کھڑے ہونے کا وقت

زندگی میں بعض باتیں ایسی ہیں جو کوشش کے باوجود سمجھ نہیں آ تیں۔ کراچی میں ایم کیو ایم کی سیاست اورشہر کے سابق میئر مصطفی کمال کی پریس کانفرنس کے حوالے سے پچھلے چند روز سے خبریں، تجزیے پڑھ اور ٹاک شوز سن رہا ہوں۔ شدید حیرت ہوتی ہے کہ آخر لوگ اتنا سفید جھوٹ کیسے بول سکتے ہیں، سامنے کی کھلی باتوں سے نظریں کس طرح چرائی جا سکتی ہیں؟ 
سادہ سی دو باتیں ہیں۔ ایک کا تعلق ایم کیو ایم سے ہے۔ یہ جماعت خالصتاً لسانی بنیاد پر وجود میں آئی، ایک خاص طرز کی فسطائیت اور تشدد اس کی جڑوں میں شامل ہے۔اسی بنیاد پر پارٹی نے شہر میں دہشت اور ہیبت قائم کی ۔ کیا اس امر میں کوئی شک ہے؟ مملکت خداداد پاکستان میں کوئی دیانت دار اور باہوش شخص ہے جو ایم کیوا یم کی طرز ِسیاست سے واقف نہ ہو‘ اسے یہ علم نہ ہو کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں کے خون کا بوجھ اس انداز سیاست اور اسکی قیادت کی گردن پر موجود ہے۔ دوسروں کو چھوڑئیے ‘خود قائد تحریک کے ایک دو نہیں بے شمار بیانات متنازع، قابل اعتراض ہیں۔کراچی کی سڑکوں پر لکھے یہ نعرے کون بھلا سکتا ہے... ''قائد کا جو غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے۔‘‘ شہر کراچی کے در ودیوار گواہ ہیں کہ اس نعرے پر کس قدر سختی سے عمل کیا گیا۔ غدار کا تو حشر خیر ہونا ہی تھا، وہ بھی اسی انجام سے دوچار ہوئے، جن کو جماعت کے اندر مقبولیت حاصل ہونے لگی ۔ ایک طویل فہرست ہے، جس سے صحافتی کمیونٹی بخوبی واقف ہے اور کراچی کے سیاسی کارکن بھی۔ یہ سب باتیں کھلا راز ہیں۔ پارٹی کی دہشت اورسفاکانہ ہیبت سے ڈر کر کوئی زبان نہیں کھولتا تھا، کوئی کچھ کہہ بھی دیتا تو میڈیا کے لئے اسے نشر کرنا، شائع کرنا ممکن نہیں تھا۔میں نے کراچی میں کچھ عرصہ تعلیم پائی ہے، کراچی یونیورسٹی میں آنا جانا رہااور لاکالجز میں بھی۔بہت کچھ ہم نے دیکھا۔یہ حقیقت ہے کہ اے پی ایم ایس او(آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ فیڈریشن)کو کراچی کے طلبہ نے بری طرح بھگتا ہے۔ جس ظلم اور بربریت کا سامنا اسلامی جمعیت طلبہ، کراچی کے لڑکوں نے کیا، کراچی سے باہر کے لوگ صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔ جمعیت نے پنجاب میں نیک نامی نہیں کمائی، پنجاب یونیورسٹی میں اس کا کردار بعض مواقع پر متنازع رہا ۔ یہ اخبارنویس اس پر تنقید کرتا رہا ہے، کئی کالم بھی لکھے، مگر کراچی میں نوے کا عشرہ اور اس کے بعد کے برسوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت نے کراچی میں جو تشدد اور جبر سہا ‘جتنی قربانیاں دیں‘ اگر کبھی اس کٹھن ، سیاہ دور کی روداد رقم کی گئی تو ان کا کردار سنہرے حروف سے لکھا جائے گا۔
یہاں یہ واضح کر دوں کہ میں مہاجر سیاست پر تنقید نہیں کر رہا ، جب مختلف قومیتوں کی سیاست ہوگی تو پھر مہاجرقومیت کی بات لازمی ہوگی۔ ان کا اپنا کلچر، ثقافت ہے، جو ظاہر ہے انہیں عزیز ہوگا۔ کراچی میں گزرے کچھ وقت نے یہ بھی سکھا دیا کہ اس شہر نگاراں کے اپنے ہی مسائل ہیں ، پاکستان کے دیگر علاقوں میں رہنے والوں کو اس کا کماحقہ اندازہ نہیں ہوسکتا۔غیر متوازن کوٹہ سسٹم اور پھر اس کے غلط استعمال نے وہاں شدید محرومی پیدا کی۔ستم ظریفی ہے کہ سندھی کسی بھی صورت کراچی سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں،مگر اندرون سندھ سے جو حکمران ہوئے، انہوں نے کراچی کو سنوارنے نہیں ،بگاڑنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ ایم کیو ایم نے محرومی کے ان تمام جذبات سے فائدہ اٹھایا، پاپولر ووٹ بینک بنایا اور حکومتوں میں اپنے سائز سے زیادہ حصہ لیا بلکہ اکثر گردن پر انگوٹھا رکھ کے وصول کیا۔ افسوس کہ اس کی قیادت نے پارٹی کا پورا سٹرکچر غلط انداز میں تعمیر کیا اور فسطائیت اینٹ اینٹ میں بھر دی۔ آخری تجزیے میں ایم کیو ایم نے کراچی اور شہری سندھ کو دیا کم ، برباد زیادہ کیا۔ یہ مگر میری یا کسی اور کی رائے ہوسکتی ہے، ممکن ہے کراچی کے ووٹر اس سے ا تفاق نہ کریں۔ انہیں اس کا حق ہے، ہم سب پاکستانی اس حق کو مانتے، تسلیم کرتے، حمایت کرتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو مگر یہ حق قطعی طور پر نہیں دیا جا سکتا کہ وہ پورے شہر کو یرغمال بنا لے، فسطائی سیاست کرے اور دیگر جماعتوں کو کام نہ کرنے دے، بھتے لے، قبضے کرے اور پورے انتظامی ڈھانچے کو مفلوج کر دے۔ 
بات گو تلخ ہے ، مگرمجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ پچھلے بیس برسوں سے ایم کیو ایم یہی کرتی آئی ہے۔ نوے کی دہائی میں آپریشن کے دو مختصر وقفوں کے سوا ، اس نے یہی کچھ کیا۔ خاص طور پر 2000 ء میں جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ایم کیو ایم کو اتحادی بنانے کے بعد تو یہ سب عروج پر پہنچ گیا۔ کراچی کو اجاڑنے، اس کی روشنیاں بجھانے، شہریوں کا جینا دوبھر کرنے میں مرکزی حصہ اس کا رہا ، جس کی سرپرستی جنرل پرویز مشرف ، دوسرے لفظوں میں سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کی۔ اسٹیبلشمنٹ اس جرم سے بری الذمہ نہیں ۔ ہمارے ادارے اگر اپنا کام درست طریقے سے کرتے تو یہ مافیاز پروان نہ چڑھتے۔ پاکستان پیپلزپارٹی بھی اس جرم میں پوری طرح شامل رہی۔ 2008ء سے 2013ء تک ان کی حکومت تھی، کراچی میں لہو کی جو ہولی کھیلی جاتی رہی، اس کی ذمہ داری پوری طرح سے جناب زرداری کی سیاست اور سندھ پیپلزپارٹی کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ان پانچ برسوں میں دس پندرہ ہزار لوگ قتل ہوئے، ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔ روزانہ کے حساب سے درجنوں افراد کی لاشیں گرتیں، مگر حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگتی ۔ ایم کیو ایم کو کائونٹر کرنے کے لئے پیپلزپارٹی نے لیاری گینگ وار کو سپورٹ کیا ،نتیجہ عوام کو بھگتنا پڑا۔ اُن دنوں ہر دوسرے ہفتے وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی جاتے اور پھر مذاکرات کے بعد وہ اعلان کرتے کہ اب معاملات طے ہوگئے ہیں، اگلے روز سے ٹارگٹ کلنگ رک جاتی۔ ہم سب حیران ہوتے کہ اگرغیرملکی دہشت گرد کراچی میں قتل وغارت کرا رہے ہیں تو پھر رحمان ملک کے ایم کیو ایم سے مذاکرات کرنے سے ٹارگٹ کلنگ کیوں رک جاتی ہے، دہشت گردوں کا سیاسی جماعتوں سے کیا سمبندھ؟ جواب سب کو معلوم تھا ،مگر کسی میں اتنی جرا￿ت نہیں تھی کہ سچ بیان کر پاتا۔ ابن انشا نے کہا تھا، سچ اچھا ، مگراس کے لئے کوئی اور مرے اور اچھا۔ ہر ایک جانتا تھا کہ نوے کے عشرے کے دوران آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس انسپکٹروں کا کیا حشر ہوا ؟ سو سے زیادہ پولیس افسر ایک ایک کر کے مار دئیے گئے ۔ ریاست سہمی تماشا دیکھتی رہی۔ 
آج اعلانیہ ایم کیوا یم پر تنقید ہو رہی ہے، قائد تحریک کے خلاف پریس کانفرنسیں ہو رہی ہیں، کالم لکھے اور ٹی وی پروگرام ہو رہے ہیں، اس کا تمام تر کریڈٹ رینجرز کے آپریشن کو جاتا ہے۔آپریشن کی وجہ سے ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے، مافیاز سہم کر پیچھے ہٹے اور قاتلوں کا نیٹ ورک توڑا گیا۔ شرط لگائی جا سکتی ہے کہ آج رینجرز پیچھے ہٹ جائے، آپریشن ختم کر دیا جائے، چند ہی ہفتوں کے دوران کراچی تین برس پہلے کی اُس پوزیشن پر لوٹ جائے گا جب درجنوں افراد کی روزانہ لاشیں گر رہی تھیں، کروڑوںبھتہ روزانہ لیا جا رہا تھا اور میڈیا سمیت ہر ایک مہر بلب تھا۔ گلیاں ہو جان سنجیاں، وچ مرزا یار پھرے کے مصداق چینلز پر ایک آواز ہی گھنٹوں گونجتی تھی، کسی کی جرا￿ت نہیں تھی کہ لائیو خطاب کٹ کرے یااسے نظرانداز کر سکے۔ یہ وہ منظر ہیں جو ہم میں سے کسی کو بھولے نہیں۔ اگر آج سیاہ بدلی چھٹ گئی، امید کی کرنیں جگمگا رہی ہیں تو ہمیں اس کا ادراک کرنا اور سچ بول کر اس عمل کو تقویت پہنچانی چاہیے۔ 
مصطفی کمال ہوں یا انیس قائم خانی، مجھے یا کسی اور کو ان کے ساتھ ہمدردی ہونا ضروری نہیں۔ ہماری سیاست کے حمام میں ہر کوئی بے لباس ہے، دھلا دھلایا کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر ایک کی خامیاں اور خوبیاں ہوسکتی ہیں۔ یہ سوال پوچھنا مگر بدترین منافقت ہے کہ پہلے کیوں زبان نہیں کھولی؟کیا پوچھنے والے کو نہیں معلوم کہ پہلے زبان کھولتے تو کیا حشر ہوتا؟شاید دو گز قبر بھی نصیب نہ ہوتی۔ مصطفی کمال کا ایک پلس پوائنٹ تو بہرحال ہے کہ اس نے عروج میں پارٹی کو چھوڑا۔ سینیٹرکے عہدے پر فائز تھا اور کراچی میں پارٹی کا یہ حال تھا کہ ہردن روزِ عید اور ہر رات شب برات ... ایسے وقت میں بھرا بازار چھوڑ کر وہ باہر چلا گیا اورجو کچھ ہو رہا تھا، اس سے خود کو الگ کر لیا۔ یہ تو سامنے کی حقیقت ہے، اسے تو مانا جائے ۔ صاف بات ہے کہ سیاست ہر ایک کو کرنے دی جائے ، یہی جمہوری اصول ہے، مگر آج کے پاکستان میں کسی فسطائی جماعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو صرف اور صرف سیاست کرنا ہوگی۔ ہم میڈیا والوں کو ، انٹیلی جنشیا کو صرف اور صرف عوام کے ساتھ جڑنا ، ان سے مخلص ہونا چاہیے۔ یہ کھڑے ہو کر سچ کو سپورٹ کرنے کا وقت ہے، کہیں لمحاتی غفلت سے سیاہ خونی رات پھر نہ پلٹ آئے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں