بھارت کیا کر سکتا ہے، کیا کرے گا؟

سب سے پہلے بھارت کی آپشنز کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کیا کر سکتا ہے؟جنگ ایک ایسی آپشن ہے جو ہمیشہ باقی رہتی ہے، خاص کر جن ممالک کے پاس بڑی فوج، ہیوی جنگی مشینری اور جنگ کے اخراجات اٹھانے کے لئے وسائل موجود ہوں۔بھارت کے پاس یہ تینوں چیزیں ہیں۔ پاکستان سے کئی گنا زیادہ بڑی فوجی مشینری، تین چار گنا بڑی فوج اور ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کے زرمبادلہ کے ذخائر۔ عسکری حساب کتاب سے کسی حملہ کرنے والی فوج کو مخالف سے کم از کم تین گنا بڑا ہونا چاہیے۔ بھارتی فوج کو یہ عددی برتری حاصل ہے۔ اس کے باوجود بھارت کے لئے آل آئوٹ وار کی جانب جانا آسان نہیں ۔ تین وجوہ ہیں۔
ایک تو پاکستان کی فوج ایک اعلیٰ تربیت یافتہ پروفیشنل فوج سمجھی جاتی ہے۔ ہمارے ینگ افسر اپنے مورال ، سپرٹ اورآگے جا کر لڑنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی فوجی افسروں کی میدان جنگ میں ہلاکت(شہادت)کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان آرمی دنیا کی سیکنڈ ینگسٹ آرمی ہے، اس کے اعلیٰ افسران نسبتاً زیادہ ینگ ایج میں ریٹائر ہوجاتے ہیں،۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے بریگیڈئر کی سطح کے افسران بھی جسمانی طور پر زیادہ متحرک اور فعال ہیں۔ ایک پاکستانی کے طور پر پاکستانی فوج کی تعریف کرنا فطری بات ہے، مگر یہ پوائنٹس مختلف دفاعی رسالوں کی چھان بین کے بعد جمع کئے ،یاد رہے کہ ان میں بھارتی دفاعی ماہرین کے آرٹیکلز بھی شامل ہیں ۔
دوسرا بڑا فیکٹر پاکستانی فو ج کے پاس موجود جد ید ہتھیار ہیں۔ روایتی ہتھیاروں کی جنگ میں بھی پاکستانی فوج ترنوالہ نہیں ہے۔ ہمارا آرمرڈ ڈویژن(ٹینکس)، آرٹلری(توپیں)اورلڑنے والے سپاہیوں کی عسکری، حربی صلاحیت ٹھیک ٹھاک ہے، اینٹی ٹینک اور بکتر شکن ہتھیار مناسب ہیں۔ فضائیہ کے پاس ایف سولہ سے جے ایف سیون تھنڈر جیسے جدید طیارے موجود ہیں، اینٹی ایئر کرافٹ گنوں کی جنہیں اضافی سپورٹ حاصل ہوگی ۔ آل آئوٹ وار میں پاکستانی فوج بھارت جیسے تین چار گنا بڑے حریف کو بھی ٹھیک ٹھاک ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔جنگ لڑنے کی صلاحیت بھی پینسٹھ کے مقابلے میںخاصی زیادہ ہوچکی ہے، تیل کے ذخائر اور ایمونیشن وغیرہ اس وقت سترہ دن بمشکل چلے تھے، اب چار پانچ ہفتوں سے زیادہ کی سکت بتائی جاتی ہے۔ تیسرا فیکٹر پاکستانی نیوکلیئر ہتھیار ہیں۔ پاکستان کو سب سے بڑی اور اہم برتری میزائل کے شعبے میں ہے۔ ہمارے میزائل زیادہ جدید، تیزی سے موو کئے جانے والے اور موثر ہیں۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کی موجودگی سب سے بڑا ایڈوانٹیج ہے۔ یہ آل آئوٹ وار کی صورت میں ڈیٹرنس کا کام دیتا ہے۔ کسی نیوکلیئر ہتھیاروں سے لیس فوج کو کوئی شکست نہیں دے سکتا کہ نیوکلیئر ہتھیار کی آپشن بہرحال جتنی خوفناک اور خطرناک سہی، یہ موجود ہوتی ہے۔ خاص کر نیوکلیئر ہتھیار لے جانے والے میزائل سسٹم کی موجودگی میں یہ سب کچھ زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے کہ ایسی صورت میں کسی بھی جگہ سے میزائل کے ذریعے دشمن کے علاقے کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے ۔
ان تین وجوہات کی روشنی میں پاک بھارت آل آئوٹ وار کا خیال کچھ زیادہ قرین قیاس نہیں ہے۔ دراصل جنگ کو شروع کرنا آسان ہے، مگر پھر اسے کسی خاص حد تک محدور رکھنا ممکن نہیں رہتا۔پھر کوئی بڑی جنگ کسی بھی مرحلے پر نیوکلیئر آپشن تک جا سکتی ہے۔ اسے عالمی قوتیں بھی نہیں روک پائیں گی۔ اسی لیے اس خطہ کو نیوکلیئر فلیش پوائنٹ کہا جاتا ہے ۔ 
ایٹمی دھماکوں کے بعدپاک بھارت ڈیٹرنس قائم ہوگیا، پھر بھارتی دفاعی ماہرین نے چند سال پہلے کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن تخلیق کی۔اس عسکری سٹریٹجی کے مطابق باقاعدہ جنگ کے بجائے سرجیکل سٹرائیک کی جائے۔ منصوبہ یہ بنا کہ انتہائی تیزرفتار حملہ کیا جائے، جس میں خاصی بڑی فضائی سپورٹ کے ساتھ کسی خاص جگہ پر کمانڈوز اتارے یا بھیجے جائیں اور چند گھنٹوں میں وہ اس مقام پر قبضہ کر کے تباہ کر دیں، کسی کو اغوا کرنا ہو تو کریں اور پھر تیزرفتاری سے واپس آ جائیں۔ چھ سے آٹھ گھنٹوں میں یہ سب کام ہوجائے۔بھارتی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کے مطابق جب تک پاکستان سنبھلے اور جوابی اقدام کرے، اس وقت تک لڑائی ختم بھی ہوجائے اور پھر پاکستان شور مچائے اورجوابی حملہ کا سوچے تو پھر عالمی قوتیں بیچ میں آجائیں اوریوںجنگ بھی نہ ہوپائے اور بھارتی جنگی برتری بھی قائم ہوجائے۔ بھارتی عسکری حلقے اس حوالے سے مریدکے میں جماعتہ الدعوۃ کے مرکز اور اس جیسے بعض دیگر اہداف کی جانب سرخ دائرہ بنا چکے تھے ۔ان کو سرپرائز اس وقت ملا جب پاکستان نے سمال سکیل نیوکلئیر ہتھیار بنا لئے جو چند سو گز کے ایریے کو تباہ کرسکتے ہیں۔ بھارتی ماہرین کے لئے یہ بڑا شاک ثابت ہوا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک سرجیکل سٹرائیک کے بدلے پاکستان ایٹم بم استعمال کرنے سے تور ہا۔ محدود علاقے کو تباہ کرنے والے سمارٹ نیوکلیئر بم نے پورا منظرنامہ بدل دیا۔ پاکستان اپنے اوپر حملہ آور بھارتی فوج کے دستوں پر بلا جھجک یہ 
ہتھیار استعمال کر سکتا ہے، سویلین بھی اس سے متاثر نہیں ہوں گے اور ہزاروں دشمن فوجی چند سکینڈز میں بھاپ بن کر اڑ جائیں گے۔ اپنے دفاع میں ایسا کرنا عالمی برادری کے لئے قابل فہم بھی ہوگا۔ اس لئے اب بھارتی ماہرین کی تخلیق کردہ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن تو گئی کنوئیں میں۔ اب بھارت یا تو آل آئوٹ وار کا رسک لے گا یا پھر وہ دوسری آپشنز استعمال کرے گا، جو وہ خاصے عرصے سے کر بھی رہا ہے۔وہ ہے پراکسی وار ، اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں شورش پیدا کرنا، دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے فوج کو الجھانا اور پھر اپنے ففتھ کالمسٹ حلقوں کے ذریعے پاک فوج کے خلاف زہریلی مہم چلوانا۔ 
تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے اسی پراکسی وار والی بھارتی آپشن کا احاطہ کرتے ہوئے لکھا ہے ،''اس وقت پاکستان کے خلاف کوئی فوجی کارروائی نہیں کرنے جا رہا۔کسی بھی وینچر اور ایڈوینچر کی نسبت کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے جنگ شروع کرنے سے پہلے فائدے اور نقصانات کا اندازہ لگانا۔ جنگ ایک ایسا معاملہ ہے جو شروع کسی بھی وقت کیا جا سکتا ہے مگر اس کا خاتمہ کسی کی خواہش کے تابع نہیں ہوتا. بھارت صرف اس صورت یہ انتہائی قدم اٹھائے گا اگر وہ کشمیر سے بالکل ہی ناامید ہو گیا ہو، ورنہ نہیں۔فی الوقت وہ دو کام کر رہا ہے، میڈیا ہائپ کے ذریعہ اپنے عوام اور دنیا کی توجہ کشمیر سے ہٹا رہا ہے اور وار ہسٹریا پیدا کر کے پاکستانی عوام کے جذبات کو بھی ہوا دے رہا ہے۔بھارت کے لیے عملاً سب سے فائدہ کا محاذ وہ ہے جس پر وہ پہلے ہی پاکستان کے اندر فعال ہے. یعنی، پراکسی وار۔ وہ جانتا ہے کہ ممبئی حملوں کی وجہ سے پاکستان کی جواب دینے کی صلاحیت محدود ہو چکی ہے۔ اس لیے وہ اس وار ہسٹیریا کو ایک خاص سطح تک لے جا کر پاکستان میں کسی بھی سافٹ ٹارگٹ کو ہٹ کر سکتا ہے جس میں بڑا جانی نقصان ہو یا پھر کسی فوجی دفتر یا تنصیبات پر کوئی حملہ پلان کر سکتا ہے تاکہ فوج کی سبکی کا تاثر پیدا کیا جا سکے۔ وہ جانتا ہے کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ پاکستان کے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا سارا بھارت مخالف جوش ٹھنڈا کر دے گا اور پھر ان کی توپوں کا رخ بھارت کے بجائے پاکستانی فوج کی طرف ہو گا۔ اس میں بعض دوست ہراول دستہ کا کام کریں گے اور ایک طنز اور تشنیع کا بازار گرم ہو جائے گا۔ یہ بھارت کی حکومت اور عوام کے لیے مورال بڑھانے اور ہمارے ہاں مورال ٹوٹنے کا باعث ہو سکتا ہے۔اس لیے ہمیں ہائی الرٹ پر ہونا چاہیے، صرف فوجی لحاظ سے ہی نہیں .... اندرونی سیکورٹی کے لحاظ سے بھی، بلکہ اندرونی محاذ پر تو فوجی الرٹ سے کہیں بڑھ کر۔دوسرا یہ کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہو بھی جائے، خدانخواستہ، تو اس کا سیاق ضرور ذہن میں رکھیں۔ لٹھ لے کر فوج پر نہ چڑھ دوڑیں۔ یہ نفسیاتی جنگ کا دور ہے اور اس کا سامنا فولادی اعصاب سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ ہیجانی ردعمل اور سینہ کوبی دشمن کی فتح کے اعلان کے مترادف ہے۔سب سے اہم یہ کہ یہ سلسلہ اب رکے گا نہیں، کم از کم تب تک نہیں جب تک سی پیک بن نہیں جاتا یا، خدانخواستہ، بگڑ نہیں جاتا۔ اس لیے حکومت اور سیکورٹی ادارے جنگی بنیادوں پر سول لاء انفورسمینٹ کے ادارے، پولیس، سول آرمڈ فورسز، ریپڈ ایکشن فورس اور سول انٹیلی جنس کو مضبوط ترین بنیادوں پر استوار کریں۔ ورنہ فوج بری طرح الجھ جائے گی اور انٹرنل سیکورٹی پر مامور فوج بیرونی محاذ پر پورا نہیں اتر پاتی۔ بھارت وار ضرور کرے گا۔ اس بارے کوئی ابہام نہیں رہنا چاہیے۔ ہمیں ہر سطح پر اور ہر لحاظ سے اس کا وار ناکام بنانا ہے. یاد رہے، اصل جنگ نفسیاتی ہے ... باقی سب محض اس کے "ہتھیار" ہیں !!!‘‘

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں