قومی سیاست، کون کہاں کھڑا ہے ؟

ہماری قومی سیاست اس وقت دو واضح حلقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک طرف حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کے قائد میاں نواز شریف ہیں جبکہ ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنی تمام تر خوبیوں، خامیوں سمیت تن کر کھڑے ہیں۔ بنیادی تقسیم انہی دو کے درمیان ہے۔ پیپلزپارٹی مستقبل کی انتخابی سیاست کے مین رائونڈ سے باہر ہو چکی ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ تک محدود ہے۔ وہاں بھی جیت پائے گی یا نہیں، ایک الگ سوال ہے۔ پارٹی قیادت کو اس کا غالباً اندازہ ہوچکا ہے، اس لئے سندھ میں طاقتور الیکٹ ایبلزکو ساتھ ملائے ہوئے ہے۔ اگلے الیکشن میں پیپلزپارٹی روایتی انداز سیاست اپناتے ہوئے صوبائی حکومت بنانے کی کوشش کرے گی؛ تاہم اس کی کامیابی یا ناکامی کا مدار دو باتوں پر ہے۔ ایک، سندھ میں منصفانہ انتخابات ہو پاتے ہیں یا نہیں، دوسرے صوبائی سطح پر انٹی پیپلزپارٹی شخصیات متحد ہوکر انتخابی اتحاد بنا پائیں گی؟ پنجاب میں پیپلزپارٹی کا کھیل ختم ہوچکا۔کوئی غیر معمولی واقعہ ہی اسے دوبارہ میدان میں لا سکتا ہے۔ سنٹرل پنجاب میں تو پارٹی کی تدفین کے بعد اس کے قل بھی ہو چکے۔ جنوبی پنجاب میں صرف ضلع رحیم یار خان میں مقابلہ مخدوم احمد محمود اوران کے مخالفین کے مابین ہوگا۔ احمد محمود جیت گئے تو پیپلزپارٹی کو دو تین قومی اور چند صوبائی اسمبلی کی نشستیں مل جائیںگی۔ باقی صوبے میں کسی جگہ کوئی الیکٹ ایبل اپنے زور پر سیٹ لے جائے تو الگ بات، ورنہ ہر طرف تاریکی نظر آتی ہے۔
اصل لڑائی میاں نواز شریف اور عمران خان میں ہے۔ میاں صاحب اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ انہیں وافر تعداد میں اتحادی دستیاب ہیں۔ مولوی فضل الرحمن تو خیر ان کے ساتھ کندھا ملاکر کھڑے ہیں۔ وہ ساتھ دینے کی قیمت وصول کرنے کے ماہر ہیں، لیکن نواز لیگ ان کی فطری اتحادی بھی بنتی ہے۔ تحریک انصاف نے ان کے ساتھ زیادتی بھی تو کم نہیں کی۔ مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور لکی مروت کو اپنا مضبوط مستقر سمجھتے تھے۔ مئی تیرہ کے انتخابات میں وہ دو نشستوں سے کامیاب ہوئے۔ ضمنی انتخاب میں مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ شہر کی سیٹ خود رکھی اور باقی دو سے اپنے بھائی اور بیٹے کو کھڑا کر دیا۔ تحریک انصاف نے ظلم یہ کیا کہ دونوں سیٹیں لے اڑی۔ ایسے میں عمران خان انہیں یہودیوں کا ایجنٹ ہی نہیں خود یہودی نظر آنے لگتا ہے۔ مولانا کی رعایت سمجھیں کہ عمران خان کو صرف ایجنٹ قرار دیا،کوئی دوسرا فتویٰ لگا دیتے توکوئی ان کا کیا بگاڑ لیتا؟
بلوچستان میں پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کو پہلی باراقتدار میں باقاعدہ حصہ ملا۔ محمود خان اچکزئی نے زندگی کا طویل عرصہ اپوزیشن میں گزارا، بڑھاپے میں شریک اقتدار ہوئے تو جی بھر کے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ بھائی کو گورنر بنایا، جس کا کسی نے نام سنا تھا نہ سیاست میں ان کی ایک آنے کی کنٹری بیوشن تھی۔ وہ پارٹی رہنما جو دو دو تین تین عشروں سے قید وبند جھیل رہے تھے، ان کی طرف مڑ کر نہ دیکھا۔ اہل خانہ پر اسمبلی کی نشستیں بھی جی بھر کر برسائیں۔ 
نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پہلی بار وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے، مستقبل کی امید بھی برقرار ہے۔ سو بلوچستان کے پشتون اور بلوچ قوم پرستوں(کے ایک بڑے حلقے) نے میاں نواز شریف کا ساتھ قبول کر لیا ہے۔ اے این پی بھی ایک طرح سے حکومت کے ساتھ ہے، میاں صاحب جب ضرورت محسوس کریںگے، ایک وفاقی وزارت دے کر انہیں باقاعدہ اتحادی بنا لیں گے۔ شیرپائو صاحب صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کے اتحادی ہیں، اس لئے مرکز میں کھل کر حکومت کا ساتھ نہیں دے پاتے، مگر کسی بھی فیصلہ کن مرحلے میں وہ ادھر ہی جائیں گے۔ 
اپوزیشن کا کردار بنیادی طور پر عمران خان کے سپرد ہے، یہ بوجھ انہی کو اٹھانا ہے۔ ان کے ساتھ کسی حد تک جماعت اسلامی کھڑی ہوسکتی ہے جس کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ اس کا لو اینڈ ہیٹ (Love and Hate) کا تعلق ہے۔ تحریک کے ایجنڈے اور اس کے بیشتر نعروں سے جماعت متفق ہے۔ اسلام آباد کے جلسے میں عمران خان کی تقریر سن کر جماعت کے ایک دوست نے کمنٹ کیا، یہ تو امیر جماعت کی تقریر ہے۔ وہ شائد یہ کہنا چاہتے ہوںکہ عمران خان نے سراج الحق کا بیانیہ اپنا لیا ہے، مگر عمران تو یہ باتیں کئی برسوں سے کر رہا ہے۔ اصل میں دونوں پارٹیوں کا بیانیہ ملتا جلتا ہے۔ جماعت کے صالحین البتہ عمران خان کے جلسوں کے ناچ گانے کو ناپسند کرتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے جماعت کے ووٹ بینک کا بڑا حصہ اڑا لیا۔ لاہور اور پنجاب کے کئی شہروں میں جماعت کا ووٹ بینک تحلیل ہو کر تحریک انصاف کے پاس چلا گیا ہے۔ جماعت اسلامی دو اور حوالوں سے بھی محتاط ہے۔ وہ کسی ایسے کھیل میں شامل نہیں ہونا چاہتی جسے پوری طرح جانتی نہ ہو۔ رائے عامہ کے حوالے سے بھی جماعت غیر معمولی حساس ہے۔ ایک طرف ان کی خواہش ہے کہ پاپولر بیانیہ کے ساتھ رہا جائے، کرپشن مخالف ایجنڈے کو لیڈ کیا جائے، نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچا جائے اور دوسری جانب وہ سسٹم کو گرانے کا الزام بھی نہیں لینا چاہتی۔ وہ اپنے اوپر پھر اسٹیبلشمنٹ کی بی ٹیم ہونے کا دھبہ نہیں لگوانا چاہتی۔
آخری تجزیے میں عمران خان اکیلے سوار ہیں۔ ان کے مقسوم میں یہی رقم ہے۔ ان کا ایجنڈا دوسروں سے مختلف ہے، وہ دوسری تمام جماعتوں کو چیلنج کرتے اور سیاسی نظام میں جوہری تبدیلیاں لانے کی بات کرتے ہیں، جو روایتی سیاسی جماعتوں کو سوٹ نہیں کرتیں۔ ملین ڈالر کا سوال پھر یہی ہے کہ اس وقت متحدہ اپوزیشن میں سب اکٹھے کیسے ہوگئے ہیں؟ خصوصاً ایم کیو ایم ، پیپلزپارٹی جیسی جماعتیں جو تحریک انصاف کی فطری حریف ہیں، موجود ہ سیٹ اپ چلنے میں جن کا مفاد ہے، وہ کس طرح سرکش گھوڑے کا سا اضطراب رکھنے والی تحریک انصاف کے ساتھ کھڑی ہوگئیں؟ کے پی کے میں تحریک انصاف کے ہاتھوں زخم خوردہ اے این پی کس طرح خوشی خوشی متحدہ اپوزیشن میں شامل ہوگئی؟ 
اس کے دوتین ممکنہ جواب ہوسکتے ہیں۔ سادہ بلکہ بھولپن کی حد تک سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ پاناما لیکس کے بعد رائے عامہ جس طرح کرپشن کے خلاف یکسو ہوئی ہے، یہ تمام سیاسی جماعتیں کرپشن مخالف موقف اپنانے پر مجبور ہو چکی ہیں۔کوئی چاہے تو اس پر یقین کر لے جو نہ کرنا چاہے، اس کے لئے دو تھیوریز بلکہ سازشی تھیوریز موجود ہیں۔ پہلی یہ کہ پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم ، اے این پی وغیرہ دانستہ تحریک انصاف کے ساتھ ملی ہیں تاکہ اپوزیشن کی سیاست ہائی جیک کر کے عمران کے ہاتھ سے ڈور لی جا سکے۔ اندر سے یہ حکومت کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہیں اور فیصلہ کن مرحلے میں اسے فائدہ پہنچائیں گی۔ یہی دیکھ لیں کہ تحریک انصاف وزیراعظم کے استعفے پر فوکس کئے ہوئے تھی، متحدہ اپوزیشن نے یہ مطالبہ ہی کھوہ کھاتے ڈال دیا۔
دوسری سازشی تھیوری زیادہ دلچسپ اور خطرناک ہے۔ اس کے مطابق یہ اسی طرح کا متحدہ اپوزیشن پر مشتمل اتحاد ہے جو نوے کے عشرے میں حکومتیں گرانے کے لئے بنایا جاتا تھا۔ البتہ اس بار کوئی حقہ پینے اور شعر پڑھنے والا نوابزادہ نصراللہ نظر نہیں آرہا۔ اس تھیوری کے مطابق آخر کیا وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی جس کے خود اپنے لیڈروں کے نام پاناما لیکس میں موجود ہیں، وہ اسی کی بنیاد پر احتساب کا عمل تیز کرنے کے لئے کوشاں ہے؟ کیا ایسا تو نہیں کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم مختلف وجوہ کی بنا پر اس طرح دیوار سے لگ گئی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کھیل میں شامل ہونے پر مجبور ہیں؟ اس تھیوری کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اگر میاں نواز شریف واقعی دبائو سے نکل گئے ہیں تو پھر وہ اس قدر تنائو اور جارحانہ موڈ میں کیوں ہیں؟ انہیں تو ریلیکس ہو کر بیٹھ جانا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ ملک بھر کے دورے کرتے پھر رہے ہیں، جیسے کچھ عرصے بعد الیکشن لڑنا پڑے گا۔ ایسا کیوں ہے؟
سوال آپ کی خدمت میں پیش کر دیے، حتمی جواب میرے پاس نہیں، آنے والا وقت ہی کسی ایک تھیوری پر مہرتصدیق ثبت کرے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں