اس قدر ہیجان کیوں برپا ہے؟

اخبارات پڑھے جائیں، ٹی وی ٹاک شوز دیکھے جائیں، سوشل میڈیا پرکچھ وقت گزارا جائے تو ایک آدھ دن میں ہی آدمی چکرا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے پورا معاشرہ بہت بڑی دیگ کی طرح ابل رہا ہے اورگرم تپش باہرکھڑے لوگوں کو بھی جھلسا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ سماج میں اس قدر ہیجان کیوں ہے؟ اور کیا اسے کم کرنے کی کوئی تدبیر ہو رہی ہے؟ اس کے محرکات و اسباب پر کسی نے غور فرمایا؟ اہل علم ودانش کو اس پر روشنی ڈالنی چاہیے۔ ہم چند ایک طالب علمانہ معروضات پیش کر سکتے ہیں تاکہ مکالمہ شروع ہو اور سینئرز بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ہماری رہنمائی کریں۔ 
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ہر معاملے میں انتہائی پوزیشن لینے کے عادی ہوگئے ہیں۔ پوری قوت اور شدت سے کسی معاملے کی مخالفت کرنا، شمشیر سونت کر اپنے مقابل پر ٹوٹ پڑنا اورکشتوں کے پشتے لگا دینا ہی جرأت، دلیری اورکمال سمجھا جاتا ہے۔ ایسا نہ کرنے والے بزدل، منافق یا نرم الفاظ میں کمزور اور مصلحت اندیش قرار دیے جاتے ہیں۔ ہمارے اہل دانش، کالم نگاروں اور تجزیہ کاروں نے گزشتہ تین چار دہائیوں سے قوم کو یہی تربیت دی ہے۔ سیاست کو حق و باطل کا معرکہ بنایا جاتا رہا۔ گویا ایک طرف اہل حق ہیں اور دوسری جانب سر تا پا باطل پرست۔ جب کوئی معرکہ اس انداز میں لڑا جائے گا، تب اس جنگ میں سب کچھ جائز سمجھا جائے گا۔ اہل حق اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالیں گے۔ اپنی صفوں میں ناپسندیدہ حرکت کرنے والے کو بچایا جائے گا، اس کا دفاع کیا جائے گا کہ کہیں اس غلطی،کمزوری کا فائدہ اہل باطل کا لشکر نہ اٹھا لے۔ یہیں سے انصاف اور عدل کا خون ہوتا اور ناانصافی کی فصل کاشت ہوتی ہے۔ ایسی بدقسمت، منحوس فصل جس کی ہر بالی میں ہزاروں فتنے پوشیدہ ہوتے ہیں۔
ہمارے تجزیہ کار انتہائی پوزیشن لینے پر نازاں ہوتے ہیں۔ اسے دلیری، قلم کی کاٹ اور حق گوئی کا نام دیا جاتا ہے۔ درست کہ بعض اوقات اس قسم کی پوزیشن لینا پڑتی ہے، لیکن جب ملکی سالمیت کا معاملہ ہو، مذہب پرکھلا حملہ کیا جائے یا کوئی دوسرا نہایت اہم نوعیت کا ایشو ہو۔ ایسے مواقع مگر سال میں دو چار بار ہی آتے ہیں۔ سال بھر شمشیر کو بے نیام رکھنا ہماری عادت بن جاتی ہے۔ پھر مشہور ہسپانوی ناول کے کردار ڈان کیخوٹے کی طرح آدمی پن چکی کو بھی گھڑ سوار سمجھ کر اس پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ یہ رویہ درست نہیں۔ بات مکمل کرنی چاہیے، جتنی ہے اتنی، اس سے ذرہ بھر زیادہ نہ کم ۔ رائے دیتے وقت انصاف اور توازن سے کام لینا بہت ضروری ہے۔ توازن یہ نہیں کہ ہر معاملے میں درمیانہ موقف اختیارکیا جائے۔ توازن کا مطلب یہ ہے کہ مخالف نقطہ نظر رکھنے والوںکی کسی غلطی پرگرفت کرنا مقصود ہو تو اپنے پسندیدہ شخص، تنظیم یا جماعت کی ویسی کمزوریوں اور غلطیوں کو بھی سامنے لایا جائے۔ بسا اوقات ہم کھل کر رائے اس لئے نہیں دیتے کہ اپنے پڑھنے والوں یا پروگرام دیکھنے والوں میں سے کچھ کی ناپسندیدگی کا خدشہ ہوتا ہے۔ یہ بھی ظلم اور ناانصافی کے مترادف ہے۔ جب آپ کے سامنے کوئی غلط کام ہو رہا ہو تو اس پر ضرور بات کریں۔ ضروری نہیں کہ ہتھوڑا مارکہ سٹائل میں برس پڑیں، سلیقے اور قرینے سے درست بات کہی جا سکتی ہے۔ 
ہمیں ہر معاملے کو حق وباطل کا معرکہ نہیں بنا دینا چاہیے۔ پاکستانی سیاست تو خاص طور پر اس فیز سے نکل چکی ہے۔ نوے کے عشرے میں میاں نواز شریف اور ان کے قلمی ہم نوا قوم کو باور کراتے رہے کہ یہ سچ اور جھوٹ کی جنگ ہے، ایک طرف حق اور بالمقابل باطل ہے۔ بعد کے برسوں میں انہوں نے خود ہی آپس میں مل کر تسلیم کر لیا کہ ہم قوم کو بے وقوف بنا رہے تھے۔
آج کے پاکستان میں سیاسی محاذ پر شدت کا کوئی جواز نہیں۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کو برا لگے گا، مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ میاں صاحب باطل پر ہیں اور نہ ہی خان صاحب حق پر۔ دونوں سیاست کر رہے ہیں، اپنے اپنے اندازکی، ایک دوسرے سے کچھ بہتر ہو سکتا ہے، مگر دونوں جانب روایتی سیاست کا ہالہ موجود ہے۔ بدبو دار! زر، زور میں رچا بسا۔
اس ہیجان میں دوسرا بڑا حصہ ہمارے الیکٹرانک میڈیا یعنی نیوز چینلزکا ہے۔ نجی چینلز کو آئے تیرہ چودہ سال ہوئے ہیں۔ یہ ثابت ہو چکا کہ ان کے پاس چوبیس گھنٹے ٹی وی چلانے کے لئے پروگرام، آئیڈیا اور ذہن موجود نہیں۔کسی خوں آشام عفریت کی طرح یہ ایشوزکو ڈھونڈتے، شکارگرفت میں آجانے پر اسے بھنبھوڑتے، نوچتے اور لہوکا آخری قطرہ تک پی جانا چاہتے ہیں۔ بڑے چینلزکے پاس پھر بھی مختلف نوعیت کے پروگرام ہوتے ہیں، چھوٹے چینلز کا بحران زیادہ ہے۔ ریٹنگ کے لئے لڑائی کرانا، چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا، منفی خبروںکو چن چن کر نمایاںکرنا ہی الیکٹرانک میڈیا کی صحافت رہ گئی ہے۔ معاشرے میں ایک خوفناک قسم کا ہیجان اس نے پیدا کر رکھا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنا چاہیے، پیمرا کو مزید اختیارات، سٹاف اور قوت دی جائے۔ ہر پروگرام مانیٹرکیا جائے اور سزائیں سخت کی جائیں۔ 
جس ٹاک شو میں ماروی سرمد اور مولانا حمد اللہ کا جھگڑا ہوا، وہ ہمارے نیوز چینلز کے جھگڑے کرانے کی کلاسیکل مثال ہے۔ ماروی سرمد جیسی شعلہ فشاں، تیز دھار زبان رکھنے والی خاتون، حافظ حمد اللہ جیسے انتہائی جذباتی اور عقل و فہم سے عاری شخص کو ایک پروگرام میں اکٹھا کرنے کی کوئی تُک نہیں۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے بیرسٹر مسرورکا میں نے پہلے کبھی نام تک نہیں سنا۔ ایسے لوگ محض اپنے آپ کو منوانے کے لئے تند و تیز فقرے بولتے ہیں۔ اس پروگرا م میں زیادتی کی انتہا حافظ حمد اللہ نے کی اور میرے خیال میں ان کی غیر مشروط مذمت ہونی چاہیے۔ ان کا رویہ نہایت افسوسناک تھا۔ ان کی جماعت کو چاہیے کہ ایسے شخص پر پابندی لگائے کہ اگلے دو تین برس کسی ٹاک شو میں شریک نہ ہوں۔ ایسے لوگ اگر ممبر پارلیمنٹ ہیں تو ان سے استعفا طلب کرنا چاہیے۔ اس طوفان بدتمیزی پر مشتمل پروگرام کی ذمہ داری مذکورہ چینل، اینکر اور پروڈیوسر پر بھی عائد ہوتی ہے۔ اس قسم کے جھگڑے میں نہایت آسانی سے بریک لی جا سکتی تھی، جس میں معاملہ سلجھا لیا جاتا۔ پیمرا کو چاہیے کہ اگر کسی پروگرام میں ایسی بدتمیزی ہو تو اس پروگرام اور اینکر پرکم از کم دو ہفتے کے لئے پابندی لگا دے۔ پیمرا کو ٹاک شوز کے لئے ضابطہ اخلاق جاری کرنا اور اس پر انتہائی سختی سے عمل کرانا چاہیے۔ 
سوشل میڈیا پر بھی آئے روز طوفان برپا رہتا ہے۔کئی جگہوں پر دیکھاکہ لوگ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے اور بلاوجہ کی جنگ وجدل کو ترجیح دیتے ہیں۔ جہاں موقع ملا، وہاں سینگ پھنسا دیے۔ بہترین طریقہ یہی ہے کہ ایسے لوگوں کو فوری طور پر بلاک کر دیا جائے تاکہ فیس بک کی دنیا میں دوبارہ ان سے سامنا نہ ہو۔ سوشل میڈیا پر اس ہیجان کی سب سے بڑی وجہ مختلف پس منظر کے لوگوں کا ایک دوسرے سے انٹرایکشن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بہتر ہوگیا ہے، کچھ مزید ہو جائے گا۔ دینی مدارس کے طلبہ بڑی تعداد میں فیس بک پر آ چکے ہیں۔ ان کے لئے مدارس کی دنیا سے باہر کے لوگوں سے انٹرایکشن شروع میں بڑا شاکنگ ثابت ہوتا ہے۔ جن موضوعات، ایشوزکو وہ مقدس سمجھتے، اپنے جن اساتذہ و شیوخ کو وہ دیوتائوں کا سا درجہ دیتے، جنہیں وہ امام الہند اور شیخ العرب والعجم سمجھتے ہیں، انہیں حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگوں کے لئے وہ برصغیرکی سیاسی تاریخ کے کردار ہی ہیں، جن پر آزادانہ تنقید ممکن ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ سردست سوشل میڈیا بھی ہیجان کا ایک سبب ہے۔
معاشرے میں ہیجان ختم کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ سوچا جائے ہمارے آقا، سرکار مدینہ حضور ﷺکا ایسے میں کیا رویہ ہوتا؟ آپ کے اصحاب اور اہل بیت رضوان اللہ علیھم ایسے معاملات میں کیا ردعمل دیا کرتے تھے۔ پھر کوشش کی جائے کہ اس مبارک طریقہ کی کوئی جھلک ہمارے رد عمل میں بھی آجائے۔ یہ آسان کام نہیں۔ اپنے نفس پر قابو پانا، غصے، جھنجھلاہٹ، تعصبات کو دبانا اور اس سے بھی بڑھ کر اپنی انا کی بلند فصیل کو گرادینا آسان نہیں، مگر کوشش کی جائے تو ہمارے رویوں میں بڑی حد تک تہذیب آ جائے گی۔ہیجان ازخود تحلیل ہو جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں