عمران خان منصفانہ تنقید کے مستحق ہیں!

امریکی صحافی رابرٹ ڈیلک نے امریکی صدر لنڈن بی جانسن کے بارے میں لکھا تھا: ''کچھ لوگ اس سے شدید محبت کرتے تو کچھ بدترین نفرت کے جذبات رکھتے۔ جانسن سے لوگوں کی محبت بھی شدید تھی اور نفرت بھی۔ یہ نہیں تھا کہ کچھ لوگ اسے پسند کرتے تھے اور کچھ ناپسند، بلکہ حقیقت یہ تھی کہ کچھ لوگ تو اس کی پرستش کرتے تھے اور کچھ اسے گردن زدنی سمجھتے تھے۔ کچھ لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مہربان، فراخ دل، ہمدرد اور دوسروں کا خیال رکھنے والا ایک نفیس انسان ہے‘ جو غریب لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں منہمک رہتا ہے۔ دوسرے لوگ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ظالم تھا، آمر تھا، ظاہری دبدبے اور طنطنے کا گرویدہ تھا‘‘۔
پاکستانی سیاست میں ایک شخصیت ایسی ہے، جس کے بارے میں اسی انداز کے شدت بھرے جذبات کی تقسیم ملتی ہے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ بھٹو کی طاقتور شخصیت نے بھی لوگوں کو انتہائی زوردار طریقے سے متاثر کیا۔ بھٹو کی پرستش کرنے والوں کی ان کی زندگی میں کمی تھی، نہ آج جبکہ انہیں مٹی اوڑھے چار عشرے ہونے کو ہیں۔ ان لوگوں کی محبت، شیفتگی اور وارفتگی خاصی حد تک قائم ہے۔ بھٹو کو پاکستانی تاریخ کا بڑا ولن سمجھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ بھٹو صاحب کی مظلومانہ پھانسی کے بعد بھی یہ نفرت کے جذبات برقرار رہے۔ گزرتے ماہ و سال نے انہیںدھیما ضرور کر دیا، مگر ذرا کریدنے سے دلوں میں چھپی ناپسندیدگی کی چنگاریاں سلگ اٹھتی ہیں۔
بھٹو صاحب کے بعد پاکستانی سیاست کی دوسری ایسی شخصیت تحریک انصاف کے قائد عمران خان ہیں۔ عمران خان نے بھی لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو اسی زوردار انداز میں ہٹ کیا ہے کہ وہ انتہائی ردعمل پر مبنی رائے بنانے پر مجبور ہو گئے۔ عمران کا سیاسی ماڈل انتہائی پوزیشن لینے پر منحصر ہے۔ یہ کمزوری ہے اور طاقت بھی۔ سیاست میں انتہائی پوزیشن لینا پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اچھا سیاستدان اسے ہی سمجھا جاتا ہے جو لچکدار ہو اور دوسروں کو بھی اکاموڈیٹ کرتا رہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاست میں ایسے فیز آتے ہیں، جب سسٹم گل سڑ جاتا اور نہایت عامیانہ، روایتی انداز کی سیاست ہو رہی ہوتی ہے۔ ایسے میں صرف امن اور سیاسی استحکام برقرار رکھنا ملک کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب سینکڑوں ارب روپے ملک سے لوٹ لئے جائیں اور قومی ادارے ایک ایک کر کے ڈوبتے جائیں... تب سمجھ لیںکہ ملک میں استحکام قائم نہیں بلکہ جمود طاری ہے، جو سیاست کو جوہڑ بنا رہا ہے۔ تب کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی کو اٹھ کر اس تماشے، سیاسی ڈرامے کو چیلنج کرنا پڑتا ہے۔
ایسا کرنے والے کو دو فوری فوائد اور نقصانات حاصل ہو جاتے ہیں۔ وہ سیاست میں رومان کا عنصر شامل کر دیتا ہے، جس سے سیاسی بدبودار کلچر سے متنفر ہونے والے بھی دوبارہ سے سیاست کی طرف لوٹ آتے اور تبدیلی کا خواب آنکھوں میں سجا لیتے ہیں۔ اسے عوامی پذیرائی ملتی اور اگر اس میں شخصی کشش ہے تو فین شپ بن جاتی ہے۔ نقصانات بھی کم بڑے نہیں۔ جیسے ہی وہ سٹیٹس کو توڑنے کی بات کرتا ہے، تنہائی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ وہ روایتی سیاست کرنے والے تمام گروہوں کو نشانہ بنائے گا تو پھر یہ لوگ اس کے دشمن ہی بنیں گے۔ اس کے ساتھ کوئی اتحاد بنانے کو تیار نہیں ہوتا۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ سسٹم کے ساتھ وابستہ تمام تر قوتیں اس کے خلاف سرگرم ہو جاتی ہیں۔ بیوروکریسی، میڈیا، پولیس، کالے دھن والے، کرپٹ سیاسی کارکن اور حکمران جماعتیں... یہ سب تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کو نشانہ بنا کر اس کی کردار کشی اور امیج مسخ کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ 
عمران خان کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ بھٹو صاحب اس اعتبار سے خوش نصیب تھے کہ ان کو سیاسی خلا ملا۔ کوئی حکمران جماعت تھی ہی نہیں، مختلف گروپ تھے، جن کے پاس پُرکشش قیادت کا فقدان تھا۔ بھٹو صاحب نے خلا کو پُر کیا، غریبوں کو خواب دکھایا، کارکنوں کو متحرک کیا اور میدان مار لیا۔ عمران خان کو ایک بڑی مضبوط طاقتور جماعت سے واسطہ پڑا، جس کی جڑیں پنجاب میں خاصی گہری ہیں۔ عمران نے سیاست میں رومانویت کی آمیزش کر کے نوجوانوں کے ایک بڑے حلقے کی حمایت حاصل کی، اینٹی نواز شریف ووٹ بنک اپنی طرف کھینچا، اس سے قومی سیاست میں نمایاں جگہ مل گئی۔ یہ سب مگر مکمل جیت کے لئے ناکافی تھا۔ بھٹو صاحب کے پاس کچھ ایسی خصوصیات تھیں، جو عمران میں نہیں۔ بھٹو کو نظریاتی کمٹڈ ساتھیوں کا ساتھ حاصل رہا، تحریک انصاف میں یہ عنصر مسنگ ہے۔ اس لئے عمران خان کا سفر ابھی جاری ہے۔ اس کی سیاست میں ہیجان کی کیفیت اسی لئے محسوس ہوتی ہے کہ چیلنج کرنے کا فیز ابھی ختم نہیں ہوا۔ بھٹو صاحب الیکشن جیت گئے تھے، ان میں ٹھہرائو آ گیا کہ اقتدار کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ عمران خان ابھی اپوزیشن میں ہے اور اسے اندازہ ہو رہا ہے کہ روایتی سیاسی قوتوں کو شکست دینا آسان نہیں۔ یہ ادراک اس میں مزید جارحیت لے آیا ہے۔
عمران خان میں بہت سی خامیاں ہیں، انہی کالموں میں ان پر تنقید ہوتی رہی۔ میں ذاتی طور پر عمران خان کے اسلام آباد میں دھرنے کا مخالف تھا، انہی دنوں کئی کالم اس کے خلاف لکھے۔ میرے خیال میں یوں عوامی قوت کے بل پر حکومتیں گرانا غلط اور نامناسب ہے۔ اس طرح سے تو کوئی بھی حکومت نہیں کر پائے گا، ہر سال دو سال کے بعد یہی مناظر دہرائے جاتے رہیں گے۔ عمران خان کو پارٹی کو زیادہ مضبوط کرنا ہو گا۔ تنظیم اس کی بہت کمزور ہے۔ اس نے کئی اہم سیاسی پاکٹس نظر انداز کر رکھی ہیں۔ جنوبی پنجاب اسے جا کر وقت گزارنا چاہیے، وہاں پیپلز پارٹی بہت کمزور ہو چکی، ان کے الیکٹ ایبلز اور ووٹ بنک دونوں عمران کی طرف ہی آئیں گے۔ اسے شاہ محمود قریشی پر انحصار کرنے کے بجائے خود جانا چاہیے۔ اندرون سندھ اسے بار بار جانا پڑے گا۔ کراچی میںوقت نہ دے کر اس نے ایک بڑا موقعہ ضائع کر دیا۔ خیبر پختون خوا میں اس کی حکومت نے کئی مثبت کام کئے ہیں، مگر ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ عمران کو ہفتہ میں ایک دن پشاور ضرور گزارنا چاہیے۔ خان کو اور بھی بہت سے مشورے دیے جا سکتے ہیں، اگرچہ بے اثر جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔ میرے جیسے اخبار نویس اس وقت جھنجھلا اٹھتے ہیں، جب عمران خان ان مشوروں کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا اور اپنی من مانی کرتا ہے۔ یہ مگر ہمیں سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک لیڈر ہے، ستر لاکھ ووٹ اس نے ایسے ہی نہیں لے لئے۔ میں تو شایدا پنے محلے سے دو سو ووٹ بھی نہ لے پائوں۔ لیڈروں کی سیاسی حرکیات اپنی ہوتی ہیں، ان کی مجبوریوں، مسائل، زمینی حقائق کا دور سے اندازہ آسان نہیںہوتا۔ 
یہ کہنا غلط ہے کہ عمران خان اب ویسے ہی روایتی سیاست دان بن چکے ہیں‘ جیسے آصف زرداری یا میاں نواز شریف۔ معذرت کے ساتھ ایسا کہنا دراصل زیادتی اور ظلم کے مترادف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تین سال سے خیبر پختون خوا کی حکومت اس کے پاس ہے، وہاںکئی سو ارب روپے کا سالانہ بجٹ ہے۔ خان چاہتا تو اربوں روپے کی لوٹ مار آسانی سے کر سکتا تھا۔ ایک روپے کی کرپشن کا الزام بھی عمران خان پر نہیں۔ دوسری طرف سندھ میں زرداری صاحب اور ان کے فرنٹ مینوں نے جو گل کھلائے، ہر ایک جانتا ہے۔ آج نیب کو فری ہینڈ مل جائے تو پنجاب میں بھی درجنوں ڈاکٹر عاصم نکل آئیں گے۔ خیبر پختون خوا میں صورتحال ان دونوں صوبوں سے بہتر ہے۔ وفاقی حکومت، ان کی ایجنسیوں اور مسلم لیگی کارکنوں اور ان کے حامی اخبار نویسوں کی ہزاروں آنکھیں عمران خان پر مرکوز ہیں۔ باوجود انتہائی کوشش کے وہ اس کے دامن پر مالی کرپشن کے دھبے نہیں ڈھونڈ سکے۔ پاکستانی سیاست میں یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس طرح کی مثالیں صرف جماعت اسلامی میں ملتی تھیں۔ یہ درست ہے کہ سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اسے جہانگیر ترین، عبدالعلیم خان جیسے سرمایہ داروںکو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے، مگر اس نے کے پی کے میں ثابت کر دیا ہے کہ روایتی سیاست دان وزیر اعلیٰ اور روایتی سیاست سے جنم لینے والے ارکان اسمبلی کے باوجود پولیس کو کرپشن فری محکمہ بنایا جا سکتا ہے۔ سرکاری سکولوں کے ٹیچر، پٹواری اور دن بھر میں صرف چند منٹ ہسپتالوں میں گزارنے والے بڑے ڈاکٹر جس لیڈر کو گالیاں دیں، اسے وہ تمغہ بنا کر سینے پر سجا لینا چاہئیں۔ عمران خان کی غلطیوں بلکہ سیاسی کوتاہیوں پر شدید تنقید کی جا سکتی ہے، مگر اس کے مثبت پہلوئوںکو سراہنا چاہیے۔ تنقید منصفانہ ہونی چاہیے۔ ایسا اگر ہو تو قارئین کا ردعمل بھی زیادہ منطقی اور میچور ملے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں