جمہوریت کا مقدمہ ؟

ہمارے ہاں سب سے مضبو ط مقدمہ جمہوریت کا ہے اور سب سے کمزور بھی یہی ہے۔ کوئی شخص جمہوریت کا مقدمہ لڑنا چاہے تو دلائل کی کمی نہیں۔ اگرچہ پاکستان میں ایک محدود حلقہ ایسا بھی ہے، جس کے نزدیک جمہوریت کفریہ نظام ہے یا یہ غیر اسلامی تصور ہے؛ تاہم ان کے پاس کوئی متبادل موجود نہیں سوائے چند گھسے پٹے جذباتی جملوں کے۔ یہ حقیقت ہے کہ مغرب نے انسانیت کو پر امن انتقال اقتدارکے باب میں اب تک یہی سب سے بہتر ماڈل دیا ہے۔ اس ماڈل کا بنیادی اصول یہ ہے کہ عوام کے نمائندے مخصوص مدت کے لئے چنے جائیں، کارکردگی دکھائیں گے تو دوبارہ بھی منتخب کر لئے جائیںگے، ورنہ ہار ان کا مقدر بنے گی۔ اس فریم ورک میں ایک بنیادی خامی ہے۔۔۔۔پارلیمنٹ کوملنے والے لامحدود اختیارات۔ پاکستان جیسی اسلامی ریاستوں نے اس کا حل ڈھونڈا، پابندی عائد کر دی کہ شریعت کے منافی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ بھارت جیسے ممالک میں جوڈیشل ریویوکے ذریعے سپریم کورٹ نے یہ چیک اینڈ بیلنس برقرار رکھا۔ بھارتی سپریم کورٹ بھارتی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے کئی ایکٹ اور آئینی ترامیم منسوخ کر چکی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بیسک سٹرکچر ڈاکٹرائن کا یہ نظریہ دیا کہ آئین کا ایک بنیادی سٹرکچر ہے جسے خود پارلیمنٹ بھی تبدیل نہیں کر سکتی۔ بھارتی عدالتوں کے مطابق پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا حق ہے، اس کو تباہ کرنے کا نہیں۔ مثلاً اگر بھارتی پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے بھارت میں سیکولرازم ختم کرنا چاہے تو سپریم کورٹ اس ترمیم کو ختم کر دے گی۔
ان قدغنوں نے جمہوریت کو بہتر بنایا۔ سیاسی آمریت کا دروازہ یوں بند ہوجاتا ہے۔ ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ جمہوریت دوسرے کسی بھی نظام سے بہتر ہے۔ سادہ سی بات ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں یعنی سیاستدانوںکو حکومت کرنا چاہیے۔ یہ ان کا حق ہے اور ذمہ داری بھی۔ ان کی تربیت اسی حوالے سے ہے، وہ لوگوں سے وعدے کر کے آتے ہیں اور ان پر ڈیلیورکرنے کا دبائو رہتا ہے۔ حکومت کرنا فوج کا کام نہیں۔ ان کی تربیت بالکل الگ نہج پر ہوتی ہے۔ ان کا اقتدار میں داخلہ ہمیشہ ناجائز اور غیر آئینی ہوتا ہے۔
دراصل جمہوریت دنیا بھر کے اجتماعی شعورکا حصہ بن چکی ہے۔ فوجی آمریت اب کسی کے لئے قابل قبول نہیں۔ اپنے مفادات کے تابع امریکہ جیسی سپرپاور آمروںکے ساتھ معاملات چلاتی ہے اور چلاتی رہے گی۔ آمروں کے لئے مگر اپنے اقتدار کو جائز ثابت کرنا ہمیشہ مسئلہ رہتا ہے۔ اس کی خاطر انہیں کئی ایسے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں، جو ان کے اقتدارکی طوالت کا باعث توبن جاتے ہیںمگر ملک وقوم کو ان کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔کبھی جعلی ریفرنڈم، کبھی کنگز پارٹی توکبھی غیر جماعتی فتنہ انگیز انتخابات۔ ہم پاکستانی ان ڈراموں کے مختلف رنگ دیکھ چکے ہیں اور انہیں بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے آخری تجزیے میں جمہوریت ہی ہماری پہلی اور آخری آپشن ہے۔ پاکستان کا مستقبل اس وقت نازک موڑ پر ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ بحیثیت قوم ہم اپنے معاملات چلانا نہیں جانتے، مستقبل کا ویژن ہمارے پاس نہیں اور حال سدھارنے کے طریقوں سے نابلد ہیں۔ خوش قسمتی سے چائنا پاک اکنامک کاریڈور کے ذریعے ہمارے لئے ایک ایسا دروازہ کھلا ہے جس سے ترقی، خوشحالی اور مالی آسودگی ہمارے آنگن میں اترسکتی ہے۔ سی پیک کے ذریعے ہم انٹرنیشنل اکانومی سے جڑ سکتے ہیں۔ خوش قسمتی سے چین کے گرینڈ اکنامک ڈیزائن کی بدولت ہمیں یہ موقع مل رہا ہے۔ ہمیں یہ تاریخی موقع ہرگزضائع نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے لئے بنیادی شرط ملک میں سیاسی استحکام ہے۔ سیاسی عدم استحکام معیشت کا دشمن ہے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کئی عالمی قوتیں سرگرم ہیں۔ ان سازشوں کو ناکام بنانے کی خاطر ملک میں جمہوریت کا تسلسل اور سیاسی استحکام لازم ہے۔ یہ سب دلائل جمہوریت یا یوںکہہ لیجئے کہ پاکستان میں رائج موجودہ جمہوری نظام کو چلانے کا مضبوط جواز فراہم کرتے ہیں۔ 
اس کے برعکس بھی ایک باقاعدہ مقدمہ موجود ہے۔ وہ موجودہ نظام کو رد کرتا اور اس پر سوالات اٹھاتا ہے۔ جو نکات اٹھائے جاتے ہیں، انہیں بھی رد کرنا آسان نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جو جمہوریت پاکستان میں رائج ہے، اسے نام نہاد ہی کہاجائے گا۔ جمہوری نظام کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، یہ بنیاد یہاں بہت کمزور ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ چھ سات گھرانے ہیں جو اپنے اپنے گروپ چلا رہے ہیں۔ کیا شریف خاندان کے بغیر مسلم لیگ ن برقرا ر رہ سکے گی؟ بھٹو خاندان جو اب زرداری بھٹو خاندان بن چکا ہے، اس کے بغیر پیپلزپارٹی ختم ہو جاتی ہے۔ تحریک انصاف تو خیر ابھی تک عمران خان کا فین کلب ہے، خان سے ہٹ کر پارٹی کا تصور ہی محال ہے۔ اسی طرح چودھری برادران کے بغیر مسلم لیگ ق، اسفند یار ولی خاندان کے بغیر اے این 
پی، شیرپائوکے بغیر ان کی پارٹی، پیر پگاڑا کے بنا فنکشنل لیگ، مولانا فضل الرحمن سے ہٹ کر جمعیت علمائے اسلام ف کا وجود قائم نہیں رہ سکتا۔ جے یو آئی کی بنیا چونکہ مسلک ہے، اس پیجھے مدارس اور علما کی قوت ہے، اس لئے کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہ جائے گی۔ باقی سیاسی جماعتوں کو اس طرح کی بنیاد میسر نہیں۔ ہاں، جماعت اسلامی کے اندر جمہوریت ہے۔ قاضی حسین احمد طویل عرصہ امیر جماعت رہے، مگر آج ان کی اولاد جماعت میں نمایاں نہیں۔ خود بانی جماعت سید مودودی کی اولاد جماعت میں اوپر نہیں آ سکی۔ یہ واحد پارٹی ہے جودھڑے بندی سے پاک تواتر سے الیکشن بھی کراتی ہے۔ دوسری تمام جماعتوں میں الیکشن کے نام پر سلیکشن ہے۔ تحریک انصاف الیکشن کے چکر میں دھڑے بندی بڑھ جانے کے خطرہ سے دوچار ہے۔کسی سیاسی جماعت میں ممکن نہیںکہ قیادت کے کسی فیصلے سے انحراف یا اس پر تنقید کرکے کوئی رہنما یا کارکن پارٹی کا حصہ رہ سکے۔ جمہوریت میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں پہلے اپنے اندر جمہوریت لاتی ہیں، کارکنوں کی تربیت کرتی اور پھر عوام کی طرف رخ کرتی ہیں۔
بلدیاتی نظام کسی بھی جمہوریت کی نرسری ہے۔ لیکن ہمارے رہنمائوںکو اس سے شدید نفرت ہے۔ سیاستدان بلدیاتی ادارے بنانا ہی نہیں چاہتے۔ آئینی پابندی ہونے کے باوجود کئی برس الیکشن نہیں کرائے گئے۔ سپریم کورٹ کے دبائو پر الیکشن تو ہو گئے لیکن کئی مہینے گزرنے کے باوجود مئیرز اور دیگر عہدوں کا انتخا ب نہیں کرایا گیا۔ یہ رویہ اس صورت میں ہے کہ حکمرانوں کے وفادار اور ان کی مرضی کے لوگ جیتے ہیں، وہ ان کو بھی تھوڑے سے اختیارات دینے پر آمادہ نہیں۔ ادھر الیکشن کا عمل جس کے ذریعے بلدیاتی عہدیدار منتخب ہونا باقی ہیں، شرمناک حد تک کمزور اور ناکارہ ہے۔ الیکشن بے پناہ پیسے کا کھیل بن چکا ہے۔ نچلے طبقات تو دورکی بات ہے، مڈل کلاس بلکہ اب تو نارمل اپرکلاس کا کوئی شخص بھی الیکشن لڑنے کا تصور نہیں کر سکتا۔ قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں دس پندرہ کروڑ کے اخراجات معمولی بات ہے۔ یونین کونسل کے انتخاب میں بھی کروڑ تک معاملہ جا پہنچا ہے۔ یوں یہ ایسا ڈھونگ اور ڈرامہ بن گیا ہے جس کے ذریعے بے پناہ دولت رکھنے والا امیدوار ہی جیت سکتا ہے۔ جو شخص پانچ دس کروڑ لگا کر جیتے گا، وہ ظاہر ہے پہلے اپنا خرچہ نکالے گا، پھر اگلے انتخاب کے لئے پیسے بنائے گا، اس کے بعد اسے خیال ہوگا کہ اتنی زحمت کی توکچھ منافع اس کا بھی ہوجائے۔ نتیجہ وہی ہے جو بلوچستان میں سامنے آیا۔ ڈیڑھ ارب کا پراجیکٹ تھا، اس کا نصف حصہ بوریوں بھرا صوبے کے ٹاپ بیوروکریٹ کے گھر سے نکلا۔ مشیر خزانہ جو سنا ہے کہ دس دس لاکھ کا موبائل فون استعمال کرتا ہے، غائب ہے۔ بلوچستان کے ہر رکن اسمبلی کو تیس چالیس کروڑ ہر سال ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے ملتے ہیں۔ اخباری رپورٹس کے مطابق بیشتر جگہوں پر سو فیصد ہی ہڑپ کر لیا جاتا ہے۔ پنجاب ،سندھ، کے پی کے میں بھی حالات کم وبیش ویسے ہی ہیں۔ حالات پچھلے پانچ سات برسوں میں بدترین ہو چکے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کرپشن اور سیاست ایک دوسرے سے منسلک ہوچکی ہے۔ ایسی صورت میں بنیادی سوال یہی اٹھتا ہے کہ کس طرح ملک میں جمہوریت چلتی رہے اور کرپشن کا خاتمہ بھی ممکن ہوسکے۔ یہ قطعی طور پر آسان سوال نہیں، اس کا جواب مگر ہمیں کھوجنا ہوگا، ہر قیمت پر۔ پاکستان میں جمہوریت کے مقدمہ کا دار و مدار اسی سوال اور اس کے جواب پر ہے۔ اگلی نشست میں اس بحث کے دیگر پہلوئوں پر بات ہوگی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں