فتح اللہ گولن کون ہیں؟

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترک سکالر فتح اللہ گولن ایک بڑے ولن کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ ترک مرد آہن اور صدر طیب اردوان نے بغاوت کی تمام تر ذمہ داری گولن پر ڈال دی ہے اور باقاعدہ طور پر امریکہ سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر اسلامسٹ حلقوں میں فتح اللہ گولن کو ایک خطرناک اسلام دشمن، ترک دشمن کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے۔
فتح اللہ گولن کی گولن موومنٹ یا خدمت تحریک جسے ترکی میں حزمت تحریک کہا جاتا ہے، کو ہمیں قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ تین چار سال پہلے رومی فورم کے تحت سینئر پاکستانی صحافیوں کا ایک وفد ایک ہفتے کے مطالعاتی دورے پر استنبول گیا تھا۔ مجیب الرحمن شامی، عطاالحق قاسمی، رئوف طاہر اور محمد رئوف کے ساتھ خاکسار کو بھی اس وفد میں شامل کیا گیا۔ استنبول میں گولن موومنٹ کے مختلف پروجیکٹس کا وزٹ کیا، گولن کے دیرینہ نظریاتی ساتھیوں سے تفصیلی مکالمہ ہوا، ان کے مختلف شعبوں میں سرگرم افراد سے بات چیت کا موقعہ ملتا رہا۔ اپنے طور پر بعد میں گولن صاحب کی فکر کو سمجھنے کی کوشش بھی کی۔ ان کی کئی کتابیں اردو میں ترجمہ ہو چکی ہیں، وہ پڑھیں۔ طیب اردوان اور گولن کے اختلافات کو بھی پچھلے تین برسوں سے مانیٹر کر رہا ہوں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ ترکی کے حالیہ افسوسناک واقعے کے بعد فتح اللہ گولن، ان کی فکر اور حزمت تحریک کے حوالے سے یک رُخا موقف غلبہ پا رہا ہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ تصویر کے دونوں رخ دیکھے جائیں۔ 
سب سے پہلے کچھ فتح اللہ گولن کے بارے میں۔ گولن کا تعلق ایک مذہبی خاندان سے ہے۔ ان کے والد امام تھے۔ والدہ بھی قرآن پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے خود ایک مدرسے تعلیم پائی اورمسجد کے امام/ خطیب کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ یاد رہے کہ ترکی میں مساجد کے لئے مقرر کردہ امام اور جمعہ کا خطبہ دینے والے خطیب حضرات‘ سرکاری ملازم ہوتے ہیں۔ فتح اللہ گولن خاصا عرصہ ازمیر میں خطیب رہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہیں سے اپنے دینی، دعوتی کام کا آغاز کیا۔ فتح اللہ گولن مشہور ترک صوفی سکالر بدیع الزماں سعید نورسی کے پیروکار ہیں۔ سعید نورسی کو ترکی کے اسلامسٹوں یا مذہبی لوگوں میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ نورس مشرقی اناطولیہ کا ایک کرد گائوں ہے۔ سعید نورسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نسلاً کرد تھے، مگر ان کی شخصیت ترک، کرد نسلی تقسیم سے بالاتر تھی۔ سعید نورسی کی مشہور کتاب رسالہ نور ہے، جسے نورسی تحریک کے لوگ میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ نورسی صاحب دینی مدارس میں سائنسی مضامین پڑھانے کے قائل تھے اور ان کا کہنا تھا کہ سیکولر اداروں میں مذہبی تعلیم بھی شامل ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترکی مشہور اسلامسٹ لیڈر نجم الدین اربکان بھی سعید نورسی کے پیروکار اور ان سے متاثر تھے۔ اس لحاظ سے طیب اردوان جو پہلے نجم الدین اربکان ہی کی فکر سے متاثر تھے، وہ اور ان کی پارٹی کے لوگ بھی سعید نورسی کی فکر کے مداح رہے ہیں۔ فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک بھی سعید نورسی کی فکر کے علمبردار اور ان کی سوچ کو ساتھ لے کر چلنے کے دعوے دار ہیں، گولن صاحب نے سعید نورسی پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔
فتح اللہ گولن نے ترکی کے سیکولر معاشرے میں دینی، دعوتی کام کے لئے ایک منفرد طریقہ سوچا۔ استنبول میں ایک صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی، سادہ سے چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم وہ شخص گولن کے ابتدائی ساتھیوں میں تھا۔ ان دنوں ترکی میں سخت گیر الٹرا سیکولر کمالسٹ سوچ کا غلبہ تھا۔ مذہبی سرگرمیاں ممنوع تھیں اور کسی مذہبی تحریک کے لئے کام کرنا ناممکن ہو چکا تھا۔ گولن نے ٹیوشن سنٹرز یا اکیڈمیز قائم کیں، جس کا مقصد طلبہ کی عمدہ تعلیم و تربیت کرنا تھا۔ مخیر حضرات سے مدد لے کر انہوں نے اگلے مرحلے پر ہاسٹلز بنائے، جن میں دیہات سے شہر آ کر پڑھنے والے بچوں کو مفت قیام و طعام کا موقعہ فراہم کیا جاتا۔ ریاستی جبر کے باعث کھل کر دینی تعلیم دینا ممکن نہیں تھا، اس لئے بڑے سلیقے سے ان اکیڈمیز اور ہاسٹلز میں طلبہ کو نماز باجماعت پڑھنے اور دیگر اخلاقی امور پر تربیت دی جاتی رہی۔ نماز کے لئے کسی کو کہا نہ جاتا اور استاد خود خاموشی سے ایک کمرے میں نماز پڑھنے لگ جاتا، ایک دو شاگرد اس کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔ دوسرے طلبہ پوچھتے کہ یہ کیا ہے تو انہیں کہا جاتا کہ یہ عبادت کا طریقہ ہے جسے ترک مسلمان ادا کرتے ہیں۔ اس طرح سچ بولنے، فواحش و منکرات سے دور رہنا، بڑوں کا ادب، شرم و حیا کی پاسداری ، معاملات میں کھرا ہونے جیسے امور پر قرینے سے بات کی جاتی۔ بچوں کو براہ راست واعظ کے بجائے عملی نمونہ سے اس جانب راغب کیا جاتا اور کوئی پوچھتا تو اسے کہا جاتا کہ یہ تو ترک کلچر ہے، ترک اخلاقی روایات اور اصول ہیں جن کی وجہ سے ترک دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
فتح اللہ گولن کا دعوتی کام ساٹھ کے عشرے کے وسط میں شروع ہوا۔ ستر کا عشرہ دنیا بھر میں اخلاقی اعتبار سے ہنگامہ خیز رہا۔ ہپی تحریک مغرب میں نمودار ہوئی جس نے ترکی کا رخ بھی کیا۔ نوجوانوں بلکہ نوعمر لڑکوں میں منشیات استعمال کرنا عام رواج بن گیا، میلے کچیلے کپڑوں کے ساتھ بکھرے بالوں والے لڑکے چرس بھرے سگریٹ پیتے عام نظر آتے۔ گولن ہاسٹلز اور اکیڈمیز کے طلبہ البتہ ان سب سے یکسر مختلف اور ممتاز تھے۔ ان طلبہ کے شفاف کردار اور مہذب اطوار نے گولن اکیڈمیز کو شہرت دی۔ پڑھی لکھی مڈل کلاس اور خوشحال طبقات نے اپنے بچے ان ہاسٹلز اور اکیڈمیز میں بھیجنا شروع کر دیے۔ یاد رہے کہ ترکی میں اس وقت تک نجی سکول قائم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان اکیڈمیز کی تعداد سینکڑوں میں پہنچ گئی۔ فتح اللہ گولن نے یہ سب کام بڑی حکمت سے کیا۔ گولن کی دینی سوچ میں خدمت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کے مطابق مسلمان کا فرض ہے کہ وہ معاشرے کی خدمت کرے، لوگوں کے کام آئے اور یہ خدمت کا کام نہ صرف مسلم سماج بلکہ غیر مسلم آبادی کے لئے بھی کیا جائے۔ گولن فکر کا دوسرا اہم جز یہ ہے کہ مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دین کو دلیل اور شائستگی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ اہل کتاب (یہودیوں اور عیسائیوں)کے علاوہ دیگر مذاہب بلکہ لادین اور ملحدین کے ساتھ بھی مسلمان مکالمہ کریں اور علمی سطح پر اللہ اور اس کے آخری رسولﷺکی دعوت اور مقدمہ کو پیش کریں۔ اس مقصد کے لئے گولن نے خدمت تحریک قائم کی۔ ترکی میں خ کا حرف موجود نہیں، خدمت وہاں حزمت کہلاتی ہے اور خلیل کو حلیل بولا اور لکھا جاتا ہے۔ 
استنبول میں حزمت تحریک کے مختلف شعبوںکے مشاہدے کا موقعہ ملا تو اس پر حیرت ہوئی کہ پورے ترکی میں کہیں پر حزمت تحریک کا کوئی باقاعدہ دفتر موجود نہیں۔ یعنی حزمت تحریک کی کوئی باضابطہ شکل، سٹرکچر، سٹیشنری، ملازمین وغیرہ نہیں ہیں، یہ ایک غیر رسمی تحریک ہے۔ ایسا غالباً سیکولر حکومت کے جبر سے بچنے کے لئے کیا گیا۔ حزمت کے تحت مختلف فورمز ہیں جو اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، یہ سب گولن فکر سے متاثر ہیں، اپنے اہداف میں لگے ہوئے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے، ایک دوسرے کو مدد بہم پہنچاتے ہیں۔ کچھ لوگوں نے ترکی کا سب سے بڑا اخبار زمان قائم کر لیا، سمان یولوم یڈیا ہائوس بن گیا، جس کے تحت سات چینلز کا م کر رہے تھے، کاروباری افراد پر مشتمل ایک بزنس کارپوریشن بن گئی، سکولوں کا بہت بڑا نیٹ ورک تھا جس کے ساتھ پری یونیورسٹی سکولز اور یونیورسٹیاں بھی کا م کر رہی تھیں۔ رومی فورم تھا جس کا مقصد دنیا بھر سے دانشوروں، صحافیوں کو ترکی کا وزٹ کرانا اور حزمت تحریک کے کام سے روشناس کرانا تھا۔ ایک اور فورم ترکی کے اندر مختلف مسالک کے درمیان مکالمہ کراتا اور امن و یک جہتی کا علمبردار تھا۔ الگ سے ایک دوسرا فورم مختلف مذاہب کے مابین مکالمہ کے لئے وقف تھا۔ ایک بڑی چیریٹی تنظیم تھی، جس کے تحت ہسپتال، ڈسپنسریاں قائم تھیں۔ پاکستان میں زلزلے کے بعد اسی تنظیم نے یہاں آ کر کروڑوں ڈالر کا چیریٹی کام کیا اور زلزلہ متاثرین کو مفت گھر بنا کر دیے۔
ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ طیب اردوان اور فتح اللہ گولن میں ٹکرائو کیوں ہوا، اس کے اسباب کیا تھے اور کیا حالیہ بغاوت میں گولن کا ہاتھ ہے۔ اگلی نشست میں انشا اللہ اس پر بات کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں