جمہوریت چاہیے، مگرکرپشن نہیں

کسی ہوش مند شخص کو اس میں شک نہیں کہ معاشرے اور ملک کو ترقی دینے کے لئے جمہوریت لازم ہے ۔ انسانی شعور جس سطح تک پہنچ گیا، اب اس کیلئے بادشاہت، فوجی آمریت یا اس سے ملتے جلتے ماڈلز کشش نہیں رکھتے۔جس طرح آج کے زمانے میں کسی کو غلام یا لونڈی بنانے کی بات نہیں کی جا سکتی، ایسا کہنے والے کی عقل پر شک کیا جائے گا، بالکل اسی طرح جمہوریت سے ہٹ کر کوئی بھی دوسرا ماڈل مہذب دنیا کے لئے قابل قبول نہیں۔کسی کو اچھا لگے یا برا، یہ حقیقت ہے۔
دنیا کے جن ممالک میں ابھی تک فوجی آمریتیں یا بادشاہت چل رہی ہے،وہاں کے سماج میںنہایت سنجیدہ قسم کے مسائل موجود ہیں۔کہیں پر تعلیم کی کمی اور شدید پسماندگی تو کسی جگہ ابھی تک پرانا قبائلی نظام چل رہا ہے۔ لوگ مہذب دنیا کے اثرات سے ناواقف ہیں یا پھر وہاں ایسی شدید نظریاتی تقسیم پیدا ہوئی ،جس سے فائدہ اٹھاکرکوئی طالع آزما اقتدار پر مسلط ہوگیا۔ افریقی ممالک سے عرب ریاستیں اور مصر کے ماڈلز کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ چین کی مثال مختلف ہے، جہاں یک جماعتی نظام کی شکل میں نیم آمریت قائم ہے۔ سنگل پارٹی چینی ماڈل کے لئے مگر ضروری ہے کہ اس جماعت نے کامیاب انقلاب بپا کیا ہو۔ انقلابی قوت اور اس کی وجہ سے عوام میںپیوست جڑوں کے باعث ہی یہ ماڈل چل سکتا ہے۔کسی اور جگہ اس تجربے کو دہرانا ممکن نہیں۔
ان تمام مثالوں سے مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ پاکستان جیسے کثیرالنسلی، متنوع ملک ،جس کی عمر محض پون صدی ہے،جس کا ایک حصہ الگ ہوچکا ، ایسے ملک کے لئے جمہوریت لازم ہے۔ایسا نظام جس میں کوئی فرد واحد اقتدار پر قابض نہ ہو، مشاورت سے معاملات چلائے جائیں۔ مختلف قومیتیوں کے لوگ سسٹم میںسٹیک ہولڈرہوں اور پرامن انتقال اقتدار رائج ہو۔ کسی بھی قسم کی آمریت یہاں نہیں چل سکتی۔ ایسی کوئی بھی آپشن چند برسوں سے زیادہ قابل عمل نہیں ۔ ہم نے ایسا چار بار کر کے دیکھ لیا۔ ہر بارسیاسی عمل نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے۔پہلے سے ابتر سیاسی کلچر سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ درست کہ ہمارے ہاں دستیاب سیاسی لاٹ دیکھ کر جمہوریت اور سیاست سے نفرت ہونے لگتی ہے۔سیاسی لیڈروں اور ان کے گماشتوں کے بیانات دیکھ کر ابکائی آنے لگتی ہے۔ مجبوری یہ ہے کہ ہمیں انہی سے کام چلانا پڑے گا۔متبادل قیادت تیارہونے میں برسوں بلکہ عشرے کا عرصہ لگتا ہے۔
ہمارے ہاں انقلابی سوچ رکھنے والے بعض لوگ ایک خوفناک لہورنگ انقلاب کے تصور میں رومانس محسوس کرتے ہیں۔ عوامی سطح پر سسٹم کو اڑا دینے، اسے ملیا میٹ کرنے کی سوچ کو پسند کیا جاتا ہے ۔ ایسے شدت پسندوں کی بھی کمی نہیں جن کے خیال میں سیاسی افق کو موجودہ عناصر سے ''صاف‘‘ کر دیا جائے ، یہ سب ''گند‘‘ ختم ہوجائے تو پھر ایک نسبتاً بہتر اور شفاف سیاسی کلچر پیدا ہوسکتا ہے۔ یہ سب بھولپن کی حد تک سادگی پر مبنی مفروضے ہیں۔ عملی طور پر ایسا ہونا ممکن نہیں۔ دنیا میں کہیں بھی خونیں انقلاب نام کی کسی شے سے ترقی نہیں ہوئی۔ جن ممالک میں جمہوریت مستحکم ہے ،وہاں بتدریج تبدیلی آئی ۔ اداروں کو مضبوط اور جمہوری روایات کو ناقابل شکست بنانے سے یہ کرشمے ممکن ہو پائے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ٹھیریے۔ یہاں پر ایک نکتہ ایسا ہے، جسے سمجھے بغیردرست نتیجے تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلی بتدریج آتی ہے، نظام مضبوط اور توانا ہوتے وقت لیتا ہے۔ اس بات کو مان لیتے ہیں۔ ایک اور چیز مگر انتہائی ضروری ہے۔ وہ ہے درست سمت میں سفر کا آغاز۔سمت اگر غلط ہوگی تو پھرمنزل کبھی نہیں مل پائے گی۔ ملک میں جمہوریت چلانا اور مستحکم کرنا ہے تو پھر اس میں اصلاحات کرنا ہوں گی۔سب سے پہلے ہمیں سیاست سے کرپشن کو پاک کرنا ہوگا، گورننس ماڈل کو کرپشن فرینڈلی نہیں بلکہ اینٹی کرپشن بنانا پڑے گا۔ بامعنی، ٹھوس اصلاحات کے بغیر جتنا مرضی سیاسی نظام چلتا رہے، اسمبلیاں اپنی مدت بار بار پوراکرتی رہیں ، کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ کی ایسی ہر مدت قومی ادارو ں کو مزید تباہ ، عوام کو بے حال اور معیشت کو بے دم کر دے گی۔ 
جناب آصف زرداری اس سوختہ نصیب قوم پر 2008ء میں مسلط ہوئے۔ پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر انہوں نے اپنے ناقدین کا منہ بند کر دیا تھا۔ان کے مداحین اور بعض مخالف بھی یہ سوچنے لگے کہ تاریخ نے انہیںملک کے سب سے بڑے منصب پر بٹھایا ہے، وہ اس کی قدر کریں گے۔ پانچ برس بعد جب حکومت ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ ملک پر بیس پچیس ارب ڈالر کا بیرونی اور ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ کا اندرونی قرضہ چڑھ چکا ہے۔ سٹیل ملز سے سول ایوی ایشن اور پی آئی اے تک کتنے اہم قومی ادارے تباہ حال ہوچکے اور 
؎ 'دن پھرے ہیںفقط وزیروں کے / ہر بلاول ہے دیس کا مقروض‘ ... والا معاملہ ہوا۔ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ پارلیمنٹ کی ایسی مدت پوری کرنے سے ملک وقوم کو کیا فائدہ پہنچا؟
ایک جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی بری کارکردگی کی سزا بھگت لی، پارٹی کا پنجاب سے صفایا ہوگیا، وہ الیکشن ہارگئی۔اس بات سے اتفاق کر لیتے ہیں۔ واقعی یہ جمہوریت کا ایک ثمر ہے کہ انتقال اقتدار پرا من ہوا، احتجاجی تحریک چلا کر حکومت ہٹانا نہ پڑی، دوسرا جس نے پرفارم نہ کیا، وہ ہار گیا۔اصل سوال مگر یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی اس ہار سے ملک وقوم کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کیسے ہوگئی ؟ اربوںڈالر کا قرضہ ملک پر لادا گیا، کرپشن سے ادارے تباہ ہوئے، ان کی بحالی وتعمیر پر مزیداربوں کھربوں لگانے پڑے، ان اخراجات کی وجہ سے ملک آئی ایم ایف کے شکنجے میں جا پھنسا اور پھر عوام کو کئی مزید ٹیکسز کا سامنا کرنا پڑا۔ معاشی ترقی کا خواب چند سال پیچھے چلا گیا۔ سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ دوسرے ''کاریگر‘‘ سیاستدانوں کو یہ پیغام ملا کہ جی بھر کو ملک کو لُوٹو، کچھ نہیں ہونا۔ اربوں کما لو، زیادہ سے زیادہ ایک الیکشن ہی ہارنا ہے ، کوئی بات نہیں۔ قوم اور میڈیا کا حافظہ کمزور ہے، دوچار سال بعد دوبارہ جیت جائیں ، پھر وارے نیارے ہوں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ایک کرپٹ حکومت کا احتساب کے شکنجے سے چھوٹ جاناپورے سیاسی نظام کے لئے خطرہ بن جاتا ہے ۔ 
اس لئے جمہوریت کا بھاشن اپنی جگہ، ہم سب جمہوریت چاہتے ہیں، آمریت کے نقصانات سے واقف ہیں، مگر بھائی لوگو! پہلے کرپشن کو سیاست سے الگ کر لو۔ ملک کو لوٹنے والوں پر یہ بات واضح ہوجائے کہ ان کے لئے بچنا ممکن نہیں ہوگا۔ جو ملک وقوم کو لوٹے گا، اس سے تمام کھایا پیا نکالا جائے گا اورسیاست تو دور کی بات ہے، اس کی اگلی زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑتی گزرے گی۔ کرپشن کے خلاف سخت ترین قوانین بنا کر ان پر سفاکی کے ساتھ عمل کئے بغیر جمہوریت چل سکتی ہے نہ ہی ملک ترقی کر پائے گا۔ ٹھیک ہے کہ تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ ہم سمجھ رہے ہیں اس بات کو۔ سیاسی خاندانوں کو بھی چند برسوں کے لئے برداشت کر لیتے ہیں، مگر کرپشن کے لئے زیرو ٹالرنس کرنا پڑے گی۔ جس جس نے ملک لوٹا ہے، اس کابے رحم اوربلا امتیاز احتساب کیا جائے۔ وہ حکمران جماعت سے ہو یا اپوزیشن سے، سٹیٹس کو کی علمبردار سیاستدان ہو یا تبدیلی کا نعرہ لگانے والا لیڈر... ترین ہو یا شاہ، مولوی ہو یا وکیل، خان ہو یا بلوچ، پنجابی ہو یا سرائیکی، سندھی ہو یا پشتون، ہر ایک سے حساب لیا جائے۔ آدھی، پون، پائو بھرجمہوریت برداشت کی جا سکتی ہے، اس امید پر کہ کچھ عرصے بعد یہ بہتر ہوجائے گی، مگر کرپٹ جمہوریت کے لئے کوئی جگہ نہیں۔احتساب اوربلا امتیاز احتساب ۔ آگے بڑھنے اور ملک میں جمہوریت برقرار رہنے کی اب یہ واحد آپشن اور دلیل بن چکی ہے۔ 
اس جواب سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسااحتساب کرے گا کون؟ اس پر اگلی نشست میں بات کرتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں