اگر ہم حالت جنگ میں ہیں تو…

یہ فقرہ ہم پچھلے چند برسوں سے مسلسل سنتے آ رہے ہیں کہ فلاں کام اس لئے ہو رہا ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ یہ بات دو اعتبار سے درست ہے۔ ایک اس حوالے سے کہ پاکستان واقعی حالت جنگ میں ہے۔ اس کے دشمن ایک سے زیادہ ہیں اور ان میں بڑی قوتیں بھی شامل ہیں۔ دوسرا یہ کہ واقعتاً حالت جنگ میں عام قاعدے قوانین بدل جاتے ہیں اور جہاں ریاست کو بعض غیر معمولی اختیارات تفویض کر دیے جاتے ہیں، وہاں شہری بھی کچھ سمجھوتے کرنے پر رضامند ہو جاتے ہیں۔
سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعتاً ہمارا ریاستی اور حکومتی رویہ حالت جنگ سے دوچار ممالک اور اقوام جیسا ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ ایسا قطعی نہیں ہے۔ ہماری حکومت، اپوزیشن، انتظامیہ اور خود عوام کا رویہ بالکل اس درجہ ذمہ دارانہ اور میچور نہیں، جیسا کہ ایسے سنگین بحرانوں میں گھرے کسی ملک اور وہاںکے لوگوں کا ہونا چاہیے۔ 
سب سے پہلے حکومت اور وزیر اعظم کو لے لیتے ہیں۔ تین اعتبار سے ان کی ناکامی مترشح ہے۔ دہشت گردوں‘ اور شہروں میں پوشیدہ ان کے سہولت کاروں کے خاتمے کے لئے سویلین سیٹ اپ (پولیس، سپیشل برانچ، انٹیلی جنس بیورو)کو مضبوط اور طاقتور بنانا ازحد ضروری ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے شروع میں جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیکٹا کا ادارہ قائم کیا اور قوم کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ تمام انٹیلی جنس اداروں کے درمیان تعاون اور مشترکہ جدوجہد کے لئے پلیٹ فارم بنا دیا گیا ہے، جس کے ذریعے موثر کارروائیاں کرنا ممکن ہو سکے گا۔ آج کسی کو علم نہیں کہ نیکٹا کیا کر رہا ہے، کس حد تک متحرک رہا اور آئندہ کے کیا امکانات ہیں؟ اگرکوئی خوش نصیب انسان اس حوالے سے کچھ جانتا ہے تو براہ کرم اس اخبار نویس کو بھی مطلع فرمائے کہ اپنے جنرل نالج کو اپ ڈیٹ رکھنے میں مجھے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے۔ رہا سیاسی استحکام تو اس کے لئے وعدوں پر عمل کرنا لازمی ہے۔ جہاں حکومت کا تمام تر دار و 
مدار سیاسی چالبازیوں، معاملات کو لٹکانے اور اپوزیشن کے خلاف تند و تیز حملے کرنے پر ہو، وہاں پولرائزیشن بڑھنا لازمی ہے۔ اب پاناما لیکس والا ایشو ہی دیکھ لیجئے، ایک بڑے حلقے کا شروع سے خیال تھا کہ پارلیمانی کمیٹی بنانے کا واحد مقصد معاملے کو لٹکانا ہے اور اس میں فرینڈلی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی حکومت کا ساتھ دے گی۔ پچھلے دو ڈھائی مہینے کی کارکردگی دیکھنے کے بعد کون ہے جو اس سے انکار کر سکے گا؟ اس طرح کی چالیں سیاسی کامیابی تو دلا سکتی ہیں، جو حکومت کو حاصل ہوئیں مگر پھر حکومتی وعدوں پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہو گا۔ 
پاکستان کو جس قسم کی دہشت گردی سے واسطہ ہے، اس پر قابو پانے میں سب سے بنیادی کردار پولیس اور تھانوں کا ہے۔ گلی محلے کی سطح پر خبریں اکٹھی کرنا اور مشکوک افراد پر نظر رکھنا تھانوں کے مخبر سسٹم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ تھانے زیادہ بنائے جائیں، نفری میں اضافہ ہو، سیاسی بنیادوں پر افسروں کا تقرر و تبادلہ نہ ہو۔ اچھے، اہل افسر تعینات کئے جائیں اور انہیں مطلوبہ افرادی قوت دی جائے، ڈیوٹی ٹائمنگ مناسب ہو اور اسلحے و دیگر جدید آلات کی مناسب تعداد میں فراہمی یقینی بنائی جائے تو یہ پولیس سسٹم غیر معمولی نتائج دے سکتا ہے۔ ایسا مگر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ اگلے دن ایک باخبر صاحب بڑے افسوس سے بتا رہے تھے کہ دو ہزار ایک تک لاہور میں 80 تھانے تھے اور گریڈ اٹھارہ کا ایس پی شہر کا انچارج ہوتا تھا۔ آج گریڈ اکیس بائیس کا ایڈیشنل آئی جی لاہور پولیس کا مدارالمہام ہے اور کئی ڈی آئی جی، ایس ایس پی صاحبان ان کے ماتحت کام کر رہے ہیں، تھانے مگر صرف تراسی ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوا، شہر کی پولیس فورس نہیں بڑھائی گئی اور افسروں کی فوج ظفر موج شہر میں تعینات کر دی گئی‘ یہ سوچے سمجھے 
بغیر کہ یہ افسر صاحبان اپنا عملہ بھی اسی پولیس فورس سے لیں گے اور نتیجے میں تھانوں میں نفری مزید کم ہو جائے گی۔ پنجاب میں تو خیر سے جناب خادم پنجاب ہی آٹھ برسوں سے براجمان ہیں، ان سے کیا شکوہ کیا جائے؟ یہ کم ہے کہ ہر دوسرے چوتھے روز وہ تھانہ کلچر تبدیل کرنے کا بیان داغ دیتے ہیں۔ اگر ایسا بھی نہ کرتے تو ہم آپ ان کا کیا بگاڑ سکتے تھے؟ 
سندھ کا یہ حال ہے کہ بیس پچیس برسوں سے رینجرز کراچی میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے، سندھ حکومت رینجرز کے اخراجات کے لئے بھاری فنڈز کا بوجھ اٹھاتی ہے، مگر کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ شہر کے لئے اچھی پولیس فورس ہی تیار کر لی جائے۔ یہی فنڈز پولیس پر خرچ ہو جائیں تاکہ آئندہ کے لئے رینجرز کو زحمت دینے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ پچھلے آٹھ برسوں سے پیپلز پارٹی وہاں حکمران ہے، اس سے پہلے والوں کا وتیرہ بھی یہی رہا۔ کے پی کے میں تحریک انصاف نے پولیس میں کچھ بہتری تو کی، مگر جس سطح کے چیلنجز ہیں، ان کے لئے مزید کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ رہا بلوچستان تو وہاں کا حال سب سے پتلا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں صوبے کے بہت سے شہروں کو بی کیٹیگری سے اے میں لانے پر اربوں خرچ ہوئے، رئیسانی صاحب کی حکومت میں پورا عمل ہی ریورس کر دیا گیا۔ بلوچستان میں ایف سی نے بوجھ اٹھایا ہوا ہے، مگر اس کا کام بٹانے کے لئے مستعد، متحرک پولیس فورس موجود نہیں۔ مجھے اندازہ ہے کہ پولیس کو بہتر بنانے کی بات پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں، تکرار سے بات کا حسن ختم ہو جاتا ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے جس عفریت کا ہمیں سامنا ہے، اس کے خاتمے کا یہ واحد طریقہ ہے۔ اس کے بغیر اسے جڑوں سے اکھاڑا نہیں جا سکتا۔ جلد یا بدیر اسی پر فوکس کرنا ہو گا۔ پھر وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ؟
ہمارے اداروں کی آپریشن ضرب عضب میں کارکردگی غیر معمولی رہی ہے۔ ایک بظاہر ناممکن نظر آنے والے ٹاسک کو فوج نے اپنے جذبے، عزم اور قربانیوں سے ممکن بنا دیا۔ وہ کچھ کر دکھایا، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی اتنی جلدی ختم نہیں ہو سکتی، اس میں وقت لگے گا۔ دراصل دہشت گردی کا تازہ ترین فیز غیرملکی قوتوں کی فنانسنگ اور سپورٹ کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ اب معاملہ صرف ٹی ٹی پی کا نہیں۔ اس کا تو بڑی حد تک صفایا کر دیا گیا، بچے کچھے افغانستان کی پہاڑیوں میں جا چھپے، کچھ بلوں میں گھسے وقت گزرنے کا انتظار کر رہے ہیں اور اسی میں پکڑے اور مارے بھی جاتے ہیں۔ حالیہ لہر کو پچھلے چند ہفتوں میں فرانس، صومالیہ، عراق، ترکی وغیرہ میں ہونے والی بڑی کارروائیوں کے ساتھ ملا کر بھی دیکھنا چاہیے۔ کئی جگہوں کو ایک ساتھ ڈسٹرب کرنے کی کوششیں ہوئی ہیں۔ ہمارے منصوبہ ساز ان تمام نکات پر غور کر رہے ہوں گے۔ ان پر اعتماد کرنا چاہیے، مگر اب دہشت گردی کے جلد خاتمے والی بات بار بار نہیں دہرانی چاہیے۔ فرانس جیسے صاحب وسائل ملک میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود دہشت گردی کے واقعات نہیں روکے جا رہے، ہمارا تو ابھی سسٹم بنا ہی نہیں، ہم تو فائر فائٹنگ ہی کر رہے ہیں کہ پھیلتی آگ کو جو دستیاب ہے، اسی سے روکنا چاہیے۔ دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے، ہم اپنی مستعدی اور عمدہ حکمت عملی سے اس خطرے کو کم یا مزید اچھا پرفارم کر کے بہت کم کر سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ان واقعات کو زیرو کرنا شاید ابھی ممکن نہ ہو۔ اگر ہم اپنے پولیس سسٹم کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئے تو انشااللہ اگلے دو تین برسوں میں دہشت گردی کا یہ آسیب سر سے ٹل سکتا ہے۔
ہمارے دانشوروں، تجزیہ کاروں، میڈیا اور عوامی حلقوں کو بھی صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے ایک اہم ترین موڑ پر ہے۔ چائنا پاک اکنامک کاریڈور کی کامیابی کی صورت میں بطور قوم ہماری تقدیر بدل سکتی ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہمارے دشمنوں کو کسی صورت گوارا نہیں۔ وہ اس منصوبے کو بار بار درہم برہم کرنا چاہیں گے۔ بلوچستان ہمیشہ ان کا مرکز رہے گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت کرے اور اپنی امان میں رکھے، مگر دشمن اپنی سی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کی چھ سو کوششیں ناکام بنا لی جائیں مگر ایک واردات کامیاب ہونے پر سب کچھ بظاہر خاک میں مل جاتا ہے۔ یہ سانحہ روح فرسا ہے، دکھ شدید اور گہرا ہونے کے باوجود ہمیں اپنا حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ مایوسی، فرسٹریشن اور بے یقینی سے ہر صورت بچنا ہو گا کہ ہمارے دشمنوں کا یہی سب سے بڑا حربہ ہے۔ یہ جنگ ہم نے لڑنا اور جتینا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ حالت جنگ کے تقاضے بھی ہم نے ہی نبھانے ہیں۔ مستقل اور دیرپا کامیابی کا یہی راز ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں