بہتری کے لئے سسٹم بنانے پڑیں گے

ہمارے ہا ں ہر وقت صف ماتم بچھانے اور کبھی اپنے آپ ، کبھی دوسروں پر لعنت ملامت کا ایک متواتر سلسلہ جاری رہتا ہے کہ اب تو ایسے نوحے زبانی یاد ہوچکے ہیں۔ مثلا بجٹ تقریر سے پہلے ادارتی میٹنگ میں ایک سینئر سے بات ہو رہی تھی،مسکرا کر انہوں نے کہا کہ بجٹ ردعمل میں ایک لفظ بار بار استعمال ہوگا ، اپوزیشن کے رہنما اور کارکن بار بار کہیں گے کہ یہ بجٹ لفظوں کا ''گورکھ دھندا‘‘ہے۔کسی کو گورکھ دھندے کے مفہوم یا لفظی مطلب پتہ ہو یا نہ ہو، یہ اصطلاح ضرور برتی جائے گی، ہر سال ایسا ہی ہوتا ہے، اس بار بھی ہوا۔کرکٹ ٹیم کا اعلان ہوا تو حسب معمول یہ ماتم ہوتا رہا کہ سلیکشن غلط ہوئی، فلاں کو شامل نہیں کیا گیا، فلاں کو کیوں لے کر جا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مختلف مواقعوں کے حساب سے مختلف اقسام کے رٹے رٹائے منفی ردعمل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 
ایسا ہی ایک ردعمل ہر سال رمضان میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ روزوں سے پہلے ایک رٹی رٹائی تقریر سننے، پڑھنے کو ملتی ہے، ''دیکھیں امریکہ اور یورپ میں عیسائی یا لادین ہو کر وہ کیسے اپنے مذہبی تہوار کرسمس پر چیزیں سستی کر دیتے ہیں، جبکہ ہمارے مسلمان اپنے مذہبی تہوار رمضان میں ہر چیز مہنگی کر دیتے ہیں، مسلمانوں میں کوئی اخلاقیات نہیں رہی، دوسرے مذاہب والوں پر ہمیشہ تنقید کرتے رہتے ہیں، اپنے آپ کو نہیں دیکھتے، وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘یہ وہ مخصوص بیانیہ ہے، جسے ہمارے بعض ''حساس دل‘‘کالم نگار بھی استعمال کرتے ہیں، ٹی وی اینکر ز بھی کماحقہ اس سے استفاد ہ کرتے اور رہی سہی کسر سوشل میڈیا کے مجاہدین پوری کر ڈالتے ہیں۔ اس بار اور اور ٹکڑے کا اضافہ ہوگیا،سوشل میڈیا پر یہ ایک طرح سے ٹرینڈ چل رہا ہے، ''یہودیوں کا کولڈ ڈرنک دس روپے سستا ہوجائیگاجبکہ مسلمانوں کی کھجور پچاس روپے فی کلو مہنگی ملے گی۔‘‘ پہلے اس آخری بات کو لیتے ہیں۔ اول تو پاکستان میں فروخت ہونے والے کولڈ ڈرنک کو اب یہودیوں کا ڈرنک نہیں کہا جا سکتا،یہاں کے مشہوربیوریجز پاکستانی سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں اور نفع نقصان دونوں کا بیشتر حصہ انہی کو جاتا ہے، دوسرا کھجورتو اب یہودی بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں، اسرائیل نمایاں ایکسپورٹرز میں سے ایک ہے۔ 
جہاں تک مغرب میں عیسائیوں کاکرسمس پر چیزیں سستے کرنے کے اچھے رواج اور مسلمانوں کا رمضان میں چیزیں مہنگی کرنے کی بری عادت کا تعلق ہے، اس پر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اصل نکتہ سمجھ آ جائے گا۔ مشرق ہو یا مغرب، مسلمان ہوں یا غیرمسلم ،اصل بات سسٹم بنانے کی ہے۔ جن ممالک میں باقاعدہ سسٹم موجود اور اچھی طرح کام کر رہا ہے، وہاں پر دکانداروں، تاجروں کی جرات نہیں کہ ایک بھی چیز مہنگی کر سکیں۔ جہاں پر ہماری طرح سسٹم برائے نام موجود ہے، انتظامیہ کرپٹ ، ویژن لیس اور چیکنگ کا نظام بالکل گل سڑ چکا ہے، وہاں پر ہر کوئی من مانی کرتا ہے۔ اس میں کیا مسلمان، کیا عیسائی اور کیا ملحد... کم وبیش سب ایک جیسے ہیں۔ مثال کے طور پر اٹلی یورپ ہی کا ملک ہے، ہزاروں سال قدیم تہذیب و تمدن کا وارث، دنیا کے مشہور نوادرات، آثارقدیمہ اور خودمسیحی دنیا کے چند سب سے بڑے اور مشہور چرچ وہاں ہیں۔ نظام حکومت الا ماشااللہ ان کا ہماری طرح ہے۔ نتیجہ مغربی دنیا کا حصہ ہونے، عیسائی ہونے اور یورپی یونین کا حصہ بن چکنے کے باوجودوہ تمام خرابیاں جو ہمارے جیسے ممالک میں ملتی ہیں، وہاں بھی پائی جاتی ہیں۔ سٹریٹ کرائم ٹھیک ٹھاک ہیں، دھوکہ دہی، بے ایمانیاں، فراڈ سے اچھی کی جگہ دو نمبر اشیا بیچ دینا، دکھاوے کی نمائشی سیل اور غیرملکی سیاحوں کو ہر طرح سے لوٹنے کے نت نئے حربے وہاں ملتے ہیں۔ یونان میں بھی اسی طرح کے کئی مسائل موجود ہیں، حالانکہ یونان بھی ڈھائی تین ہزار سال پرانی تہذیب ودانش کا وارث ہے۔بات سسٹم کو اچھے طریقے سے وضع کرنے اور ادارے مستحکم بنانے کی ہے۔ امریکہ نے ایسا کر لیا، ان بیمار یورپی ممالک نے ایسا نہ کیا، نتائج بھی بھگت رہے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ، فرانس، جرمنی جیسے یورپی ممالک میں حکومت نے فری مارکیٹ اکانومی کو چلایاہے، مگر مارکیٹ ریگولیٹری اتھارٹیز بھی موجود ہیں، سب سے بڑھ کر وہاں صارفین کی تنطیمیں بہت طاقتور اور فعال ہیں۔ وہاں پر صنعت 
کاروں، تاجروں کی جرات نہیں کہ روز مرہ کی ان ضروری اشیا میں ایک سینٹ کااضافہ بھی کرسکیں۔ دودھ، دہی، انڈے، بریڈ ، آلو وغیرہ کے ریٹس بسا اوقات دس دس پندرہ پندرہ سال اسی جگہ پر رہتے ہیں۔ حکومتیں اس کا اہتمام کرتی ہیں، ڈبل روٹی کی قیمت ایک مناسب حد تک رکھنے کے لئے اگر سب سڈی دینی پڑی تو دی جاتی ہے، مگر غریب آدمی کی پہنچ سے یہ ضروری اشیا باہر نہیں جانے دی جاتی۔
یہ درست ہے کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں بہت سے بڑے بڑے سٹور چیزوں کی قیمت خاصی کم کر کے سیل لگاتے ہیں، بعض بڑے برینڈز کرسمس پر اپنے نرخ بہت کم کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ لوگ سال بھر کی خریداری ایک ساتھ کر لیتے ہیں۔ غیر معمولی خریداری کم مارجن کے باوجود سٹورمالکان اور کمپنیوں کی اتنی زیادہ کمائی کرادیتی ہے کہ انہیں خسارہ نہیں ہوپاتا۔یہ اچھا ٹرینڈ ہے، اسے سراہنا چاہیے، مگر ایسا مسلمان غریب پر لعنت ملامت کئے بغیر بھی ہوسکتا ہے۔ بات سادہ سی ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر وغیرہ بھی مسلمان ممالک ہیں۔ ان کی حکومتیں بھی مسلمان ہیں اور آبادی کی عظیم اکثریت بھی ۔ ان ملکوں میں کسی کی جرأت نہیں کہ وہ رمضان میں لوٹ کھسوٹ مچا سکے ۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور تیسری دنیا کے بیشتر مسلمان ممالک میں بے ا یمانی، بددیانتی، ملاوٹ وغیرہ کے جرائم عام ہیںمگر سعودی عرب، دوبئی، شارجہ، کویت وغیرہ میں کوئی ملاوٹ کی جرات نہیں کر سکتا۔اس کا تصور تک نہیں کہ پانی ملا دودھ ملے گا یا مرچوں میں پسی اینٹوں کا برادہ شامل ہوسکے گا۔ ان ممالک کی انتظامیہ بھی تو مسلمان ہے، تاجر ،د کان دار بھی مسلمان ہیں، پھر وہ اتنے ایمان دار کیسے ہوگئے ؟ وجہ صاف ظاہر ہے کہ بے ایمانی کرنے پر وہ بچ نہیں سکیں گے، جس نے ملاوٹ کی، وہ تمام عمر جیلوں میں سڑتا رہے گا۔ سعودی عرب کو رمضان میں کئی ملین زائرین سے بھی ڈیل کرنا پڑتا ہے، یہ سب کچھ بخوبی احسن طریقے سے ہوتا ہے، اس کے باوجود کسی کو من مانی نہیں کرنے دی جاتی۔ سختی سے احتساب کیا جاتا ہے، نتیجے میں وہی پاکستانی یا بنگلہ دیشی دکاندار جو اپنے ملک میں ایمانداری کو اٹھا کر طاق نسیاں پر رکھ دے گا، ان عرب ممالک میں تیر کی طرح سیدھا ہو کر کام کرتا اور قانون کی پابندی کرتا ہے۔ 
لوگوں کی اخلاقی تربیت ضرور کیجئے، ان کی اخلاقیات کو جگانے کی کوشش کرنا چاہیے، مگر صرف اخلاقی بنیادوں پر یہ چیزیں درست نہیں کی جاسکتیں۔ جہاں قانون کام نہ کر رہا ہو، سسٹم غائب ہو، وہاں صرف کوئی ولی ہی صاف شفاف طریقے پر کاربند رہے گا۔ سید نا فاروق اعظم ؓ اس نکتے کو سمجھتے تھے، اسی لئے انہوں نے اپنے عہد کے نامور لوگوں کو بھی غلطیوں پر سزائیں دیں، قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا۔ دکانداروں کا محاسبہ کیا ،نتیجے میں اس زمانے کے حساب سے ایک شاندار نظام قائم ہوگیا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اخلاق، کردار اور تقویٰ کے حساب سے لوگوں کی جو جمعیت دوسرے خلیفہ کے دنوں میں موجود تھی، بعد کے زمانوں میں اس کے عشر عشیر کا بھی تصور نہیں کیاجا سکتا۔ اس قدر اعلیٰ لوگوں کے باوجود بھی جناب فاروق اعظم ؓ درہ اپنے ہاتھ میں رکھنا پڑا۔ یہ وہ راز ہے جس مملکت نے اسے سمجھ لیا، وہ سنور گئی۔ ریاست کو ماں کی طرح مہربان ہونا چاہیے، مگر باپ کی طرح شیر کی آنکھ سے بھی دیکھے اور جرم کرنے والے کو کسی بھی صورت نہ چھوڑے۔ تب ہی نظام کام کر سکتا ہے۔ جس ملک میں حکومت گرمیاں شروع ہونے پر بجلی مہنگی کر دیتی ہو، سردی آتے ہی گیس مہنگی ہو جاتی ہو، وہاں دکانداروں اور تاجروںسے یہ توقع بچگانہ ہے کہ وہ اپنے کمائی کے سیزن میں اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے چیزیں سستی کر دیںگے۔ اس لئے براہ کرم ہر وقت کی صف ماتم بچھانا چھوڑ دیجئے، پاکستانیوں، مسلمانوں پر ہر وقت کی لعنت ملامت بھی بہت ہوچکی، اب اس سے طبیعت اوبھ چکی، ایسی تحریریں پڑھ کر قے آنے لگتی ہے۔ سسٹم بنائو، ادارے مضبوط کرو، قانون کا نفاذ ہر طاقتور وکمزور پر بلا تفریق کرو، پھر دیکھو کہ یہی پاکستانی مسلمان دکان دار ، تاجر بہترین اخلاقی اصولوں پر کاربند ہوجائیں گے۔ خدا نے بھی طرح طرح کی پرکشش ترغیبات دینے کے ساتھ قرآن میں بہت جگہوں پر جہنم کی سختی اور آتش سے ڈرایا ہے۔ اخلاقی ترغیب اور احتساب کا کوڑا مل کر ہی موثر ہوسکتا ہے۔صرف ایک پر انحصار کافی نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں