنوں ایک برازیلین ناول نگار انطونیو توریس کے دو ناول'' سرزمین ‘‘اور ''اجڑے دیار ‘‘دیکھے، انہیں ابھی پڑھ تو نہیں سکا، مگر انداز تحریر چونکا دینے والا ہے۔مذہبی کتابوں میں میری سفارش ڈاکٹر محمود احمد غازی کی محاضرات سیریزہے ۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی محاضرات سیرت، محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات فقہ وغیرہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص کر جدید فکر سے متاثرہ وہ لوگ جن کے ذہن میں اسلام کے حوالے سے بعض شکوک پیدا ہوچکے ہیں، وہ کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے یہ کتابیں ضرور پڑھیں۔حرف آخر یہی کہ کتابیں خریدیں، پڑھیں، تحفہ دیں، اپنی زندگیو ں کا حصہ بنائیں اور اپنے بچوں کے ساتھ ان کا تعلق جوڑیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں