بنیادی چیزوں کو تباہ کرنے کی مہم

پچھلے چند برسوں سے جہاں ہم سیاسی اعتبار سے خلفشار کا شکار ہیں، وہاں فکری اعتبار سے بھی ہنگامہ آرائی عروج پر ملتی ہے۔ سیاسی ہنگامے تو خیر ہر وقت برپا رہتے اور کنفیوژن ہی ہر طرف نظر آ تا ہے۔ سیاستدانوں کی ذہنی ناپختگی اس کا سبب ہے تو کہیں پر دانستہ ایشوز کو لٹکانے کی حکمت عملی کارفرما ہے۔ اب یہی دیکھ لیجئے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے جانبداری کی حد کر دی۔ حکومت کے خلاف ریفرنس مسترد کر دیے اور اپوزیشن کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوا دیے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہ عاقبت نااندیشی اور سیاسی عدم بلوغت کی علامت ہے۔ یہی حکمران جماعت چند سال پہلے جب اپوزیشن میں تھی، تب وزیر اعظم گیلانی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے جانبدارانہ رویہ اپنایا اور انہیں ریلیف دیا۔ اس پر میاں نواز شریف سمیت ان کی پارٹی کے رہنما کہتے تھے کہ سپیکر کا کام پوسٹ آفس کا ہے، وہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیج سکتا ہے، خود فیصلہ نہیں کر سکتا۔ اس بار لگتا ہے کہ پاکستان کا آئین اور پارلیمانی روایات چپکے سے بدل دی گئیں اور مسلم لیگ ن کے سپیکر نے حیران کن فیصلہ کر ڈالا۔ اگر وہ تمام ریفرنس مسترد کر دیتے تو اگرچہ وہ فیصلہ بھی غلط ہوتا مگر چلو اس کی کوئی منطق تو ہوتی۔ اب جو صریحاً جانبداری ہوئی، اس پر شور نہ مچے تو اور کیا ہو؟
اس قسم کی ہنگامہ آرائی اور غیر یقینی صورتحال کو ہمارے نیوز چینلز نے ہوا دی۔ انہیں ایک رات کا ہنگامہ اور ہٹ پروگرام چاہیے۔ اس کے لئے یار لوگ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ چلیں سیاسی ہنگامہ آرائی ناپسندیدہ سہی، مگر اس کی کوئی منطق، کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ ہمارے ہاں پچھلے تین چار برسوں سے فکری اعتبار سے جو نئے فتنے پیدا کئے جا رہے ہیں‘ زیادہ خطرناک ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ تمام بنیادی چیزیں جو ہمارے ہاں طے شدہ تھیں، جن پر اتفاق رائے تھا اور جسے قومی بیانیہ (National Narrative) کا حصہ سمجھا جاتا تھا، ان سب کو ایک ایک کرکے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ مہم نہایت منظم اور سائنٹیفک انداز میں چلائی جا رہی ہے۔ اس کے مختلف حصے اور فیز ہیں۔ ہر مرحلے کا اپنا طریق کار (Modus operandi) ہے اور اس کے لئے سٹیج پر کردار بھی نئے نمودار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں معاونت سوشل میڈیا اور سائبر ورلڈ میں نمودار ہونے والی ویب سائٹس سے ملی۔ ان ویب سائٹس نے دو کام بڑے عمدہ کئے، ایک تو نئے لکھاریوں کے لئے پلیٹ فارم مہیا ہوئے، کئی اچھا لکھنے والے جس سے سامنے آ گئے۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ فیس بک پر جو چاہے لکھا جا سکتا تھا، ویب سائٹس نے فلٹر کا کام کیا اور غیر ذمہ دار لکھاریوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ ایک بڑا نقصان مگر یہ ہوا کہ ان ویب سائٹس کی حیثیت ویب میگزین کی سی ہے، بعض سائٹس پر ان کے مخصوص نظریے یا ایجنڈے کے تحت یا پھر اس کے ایڈیٹر کی افتادِ طبع کے مطابق وہ کچھ بھی شائع ہو جاتا ہے، مین سٹریم میڈیا پر جسے قطعی جگہ نہیں مل سکتی تھی۔ مسلمہ مذہبی تصورات کا مذاق اڑانا ہو، علما دین کی پگڑی اچھالنا یا طے شدہ قومی بیانیہ پر سوال اٹھانے والی فتنہ انگیز تحریریں بھی شائع ہو رہی ہیں۔ہمارے لبرل، سیکولر حلقے اس میں پیش پیش ہیں۔ ایک دلچسپ منطق یہ نکالی گئی کہ جناب ہم تو سوال اٹھا رہے ہیں اور یہ سوال اب اٹھائے جائیں گے، انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ سوال اٹھانا علمی پیرائے میں بے شک مناسب بات ہے، مگر جن سوالات کا مقصد فتنہ پھیلانا اور طے شدہ بنیادی باتوں کو مسخ کرنا، نئی نسل کو کنفیوز کرنا اور اجتماعی قومی بیانیہ کو چھلنی کرنا ہو، ان کا کیا جواز ہو سکتا ہے؟ 
دو ڈھائی سال پہلے قومی ترانے کو ہدف بنایا۔ ایک اوسط درجے کے ہندو شاعر کو دریافت کیا گیا کہ انہوں نے قائد اعظم کے کہنے پر قومی ترانہ لکھا تھا، جسے ریڈیو پر چلایا بھی جاتا رہا، مگر ہندو ہونے کے ناتے شاعر کو نظرانداز کیا گیا اور ایک فارسی زدہ ترانہ لکھا گیا، وغیرہ وغیرہ۔ اتنا شور مچا کہ الامان۔ وہ تو اللہ بھلا کرے ڈاکٹر صفدر محمود کا، انہوں نے تحقیق کرکے ایک جامع مبسوط مضمون لکھا، جس میں ریڈیو کے ریکارڈ سے ثابت کیا گیا کہ ان ہندو شاعر کا ترانہ کبھی ریڈیو سے نہیں چلایا گیا۔ ریڈیو
کے آفیشل میگزین آہنگ، جس میں ریڈیو کے تمام پروگراموں کی فہرست شائع ہوتی تھی، میں کہیں اس نام نہاد ترانے کا ذکر نہیں اور نہ ہی ریڈیو میں کوئی فنکار ایسا ملا، جس نے وہ گایا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے تو قائد اعظم کے ملاقاتیوں کی فہرست، جو شائع ہو چکی، سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ شاعر موصوف کی کبھی قائد سے ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ یوں یہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا۔ قرارداد مقاصد تو ہمارے لبرل، سیکولر دوستوں کا من پسند ہدف رہی ہے، اس پر ہر تھوڑے عرصے بعد نیا حملہ ہوتا ہے۔ سومنات پر محمود غزنوی کے سترہ حملوں کا تذکرہ ملتا ہے، قرارداد مقاصد پر تو درجنوں بلکہ بیسیوں حملے ہو چکے۔ ''مطالعہ پاکستان‘‘ کا نصاب بھی سافٹ ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے۔ جس کا جی چاہے، اس پر طنزیہ مضامین تحریر کر دیتا ہے۔ قومی تاریخ پر بھی ایسے سوال اٹھائے جاتے ہیں، جن کا مقصد صرف کنفیوژن پھیلانا ہی ہوتا ہے۔ ہر سال چودہ اگست کے قریب یہ بحث نت نئے طریقوں سے چھیڑی جاتی ہے کہ ہمارا یوم آزادی چودہ نہیں، پندرہ اگست ہے۔ بھلے لوگ ستر سال ہونے والے ہیں، اب تو اس بحث سے نکل آئو۔ چودہ اگست ہی شروع سے بطور یوم آزادی منایا جاتا ہے، اب اس پر تو قوم کو متفق رہنے دو۔ نئی نسل کو ضرور کنفیوز کرنا ہے؟
پاکستانی قوم کی چیریٹی کی دنیا بھر میں ستائش ہوتی ہے۔ کئی مغربی ماہرین اس پہلو پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔ یار لوگوں سے یہ تعریف بھی ہضم نہیں ہوتی۔ دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے کہ نہیں، ہم تو اس حوالے سے بہت نکمے اور پیچھے ہیں اور یہودی دنیا بھر میں سب سے زیادہ چیریٹی کرتے ہیں۔ ستمبر کے مہینے میں جنگ ستمبر کے حوالے سے پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے۔ جنگ ستمبر کے حوالے سے تجزیے، خود احتسابی کا میں ہرگز مخالف نہیں، مگر ہر کام سلیقے سے کیا جا سکتا ہے اور جو مثبت چیزیں ہم میں موجود ہیں، انہیں تو مسخ نہ کیا جائے۔ جنگ ستمبر میں فوجی جوانوں نے جس غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا، اس میں کوئی کلام نہیں، خود بھارتی جرنیلوں نے اپنی کتابوں میں ہمارے جوانوں اور افسروں کی دلیری کی تعریف کی۔ ہمارے سیکولر حلقوں کا البتہ بس نہیں چلتا کہ جنگ ستمبر کو کس طرح زیادہ سے زیاد ہ متنازع بنایا جائے اور بھارتی فوج کے حملے کا جس دلیری سے دفاع کیا گیا، ہمارے جوانوں نے جو کچھ کر دکھایا، اسے کم تر کرکے دکھایا جائے۔ مشن غالباً یہ سونپا گیا ہے کہ پاکستانی قوم کے پاس کوئی فخر کے لائق چیز نہ رہنے دی جائے، ایسا کوئی بھی کام جس سے تعریف کا پہلو نکلے، اسے فوری متنازع بنایا جائے۔ ہمارے ہاں کئی حلقے ایسے ہیں جو دانستہ یا نادانستہ اسی ایجنڈے پرکام کر رہے ہیں۔ اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔ محب وطن حلقوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس مہم کے پیچھے کارفرما مقاصد کو سمجھیں اور ان کے لئے فکری جوابی بیانیہ دیتے رہیں۔ یہ کام بار بار کرنا ہوگا، اپنی بنیادوں کی حفاظت کسی ایک فرد نہیں بلکہ ہر نسل کو کرنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں