سیاسی و نظریاتی معرکہ آرائی

ہمارے ہاں جاری سیاسی کشمکش میں ایک بار پھر تیزی آ گئی ہے۔ پانامہ لیکس نے خاموش سیاسی ماحول کو اچانک ہی گرما گرم بنا دیا۔ اخبار دیکھ کر تو کبھی کبھی یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر عقل کے ناخن نہ لئے گئے‘ تو یہ پورا سسٹم بھک سے اڑ جائے گا۔ عمران خان اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہ رہے ہیں‘ اور دوسری طرف پیپلز پارٹی کو یہ احساس ہے کہ اگر خود کو اپوزیشن کے طور پر منوانا ہے‘ تو پھر اسے بھی میدان میں آنا پڑے گا، مگر زرداری صاحب کی مفاہمت کی پالیسی اور شریف برادران کے ساتھ ان کی غیر علانیہ انڈرسٹینڈنگ پیپلز پارٹی کو زیادہ آگے جانے بھی نہیں دیتی۔ اگلے چند دنوں میں پیپلز پارٹی کو یہ طے کرنا ہو گا کہ اسے ملک میں سیاست کرنا ہے‘ یا پھر پنجاب کی طرح سندھ سے بھی ہاتھ دھونے ہیں۔ جماعت اسلامی اس لحاظ سے خوش نصیب جماعت ہے کہ وکی لیکس ہو یا پانامہ لیکس یا کسی اور نوعیت کے انکشافات، ان کی قیادت اور ارکان اسمبلی اس سے بے داغ برآمد ہوتے ہیں۔ وکی لیکس میں بھی عمران خان اور جماعت اسلامی ہی محفوظ رہے تھے، ورنہ مولانا فضل الرحمن سمیت ہر سیاسی لیڈر پر وکی لیکس کے چھینٹے پڑے‘ اور انہیں وضاحتیں ہی کرنا پڑیں۔ کرپش کے خلاف جماعت کی مہم کو سراہنا چاہیے۔ عام آدمی کرپشن سے بری طرح نالاں اور کرپٹ سیاستدانوں سے بیزار ہے۔ پانامہ لیکس نے پاکستانی سماج کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ حکومت مستعفی ہو یا نہ ہو، ایسے قوانین ضرور بن جائیں، جس سے وائیٹ کالر کرائمز کرنے والوں اور ٹیکس چوروں کا بچنا ناممکن ہو جائے۔ 
اس سیاسی جنگ کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں نظریاتی حوالے سے بھی ایک معرکہ درپیش ہے۔ مین سٹریم میڈیا پر تو کرنٹ افیئرز زیادہ غالب ہیں، سوشل میڈیا اور نیوز ویب سائٹس پر البتہ ایک بار پھر سے اسلامسٹوں اور سیکولرسٹوں کے مابین معرکہ آرائی کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیکولرسٹوں کا مقدمہ تین نکاتی ہے: ''پاکستانی ریاست کو اسلامی نہیں سیکولر ہونا چاہیے۔ قرارداد مقاصد غلط ایجنڈے کے تحت پیش کی گئی، اس کو آئین سے نکالا دیا جائے۔ اقلیتوں کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں، جو کہ ( بقول ان کے) اسلامی ملک میں ممکن نہیں‘‘۔
مزے کی بات ہے کہ ہر چند برسوں کے بعد یہی سوالات بار بار اٹھائے جاتے ہیں۔ سیکولرازم کا ترجمہ ہمارے ہاں لادینیت کیا جاتا ہے، سیکولر دوست اس پر بڑے برہم ہوتے ہیں، لیکن عملی صورت یہی ہے۔ سیکولرازم کا بنیادی سبق یہی ہے کہ مذہب کو گھر تک محدود رکھا جائے اور ریاستی امور کے لئے رہنمائی کے فرائض ہم خود ادا کریں۔ پاکستان میں ایسا ہونا اس لئے ممکن نظر نہیں آتا کہ کئی برسوں پر محیط تحریک پاکستان ایک خاص ایجنڈے پر استوار کی اور لڑی گئی۔ چھیالیس کے انتخابات میں عوام کے سامنے مسلم لیگ نے ایک یہ نعرہ رکھا کہ مسلم ہو تو مسلم لیگ کو سپورٹ کرو۔ وجہ یہی بتلائی گئی کہ پاکستان کو ہم اسلامی ماڈل ملک بنائیں گے، ایسی اسلامی جمہوری، فلاحی ریاست جس کے ثمرات ہر ایک کو ملیں گے۔ اس نعرے کو کامیابی ملی۔ قائد اعظم کے درجنوں بلکہ بیسیوں بیانات، تقریریں، انٹرویوز موجود ہیں جن میں وہ بار بار پاکستان کو اسلامی ماڈل ملک بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس بار ارادہ کیا ہے کہ اس بحث کے مختلف پہلوئوں پر تفصیل سے کلام کیا جائے۔ پاکستان کو کیوں اسلامی ریاست ہونا چاہیے؟ اس پر الگ سے لکھیں گے، آج ایک ممتاز اور قابل احترام اقلیتی قانون دان اور جج کی قرارداد مقاصد، اسلامی نظام اور اقلیتیوں کے حقوق کے حوالے سے آرا پیش کرتے ہیں۔
آج کل میں استاد محترم الطاف حسن قریشی کے انٹرویوز پر مبنی کتاب ''ملاقاتیں کیا کیا‘‘ پڑھ رہا ہوں۔ الطاف صاحب نے اردو صحافت میں انٹرویوز کا ایک ایسا ٹرینڈ قائم کیا، جس کی پیروی بعد میں بہت سوں نے کی۔ اردو ڈائجسٹ کے انٹرویوز پاکستانی تاریخ کا بہت اہم حصہ اور حوالہ ہیں۔ ان تاریخی نوعیت کے انٹرویوز میں سے کچھ کو الطاف صاحب نے اپنی اس کتاب کی زینت بنایا ہے۔ جمہوری پبلی کیشنز کے فرخ سہیل گوئندی نے یہ شاندار کتاب شائع کی ہے۔ اس میں کئی انٹرویوز ایسے ہیں، جن پر بات کی جا سکتی ہے۔ موضوع کی نوعیت سے میں جسٹس اے آر کارنیلیس کے انٹرویو کا ایک اقتباس پیش کروں گا۔ جسٹس صاحب اقلیتی کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ دبنگ اتنے کہ جس تاریخی مقدمہ میں جسٹس منیر وفاقی حکومت کے دبائو کا سامنا نہ کر پائے اور نظریہ ضرورت کی بھیانک اصطلاح متعارف کرا دی، اس میں جسٹس کارنیلیس نے اپنا اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ ملاحظہ کیجئے، الطاف حسن قریشی اور جسٹس کارنیلیس کی گفتگو۔ 
''سوال: ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی کس طرح قائم کر سکتے ہیں؟
جسٹس کارنیلیس: ہمارے دل میں اسی قانون کا احترام پیدا ہو سکتا ہے، جو ہمارے احساسات کے مطابق ہو، اگر ہم پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس نظام قانون کو نافذ کرنا ہو گا جسے عوام الناس پسند کرتے ہیں اور نظام قانون اسلامی قانون ہے۔ اہل پاکستان اپنے دلوں میں اسلامی شریعت کے لیے بے پناہ محبت اور شدید پیاس رکھتے ہیں‘ اور یہ پیاس ہر لحظہ بڑھتی رہے گی۔ میرا یقین ہے کہ اسلامی قانون کے نفاذ سے اس ملک کی قانونی زندگی میں ایک خوشگوار انقلاب جنم لے گا۔
سوال: کیا اس عہد میں اسلامی قانون نافذ کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس کارنیلیس: کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ آج تو یہ کام اور بھی آسان ہے۔ عدالتیں موجود ہیں، اور ان کا نظام موجود ہے۔ لوگ قانونی ضابطوں کے عادی ہیں، بس ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی قانون اس طرح مدوّن کیا جائے کہ اسے سمجھنا اور اس کے مطابق فیصلے کرنا آسان ہو جائے۔ قانون کے ماہرین اور اہل علم و فضل یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں‘ تو اسلامی فقہ کے ذخائر، قاضیوں کے عدالتی فیصلوں اور قانون نظائر سے استفادہ کرتے ہوئے اسلامی قانون کو مربوط اور قابل فہم صورت میں جمع کیا جا سکتا ہے۔ اگر انگریزی قانون کی لائبریریاں آباد ہو سکتی ہیں تو آخر اسلامی قانون پر اس نوع کا تحقیقی کام کیوں نہیں ہو سکتا۔
سوال: ہماری عدالتوں میں سالہا سال سے انگریزی قانون رائج ہے، کیا اسلامی قانون رائج کرنے سے ایک ذہنی خلا نہیں پیدا ہو جائے گا؟
جسٹس کارنیلیس: کوئی خلا پیدا نہیں ہو گا۔ دراصل بات سمجھ لینے والی ہے کہ اسلامی قانون کسی دور میں بھی زندگی سے کٹا نہیں رہا، اس قانون کی ایک تاریخ اس کا ایک پس منظر، اس قانون کی طاقت سے بڑی بڑی سلطنتیں چلتی رہی ہیں اور ماضی قریب میں بھی یہ قانون عدالتوں میں رائج رہا ہے۔ اس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلامی قانون تسلسل سے تمام کڑیاں اپنے اندر رکھتا ہے، اگر آپ اسلامی قانون کو جدید طرز پر مدوّن کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرنے میں کوئی ذہنی خلا پیدا نہیں ہو گا۔ جب اسلامی قانون کی کتابیں وکلا بھی پڑھیں گے اور جج صاحبان بھی تو پھر یہی قانون ہماری قانونی فضا میں رچ بس جائے گا۔
سوال: آپ نے فرمایا پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہونا چاہیے، اسلامی قانون کے نفاذ سے اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کو نقصان تو نہیں پہنچے گا؟
جسٹس کارنیلیس: میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو گا۔ اسلام اقلیتوں کے جان، مال اور حقوق کے تحفظ اور شخصیت کی نشوونما کی ضمانت دیتا ہے۔
سوال: بنیادی حقوق کا تصور اسلامی مزاج سے کوئی مطابقت رکھتا ہے؟
جسٹس کارنیلیس: میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کا مزاج بنیادی حقوق کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ وہ احترام آدمیت کا سبق دیتا ہے۔ (ملاقاتیں کیا کیا - صفحہ 191- 195)‘‘
انہی جسٹس کارنیلیس نے گیارہ مارچ 1965ء کو ایس ایم لا کالج، کراچی میں دوسری کل پاکستان لا کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا، ''عظیم قراردادِ مقاصد بھی ہمارے دستور کا حصہ ہے، جو آزادی عطا ہونے کے فوراً بعد کے زمانے میں، دستور سازی کے دوران بہترین ذہنوں کے اتفاق رائے کی نمائندگی کرتی ہے۔ قرارداد مقاصد میں پاکستان کے دنیوی معاملات کے لیے یہ کہا گیا ہے کہ ان کو جمہوری انداز میں طے (Conduct) کیا جائے تاکہ اسلام کے احکام کے مطابق مساوات، رواداری اور معاشرتی انصاف کو یقینی بنایا جا سکے۔ بنیادی حقوق بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کے احکامات میں سے ہیں۔ جو جمہوری انداز میں معاشرتی عدل، رواداری اور انصاف کے لیے رہنمائی کر سکتے ہیں۔ ایک جج جو دستور کے دیے ہوئے بنیادی حقوق کی تفصیلی وضاحت (expound) کرتا ہے۔ اس سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان اعلیٰ ذرائع سے تحریک پائے گا، جو ہمیشہ کے لیے قرآن مجید کے الفاظ میں ثبت (inscribe)کر دیے گئے ہیں‘‘۔
(اے آر کارنیلیس، تدوین و ادارت: ڈاکٹر ایس ایچ حیدر۔ لاہور لا ٹائمز پبلی کیشنز، لاہور ص:66)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں