جواب

اشفاق احمد اردو کے منفرد افسانہ نگار، ڈرامہ نگار ہیں۔ اردو فکشن نگاروں کی کوئی بھی فہرست ان کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔ ان کا اپنا ہی ایک خاص طرز اسلوب تھا، جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ جب کبھی کوئی نوجوان اردو ادب کے مطالعے کے حوالے سے مشورہ مانگے تو اسے اشفاق احمد کو پڑھنے کی رائے ضرور دیتا ہوں۔ منٹو،کرشن چندر، بیدی، غلام عباس، پریم چند اور احمد ندیم قاسمی میرے نزدیک اردو افسانے کے چھ سب سے بڑے اور ممتاز نام ہیں۔ممکن ہے کسی کو اس فہرست میں قاسمی صاحب کی شمولیت پر اعتراض ہو، مگر پنجاب کے ماحول اور معاشرت کے حوالے سے قاسمی صاحب کے افسانے بے مثل ہیں۔اس قدر اعلیٰ کردار نگاری انہوں نے کی اور اتنے متنوع موضوعات پر قلم اٹھایا کہ اس حوالے سے ان کا دور دور تک کوئی ثانی نظر نہیں آتا۔ اس فہرست میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ انتظار حسین، بلونت سنگھ کے نام شامل ہوسکتے ہیںمگر اشفاق احمد کو ڈالے بغیر یہ فہرست مکمل نہیں ہوسکتی۔ویسے تو جانوروں کے حوالے سے سید رفیق حسین کی لکھی کہانیوں کو کون نظرانداز کر سکتا ہے۔ابوالفضل صدیقی، اسد محمد خان ،سید قاسم محموداور نسبتاً نئے افسانہ نگاروں میں ایم الیاس کا اپنا خاص ذائقہ ہے۔ سید قاسم محمود انسائیکلو پیڈیاز میں جت گئے اور ان کا افسانہ نظروں سے اوجھل ہوگیا،بالکل اسی طرح جیسے قرۃ العین حیدر کے ناول ان کے افسانوں پر غالب آگئے ۔جدید افسانے میں رشید امجد، نیئر مسعود اور منشا یاد کے ساتھ'' غلام باغ‘‘جیسے ناول کے مصنف مرزا اطہر بیگ نمایاں ہیں۔ اشفاق احمد کاایک بڑا کام ریڈیو پر تلقین شاہ جیسے لازوال کردار کو متعارف کرانا بھی ہے۔ تلقین شاہ اب کئی جلدوں میں شائع ہوچکا ہے ، پڑھنے والے اس سے حظ اٹھا سکتے ہیں، اگرچہ جو مزا اس خاص انداز کی پنجابی سننے میں ہے ، وہ 
پڑھنے میں کہاں۔ کاش تلقین شاہ کے ریڈیائی پروگراموں کی سی ڈیز بھی تیار ہوسکیں۔ ریڈیو پاکستان کے ارباب اختیار اگر توجہ دیں تو وہ اپنے شاہکار ڈراموں اور پروگراموں کو مارکیٹ میں لا کر خزانہ محفوظ کر سکتے ہیں، اس سے معقول یافت بھی ہوگی۔
مجھے ہمیشہ یوں لگا کہ قدرت نے اشفاق صاحب سے آخری برسوں میں زاویہ پروگرام کے ذریعے جو کام لیا، وہ ان کے پچھلے گراں قدر تخلیقی کام سے کم نہیں ۔ہمارے ترقی پسند ،لبرل دوست اشفاق احمد کو نا پسند کرتے ہیں، ان میں سے بہت سے انہیں جعلی صوفی کہہ کر پکارتے اور مذاق اڑاتے ہیں کہ اشفاق احمد اور ممتاز مفتی وغیرہ نے بابوں کا ذکر کر کے بہت کنفیوژن پھیلایا۔ایسے لوگوں کی کمی نہیں ،جو اشفاق صاحب کو خود بابا سمجھتے ہیں ، لیکن اگر ایسا نہ بھی ہو ، تب بھی یہ کچھ کم بات نہیں کہ ایک شخص نے اپنے آدھے گھنٹے کے ٹی وی پروگرام کے ذریعے لوگوں کو زندگی کے کئی پہلوئوں سے روشناس کرایا۔ تصویر کاوہ رخ دکھایا، جو عام طور سے نظرانداز ہوجاتا ہے۔ اشفاق احمد کئی برسوں سے مٹی اوڑھے سو رہے ہیں،ان کے پروگرام زاویہ کے واقعات اور اقتباسات تواتر سے سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اس حوالے سے پیج بنا رکھے ہیں اور وہ مختلف پوسٹیں شئیر کرتے رہتے ہیں۔ 
زاویہ کے بہت سے پروگرام میں نے دیکھے ، ان میں سے بیشتر دل پر نقش ہیں۔ ایک پروگرام مجھے اکثر صبح کے وقت یاد آتا ہے۔ ایک دن اشفاق احمد نے اپنے مخصوص دھیمے ، پراثر انداز میں گفتگو شروع کی تو یہ انکشاف کیا کہ ہر روز صبح میں اور میری بیوی بانو قدسیہ ایک کام کرتے ہیں۔ ہمارے بستر کی سائیڈ ٹیبل پر عید اور دیگروش کارڈز کا پلندہ پڑا ہے، جو مختلف دوست اوردوستوں، رشتے دار ہمیں بھیجتے ہیں ۔ہم انہیں اٹھاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سائز میں بڑے، بعض چھوٹے ہیں، لیکن ان سب کو ایک ترتیب میں رکھ کر میں ہاتھ میں اٹھاتا اور گھماتا ہوں، پھر اوپر جو کارڈ آجائے، اسے کھول کر دیکھتا ہوں۔ میں اور میری بیوی آپس میں کہتے ہیں کہ کارڈ بھیجنے والی کی کس قدر مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں یاد رکھا ، اپنے مصروف وقت میں سے کچھ لمحات نکال کر یہ کارڈ لیا، ہمارے لئے پیغام لکھا اور پھر ڈاک یا کورئیر کے ذریعے بھیجا۔ ہم میاں بیوی دل کی گہرائیوں سے ایسا کرنے والے کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنی خاص رحمتیں ان پر نازل کرے۔ اس کے بعد ان کارڈز کو ایک بار پھر اوپرنیچے کر کے ایک اور کارڈ نکالتے ہیں، پھر تیسرا ... ہم ہر صبح اپنے وقت کا کچھ حصہ کارڈز بھیجنے والوں کے لئے ممنونیت کے جذبات سے معمور دعائوں میں صرف کرتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ ان دوستوں نے ہمارے اوپر جو مہربانی کی،ہم اپنے اس فعل کے ذریعے ایک لحاظ سے اس کا کسی حد تک جوابی شکریہ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ‘‘
کئی برس پہلے سنے ہوئے ٹی وی پروگرام کی یادداشت کو میں نے بے ربط الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سے مگر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب اشفاق صاحب نے اپنے مخصوص سحرانگیز انداز میں سنایا ہوگا تو کیسا سماں باندھا ہوگا۔ اس وقت یہ عہد کیا کہ اپنی زندگی میں بھی اس عمل کو جاری کیا جائے، مگر وہی ہوا جو اس قسم کے اچھے عہد کے ساتھ ہوتا ہے کہ کچھ دن گزرے تو پھر مشینی انداز کی رواں دواں زندگی میں ہر بات بھول گئے۔ یہ بات مگر کبھی کبھار یاد آتی ہے تو بے اختیار احساس ہوتا ہے کہ طریقہ کار خواہ کوئی بھی ہو، مگر ہمیں کسی طریقے سے ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ، جو ہماری زندگی میں اہم رہے ہیں۔ زندگی کے کسی مرحلے پرانہوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور کٹھنائیوں سے باہر نکلنے میں مدد کی، کوئی بریک تھرو فراہم کر دیا، معاشی مشکل آسان کی ، زندگی کو خوبصورت بنانے میں مدد کی، اچھا مشورہ دیا ۔ سب سے بڑھ کر وہ اساتذہ جن سے ہم نے علم حاصل کیا، جن کی وجہ سے ہماری زندگیوں میں شعور کی روشنی آئی اور سوچنا سیکھا۔شکریہ ادا کرنے کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ صاحب وسائل بن چکے ہیں، وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے محسنوں کی مدد کر سکتے ہیں، اس طریقہ سے کہ ان کی خودداری اور عزت نفس مجروح نہ ہو۔ تحفے ، تحائف کی شکل میں جوابی شکریہ ادا کرنے کاوہ سدا بہار طریقہ ہے ، جو صدیوں سے جاری ہے، ہمیشہ رہے گا۔اگر مزید کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم دعائوں میں تو انہیں یاد رکھا جائے ۔ اپنے ساتھ بھلائی کرنے والے لوگوں کو یاد رکھنا، ان کے لئے کلمۂ خیر کہنا، خلوص دل سے دعا کہنا بھی ایک طرح سے ان کی مہربانی، نوازشات کاخوبصورت جواب ہے ۔ 
ایک بار'' اخوت‘‘ کے بانی اور ملک کے نامورسماجی کارکن ڈاکٹر امجد ثاقب نے ایک خوبصورت بات بتائی۔ کہنے لگے ،'' ایک روز مجھے اچانک خیال آیا کہ سکول کے زمانے میں ہمارے ایک استاد تھے ۔ انہوں نے بڑی شفقت اور محنت سے ہمیں پڑھایا۔ کئی ایسی بنیادی باتیں جو ان سے سیکھیں، بعد میں دنیا کی معروف درسگاہوں میں کام آئیں۔ میں نے سوچا کہ ہمارے وہ ٹیچر ریٹائر ہوچکے ہیں،پنشن پر گزارا ہے، ان کی کچھ مدد کرنا چاہیے۔ اپنے آبائی شہر ایک دوست کو فون کر کے ان ٹیچر کا ایڈریس لیا اور پھر ایک مناسب رقم کا چیک ان کے نام بھجوا دیا۔ چند دنوں کے بعد استاد صاحب کا جوابی خط آیا تو پڑھ کر دنگ رہ گیا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ میں نے کہیں پڑھا کہ علامہ اقبال شاعر مشرق اس لئے بنے کہ انہوں نے ایک کروڑ مرتبہ درود پاک پڑھا تھا۔ اس کے بعد میں نے بھی دن کا بیشتر حصہ درود شریف پڑھنے میں صرف کر دیا، اب تک میں دس لاکھ مرتبہ پڑھ چکا ہوں، ارادہ یہی ہے کہ اگر اللہ نے مہلت دی تو ایک کروڑ مرتبہ پڑھ لوں گا۔ آج کل میں پریشانی میں تھا، ایک مالی مشکل درپیش تھی، کسی سے مانگنا بھی نہیں چاہتا تھا۔دل میں یہ یقین تھا کہ درود پاک کی برکت سے اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرمائیں گے،آج صبح تمہار ا چیک آ گیا اوریہ بالکل اتنی ہی مالیت کا ہے، جتنی مجھے ضرورت تھی۔‘‘ ڈاکٹرا مجد ثاقب نے پُرنم آنکھوں سے یہ واقعہ سنایا اور بولے ، ''میرا یقین ہے کہ ان استاد صاحب کی مشکل تو کسی اور ذریعے سے بھی حل ہوجاتی، مجھے یہ سعادت صرف اس لئے ملی کہ میں نے اپنے استاد کی مہربانی اور نوازشات کے جواب میں اپنے شکریہ کے عملی اظہار کا سوچا تھا۔ ‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں