مہاجر قومیت اور محرومیوں کا ایشو

کراچی میں الطاف حسین کی متنازع تقریر سے جو آگ بھڑکی ، وہ ایک طرح سے تو سرد ہوگئی، ڈاکٹر فاروق ستار اوران کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان کے پلیٹ فار م سے مہاجر قوم پرست سیاست کو بچانے کی کوشش میںلگے ہیں، کس حد تک کامیاب ہوں گے،اس کا اندازہ اگلے کچھ عرصہ میں ہوجائے گا۔ اس تنازع کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوچکی ہے۔مہاجر قومیت اور اربن سندھ میں مہاجروں کے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیاں۔ سوشل میڈیا اس کی لپیٹ میں زیادہ ہے۔ ایک بحث مہاجر قومیت یا مہاجر کی اصطلاح کے گرد گھوم رہی ہے۔ یار لوگ اردو سپیکنگ لوگوں کو یہ مشورہ دیئے جا رہے ہیں کہ خود کو مہاجر کہلوانا بند کریں اور سندھی کہلائیں، ایک مشورہ زمین زادہ کہلانے کا بھی دیا گیا، زمین زادہ یعنی سن آف سوائل ۔ اردو سپیکنگ لوگ اس پر تلملاتے اور اپنے نقطہ نظر کو زور شور سے بیان کرتے ہیں، ان کی بات مگردرست تناظر میں سمجھی نہیں جا رہی۔ ایسے میں دلائل دئیے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں کمیونٹی بھی باہر سے آئی مگر وہ مقامی آبادی میں یوں مکس ہوگئی کہ آج مقامی شناخت ہی کو اپنا چکے ہیں،ا ٓپ ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ دوسری بحث مہاجروں کی محرومی کے سوال پر گھوم رہی ہے۔ کئی لوگ یہ لکھتے اور کہتے ہیں کہ مہاجروں کی محرومیوں اور مسائل نے ایم کیو ایم کی راہ ہموار کی ۔ اس پرایک حلقہ طعنے دے رہا ہے کہ مہاجروں کے ساتھ کون سی زیادتیاں ہوئیں؟ ایسی کون سی محرومی پیدا ہوگئی؟مختلف شعبوں کی کامیاب شخصیات کے نام گنواکر یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھئیے یہ فلاں فلاں لوگوں نے اپنے شعبوں میں نام کمایا، ٹاپ پر پہنچے، کس نے مخالفت کی ...وغیرہ وغیرہ۔
ہمارے خیال میں اس بحث کو پیچیدہ بنانے کے بجائے اس کی بنیاد کو سمجھنا چاہیے اور بات کو سادہ ہی رکھا جائے تو تفہیم زیادہ ہوسکے گی۔اس پر بات کرتے ہیں اور یہ وضاحت پہلے کرتے چلیں کہ اس کالم نگار کی سات پشتوںمیں کوئی اردو سپیکنگ نہیں، اس لئے میری رائے کو غیر جانبدارانہ تصور کیا جا سکتا ہے۔یہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی یا شہری سندھ کے لوگوں کے مسائل خاصے سنگین ہیں اور ان کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہی ہیں۔ اس بات کو تسلیم نہ کرنا بذات خود ایک زیادتی ہے۔ صاحبو! سچ تو یہ بھی ہے کہ جہاں آگ ہوتی ہے، دھواں وہیں سے اٹھتا ہے۔ جہاں محرومیاں، شکایات ہوتی ہیں، وہیں سے آواز اٹھتی ہے، قوم پرست سیاست جنم لیتی ہے۔ لاہور سے کیوں نہیںپنجابی قوم پرست تحریک شروع ہو جاتی کہ اسلام آباد نے ہم پر قبضہ جما رکھا ہے، آگے بڑھنے کا راستہ نہیں دیا جاتا، وغیرہ وغیرہ ؟کبھی کسی نے اس حوالے سے ایک فقرہ بھی سنا؟ جواب نفی میں ملے گا، کیونکہ ایسا ہوتا بھی نہیں، پنجاب کی اشرافیہ کو اسلام آباد پر حکمران ہونے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں۔ اس لئے کبھی سنٹرل پنجاب سے کوئی قوم پرست تحریک جنم نہیں لے گی۔یہاں اب دو قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں اور دونوں کی کوئی نہ کوئی وجہ ہے۔ ایک تو سنٹرل پنجاب کی سب سے بڑی سیاسی طاقت مسلم لیگ ن کی صفوں سے کبھی کبھاراسٹیبلشمنٹ کے خلاف آواز سنائی دیتی ہے۔ اس لئے کہ انہیں لگتا ہے اسٹیبلشمنٹ کھل کر کھیلنے نہیں دے رہی(یہ بات کسی نہ کسی حد تک درست ہی ہے)۔دوسری آواز اگرچہ نحیف ہے، مگر کبھی سننے کو مل جاتی ہے کہ پنجابی بولنی اور لکھنی چاہیے، خاص کر پڑھے لکھے پنجابی اپنے گھروں میں بچوں کے ساتھ پنجابی بولا کریں، ورنہ یہ زبان کمزور ہوتی جائے گی۔ یہ شکایت اپنی جگہ درست ہے ، کیونکہ ہر گھر میں لوگ اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی کے بجائے اردو یا انگریزی بولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے پنجابی قوم پرست ادبی حلقوں میں اضطراب پایا جاتا ہے۔ یہ اضطراب دیگر قومیتوں میںزیادہ بڑے پیمانے پر سیاسی اور سماجی محرومیوں اور شکایات کی بنا پر پیدا ہوتا ہے۔ شہری سندھ کی اردو سپیکنگ آبادی بھی ان میں شامل ہے۔ 
کراچی کا معاملہ دوسرے شہروں سے ہٹ کر ہے۔ باقی ملک میں ہم واپڈا کی بات کرتے اور اسے کوسنے دیتے ہیں، کراچی میں کراچی الیکٹرک کی صورت میں ایک الگ ادارہ ہے۔ اسی طرح کراچی میں واٹر بورڈ الگ ادارہ ہے،کراچی کے بعض مسائل ملک بھر سے مختلف ہیں، ان کا درست ادراک کراچی رہنے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ اہل کراچی کے مسائل، ان کی محرومیوں اپنی جگہ اہم ہیں، مگر اردو سپیکنگ آبادی کے کچھ مسائل اور دو بڑی محرومیاں یا شکایات دوسروں سے زیادہ ہیں۔ اہم ترین معاملہ سندھ کا کوٹہ سسٹم ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ سندھ کا کوٹہ سسٹم ختم ہونا چاہیے، اس کا کوئی جواز ہے نہ دلیل ۔ سندھ کی دیہی آبادی کے لئے سرکاری ملازمتوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں ساٹھ فیصد اور شہری سندھ کے لئے چالیس فیصدکوٹہ ظالمانہ ہے۔ اس سے دیہی سندھ کے ایسے بہت سے (سندھی)طلبہ نے فائدہ اٹھایا جو کراچی میںمقیم ہیں،وہاں اکیڈمیوں میں پڑھتے ،مگر امتحان دیہی سندھ کے ڈومئسائل سے دیتے اور پھر مخصوص کوٹے کے ذریعے اپنے سے کہیں زیادہ لائق اردو سپیکنگ طلبہ سے آگے نکل کر ملازمت لے لیتے ہیں۔ یہ کوٹہ ہرطرح سے امتیازی ہے۔ اس بلنڈر کی ذمہ داری بھٹو صاحب کی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے آئین میں دس سال کے لئے یہ کوٹہ منظور کرایا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دس سال کے بعد یہ ازخود ختم ہوجاتا۔ اس کی بار بار توسیع ہوتی رہی اور اب تو یہ خالص سیاسی ایشو بن گیا۔ کسی حکومت میں ہمت نہیں کہ وہ کوٹہ سسٹم ختم کرے۔ اگر کوٹہ سسٹم میں کوئی افادیت تھی تو اس کا اطلاق ملک بھر میں ہونا چاہیے تھا۔ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے جنوبی پنجاب کے لوگوں کے لئے بھی صوبے کے تعلیمی اداروں ، ملازمتوں میں خصوصی کوٹہ ہوتا۔ خیبر پختون خوا کے ہزارہ اور دیگر پسماندہ علاقوں کے رہنے والوں کے لئے بھی کوٹہ کی رعایت مہیا کی جاتی۔ اگر نہیں تو پھر سندھ میں بھی یہ تفریق ختم کی جاتی ۔یہ ایک ایسی زیادتی ہے جو ملک بھر میں کہیں نہیں ہو رہی، صرف مہاجر ہی اس کا نشانہ بن رہے ہیں۔
ایک محرومی سیاسی نوعیت کی ہے۔ یہ بھی عجب تماشا ہے کہ سندھ کا وزیراعلیٰ کبھی اردو سپیکنگ آبادی سے نہیں ہوسکتا ۔ آخر کیوں ؟ جواب کسی کو معلوم نہیں۔ حیرت اس پر ہے کہ فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں بھی سندھ کا وزیراعلیٰ اردو بولنے والے کو نہیں بنایا جاتارہا۔ علی محمد مہر سے لے کر ڈاکٹر ارباب رحیم تک وزیراعلیٰ بنے رہے، مگر یہ منصب کراچی کے کسی اردو سپیکنگ کو نہیں ملا، حتیٰ کہ قومی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے کسی اردو سپیکنگ تک کو یہ اعزاز نہیں بخشا گیا۔ سرائیکیوں کے ساتھ بھی کئی زیادتیاں ہوئیں، مگر سرائیکی علاقہ کے سیاستدان بہرحال وزارت اعلیٰ پر فائز رہے ۔ ہزارہ سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگی قیادت کے پی کے میں وزارت اعلیٰ چلا چکی ہے۔اردو سپیکنگ آؓبادی کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا۔ حد یہ ہے کہ پچھلے تین چار عشروں سے عوامی مطالبے کے باوجودحیدرآباد شہر میں یونیورسٹی نہیں بن سکی ۔ جامشورہ میں دو تین یونیورسٹیاں موجود ہیں، جہاں ایک زمانے میں تو اردو سپیکنگ طلبہ کے لئے پڑھنا مشکل کر دیا گیا تھا، تاہم حیدرآباد جتنے بڑے شہر میں بڑی سرکاری یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی۔ اس کی حالانکہ کوئی دلیل نہیں تھی۔ جامشورہ میں یونیورسٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی حیدرآباد شہر کے اندر یونیورسٹی قائم ہوسکتی تھی۔ ایسا مگر نہیں ہوسکا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔اس لئے محرومیاں تو موجود رہی ہیں، یہی وجہ ہے کہ مہاجر شناخت پر اصرار بھی ہوا اور مہاجر قومیت کی بات بھی کی گئی۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو ایک نعرہ تو دیا، مہاجر شناخت ضرور ان کی مستحکم ہوئی، مگر عملی طور پر ملا کچھ نہیں۔ ایم کیو ایم اور الطاف حسین نے مہاجروں کا بدترین جذباتی استحصال کیا۔کراچی جیسے روشنیوں کے شہر کو تباہ کر دیا،اس کی پہچان ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور سٹریٹ کرائم بن گیا۔ مہاجروں کی ایک پوری نسل برباد ہوگئی اور ان کاپاکستان بھر میں منفی امیج بنا دیا۔اس کی تمام تر ذمہ داری الطاف حسین پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے سیاسی بارگیننگ کے ذریعے اپنے اور اپنے مخصوص ٹولے کے لئے مفادات لئے ، کراچی ، حیدرآباد اور شہری سندھ کو نظرانداز کر دیا۔ 
جہاں تک مہاجر قومیت کے سوال کا تعلق ہے، اردو سپیکنگ سندھ میں کیوں نہ مکس ہوپائے اور شناخت کا بحران کیوں پیدا ہوا، اس پر اگلی نشست میں ان شااللہ بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں