کولاج

کو لاج(collage) آرٹ کی ایک فارم ہے ، جس میں مختلف چیزوں کو ملا کرکوئی ایک نئی چیزتخلیق کی جاتی ہے۔ عام طور سے ہم میگزین کے صفحات کی ڈیزائننگ کے لئے کولاج تکنیک استعمال کراتے ہیں، جب کئی تصاویر کو ساتھ ملا کر ایک نیا مگر جامع فوٹو گرافک ایفیکٹ یا تاثر پیدا کرنا ہو۔ اپنے آج کے کالم کا عنوان کولاج اسی لئے رکھا ہے کہ میں بھی اس میں مختلف خبروں پر تبصرہ شامل ہوگا، بعض ایسی خبریں یا ڈویلپمنٹ جن پر الگ سے کالم بھی لکھا جا سکتا ہے، مگر چونکہ وہ ایک ساتھ ہو رہی ہیں، توایک ہی میں انہیں بھگتانے کی کوشش ہے ۔
دو دلچسپ خبروں نے پارلیمنٹ کے اندراور پارلیمنٹ کے باہر جنم لیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مابین کسی حد تک تلخی پیدا ہوئی۔ چودھری اعتزاز احسن نے اپنی تقریرمیں حکومت پر تنقید کی اور کشمیر پالیسی کا تذکرہ کرتے ہوئے پاناما لیکس کا ایشو بھی چھیڑا۔انہوں نے حکومت کے جی جی (گالم گلوچ)بریگیڈ کا بھی ذکر کیا۔ یہ غالباً وہی گروپ ہے، جسے عمران خان رائیونڈ جلسے میں ''موٹو گینگ ‘‘کے نام سے پکارتے رہے۔اعتزاز احسن کے حملوںسے حکومتی وزراء کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ نے مشاہداللہ خان کو اپنے پاس بلایا اورانہیں چند نکات بتائے۔ سپیکر نے اعتزاز کی تقریرکے بعد مائیک مشاہداللہ خان کو دے دیا جنہوں نے جواباً پیپلزپارٹی پر تند وتیز حملے کئے ۔ مشاہد اللہ نے اعتزاز احسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وزیرداخلہ وہ تھا، جس نے سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دے دی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاناما لیکس میں بے نظیر بھٹو کا نام بھی تھا۔ اس پرخاصا ہنگامہ کھڑا ہوا اور پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی احتجاجاً بائیکاٹ کرنے لگے، تاہم دیگرجماعتوں کے رہنمائوں نے روک لیا۔
مزے کی بات ہے کہ اگرچہ مسلم لیگ ن نوے کے عشرے کے دوران اپنی پروپیگنڈا مہم اور طرز سیاست سے لاتعلق ہونے کاتاثر دیتی ہے، لیکن پوائنٹ سکورنگ کرتے وقت انہیں نوے کے عشرے کی ڈرٹی پالیٹکس ہی یاد آئی۔ یہ الزام محترمہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں آئی جی آئی کی پروپیگنڈا ٹیم نے تراشا تھا۔ عین ممکن ہے کہ ان دنوںآئی جے آئی میڈیا ٹیم کا دماغ سمجھے جانے والے حسین حقانی ہی اس کے خالق ہوں۔ اسلامی جمہوری اتحاد، شریف فیملی اور رائٹ ونگ کے بیشتر لکھنے والوں نے اٹھاسی سے ننانوے تک کے گیارہ برسوں میں پیپلزپارٹی کے خلاف خاصا زہریلا پروپیگنڈاکیا۔ تاریخ نے جس کا بیشتر حصہ غلط ثابت کر دیا۔ میاں نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو کوسکیورٹی رسک کہتے رہے۔میثاق جمہوریت کے وقت انہوں نے پیپلزپارٹی کے ساتھ بیٹھ کر اپنے تمام الزامات کو ایک طرح سے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرست بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو دینے کا الزام بھی سراسر غلط اور بے بنیا د تھا۔ سکھ علیحدگی پسندوں کا خاتمہ کسی فہرست سے نہیں ہوا بلکہ اس فہرست دینے کے مبینہ واقعے کے چار پانچ برسوں بعدبھارتی پولیس افسر کے پی گِل کی ایک خاص کائونٹر ٹیررازم پالیسی کے تحت سکھ علیحدگی پسند تحریک کو کچلنا ممکن ہوسکا۔ ویسے بھی اس زمانے کے معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن بھی نہیں تھا کہ پیپلزپارٹی کے وزیرداخلہ کو ایجنسیوں پر اس قدر اختیار حاصل ہو پاتا۔ مشاہداللہ خان کی اس تقریر کا ایک اور اہم اور نہایت سنگین پہلو یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف دنیا بھر یہ پروپیگنڈا کررہا ہے کہ پاکستان بھارت کے اندر مداخلت کر کے علیحدگی پسند تحریکوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس بھارتی پروپیگنڈے پر حکمران جماعت کے ایک رہنما نے پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے مہر تصدیق ثبت کر دی کہ پاکستان کے پاس سکھ علیحدگی پسندوں کی فہرستیں تھیں، ان کی مدد کی جاتی تھی اور پیپلزپارٹی کے وزیرداخلہ نے بھارتی 
وزیراعظم کو وہ فہرستیں دے کر سکھ علیحدگی پسند تحریک ختم کرا دی۔ سبحان اللہ۔ ایسے ہی موقعوں پر کہا جاتا ہے کہ ع 
ہوئے تم دوست جس کے، اس کا دشمن آسماں کیوں ہو
پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی اور اطلاعات کے مطابق وہ گیلری میں بیٹھے تسبیح پڑھتے رہے۔ یہ مرحومہ بی بی کا انداز تھا،پارلیمنٹ میں آتے ہوئے خاص طور پر تسبیح ان کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ کہتے ہیں کہ انہیں بنگلہ دیش کی ایک روحانی شخصیت پیر مجیب الرحمن نے سورہ اخلاص اور بعض اسمائے ربانی کا ورد بتایا تھا۔ یہ وہی پیر مجیب ہیں جنہوں نے بھٹو صاحب کے عروج میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ یہ سر جس پر تمہیں ناز ہے، ایک دن رسی پر ٹانگا جائے گا۔ روایت کے مطابق بھٹو صاحب ہی نے بی بی کو پیر مجیب الرحمن سے جا کر ملنے کی ہدایت کی تھی۔ بعد میں جب بی بی بنگالی پیر سے ملی تو اس نے اپنا مشہور فقرہ کہا، جب آم پھٹیں گے، تب تم اقتدار میں آجائو گی ۔ پیپلزپارٹی کے بعض حلقے آم پھٹنے والے پیش گوئی سے جنرل ضیاء کے ہلاکت کا باعث بننے والے سانحہ مراد لیتے ہیں، جس میں مبینہ طور پر آموں کی پیٹیوںمیں 
رکھے بم پھٹنے سے صدارتی طیارہ تباہ ہوا۔ اسی مناسبت سے صحافی اور ناول نگار محمد حنیف نے اپنا مشہور (اوور ریٹیڈ) ناول ایکسپلوڈنگ مینگوز لکھا ۔اب یہ معلوم نہیں کہ بلاول اپنی والدہ کے وظائف کو جاری رکھے ہوئے ہیں یا ان کے کسی روحانی مشیر نے انہیں کوئی اور وظیفہ بتایا۔ بلاول بھٹو آج کل سیاسی طور پر متحرک ہیں۔ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن کی ان سے ملاقات ہوئی۔ اطلاعات ہیںکہ بلاول اپوزیشن کا ایک مائنس عمران اتحاد بنانا چاہتے ہیں، جس میں تحریک انصاف کے علاوہ دیگر اپوزیشن جماعتیں شامل ہوں۔ ویسے دیگر اپوزیشن جماعتیں ہیں کون سی ؟ایک مفت مشورہ دینا بنتا ہے کہ اگر بلاول جے یوآئی، اے این پی اور محمود اچکزئی کی پختون خواملی عوامی پارٹی کو ساتھ ملا کر اتحاد بنانا چاہتے ہیں تو اس کا نام اپوزیشن (ف) رکھنا چاہیے ۔ اخبارنویسوں اور قارئین کو تحریک انصاف اور فرینڈلی اپوزیشن کے مابین فرق فوری سمجھ آ جائے گا۔ 
عمران خان ادھر اپنا سیاسی پارہ انتہا تک لے جا چکے ہیں، ان کی غالباً یہی کوشش ہے کہ ملک کا سیاسی ٹمپریچر بھی بوائلنگ پوائنٹ تک لے جائیں۔ مسلم لیگ ن تو خیر ان کا پسندیدہ ہدف ہے ہی، وہ پیپلزپارٹی پر بھی حملہ آور ہوئے اور مائنس زرداری پیپلزپارٹی بنانے کا مشورہ دے ڈالا۔ پیپلزپارٹی کی سیاست کا تجزیہ الگ سے کرنے کی ضرورت ہے ، مگر اتنا کہنا ضروری ہے کہ موجودہ پیپلزپارٹی کا آصف زرداری صاحب سے نجات پانا ممکن نہیں۔اس کا حالیہ سٹرکچر ڈیزائن ہی زرداری صاحب نے کر رکھا ہے اور اس کے مخصوص مقاصد ہیں۔ نوجوان بلاول اگر چاہیں بھی تو وہ قدرت کی مدد کے بغیرپیپلز پارٹی کو اپنے کنٹرول میں نہیں کر سکتے۔عمران خان کے اس آل آئوٹ وار 
سے البتہ تحریک انصاف کے حامیوں کا ایک حلقہ بھی پریشا ن ہوگیا۔ دو دن پہلے میں نے تحریک انصاف کی جانب سے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ فیصلہ پر تنقید کی تو کئی ڈائی ہارڈ انصافین نے اس سے اتفاق کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کو پاناما لیکس کے حوالے سے سیاسی دبائوبرقرار رکھنا چاہیے، مگر اصل جنگ آئندہ انتخابات میںلڑی جانی ہے، توجہ ادھر مرکوز کرنا زیادہ اہم ہے۔ ایک مشورہ یہ بھی تھا کہ خان صاحب کو اسلام آباد پر چڑھائی کے بجائے مختلف شہروں میں جلسے ، جلوسوں کے ذریعے عوامی دبائو پیدا کرنا چاہیے تھا اور بہتر ہوتا کہ بڑے شہروں میں وہ چند دن بیٹھ کر تنظیم پر توجہ دیتے اور گروپ بندی ختم کراتے تاکہ اگلے الیکشن سے پہلے یکسوئی پیدا ہوسکے ۔ جمعرات کی شام مجھے بھکر سے ایک نوجوان انصافین طاہر ملک کا فون آیا۔انہوں نے بتایا کہ وہ عمران خان کے پرجوش حامی ہیں اور رہیں گے ،مگر کپتان کی حکمت عملی سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہیں یہ بات سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ جب پارلیمنٹ میں مسلم لیگ ن او رپیپلزپارٹی آپس میں الجھ پڑی تو خان صاحب کو کیا پڑی تھی کہ پیپلزپارٹی کو نشانہ بنا کر اسے دوبارہ حکمران جماعت کی طرف دھکیلے۔ میں نے انہیںٹھنڈے رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اب تک عمران خان کی ایسی پالیسیوں کا عادی ہوجانا چاہیے ، ویسے بھی خان صاحب چونکہ آل آئوٹ وار پر جانے کا فیصلہ کر چکے ہیں، اس لئے وہ شائد اس قدر جارحانہ موڈ میں ہیں۔پی ٹی آئی کے کئی دوستوں سے تبادلہ خیال کے بعد میرا خیال ہے کہ عمران خان کو تیس اکتوبر کے فائنل کٹ تک جانے سے پہلے اپنے کارکنوں اور ووٹروں کو مطمئن کرنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈنا چاہیے۔برسبیل تذکرہ ایک اندازہ یہ بھی لگایا جا رہا ہے کہ پچھلی بار کی طرح ایک اور ''باغی‘‘ بھی عین وقت پرالگ ہوجائے گا۔ دیکھیں اس بارپھر یہ'' اعزاز‘‘ ملتان کو ملتا ہے یا خیبر پختون خوا میں سے کوئی چہرہ سامنے آئے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں