معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے!

پچھلے چند دنوں سے آزادیٔ صحافت کے حوالے سے میڈیا اور سوشل میڈیا میں بحث جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر زیادہ غلغلہ مچا کہ بیچ میں دس محرم کی چھٹی کی وجہ سے اخبار شائع نہیں ہوا‘ اور پڑھنے والوں کے پاس فیس بک یا نیوز ویب سائٹس کے سوا اور کوئی آپشن نہیں بچی تھی۔ مجھے یہ بحث اس لحاظ سے خوش آئند لگی کہ چلو اس بہانے اس پرانی آزادیٔ صحافت والی بحث کے کئی پہلو واضح ہو جائیں گے۔ میرے نزدیک یہ معاملہ آزادیٔ صحافت سے زیادہ غیر ذمہ دارانہ صحافت کا تھا۔ ویسے صحافت اور اہل صحافت کی بات تو بعد میں آتی ہے، اصل بات یہ تھی کہ کیا نیشنل سکیورٹی کے ایشو پر ایک انتہائی اعلیٰ سطحی اجلاس کی کارروائی لیک ہوئی یا نہیں؟ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر جاری بحث میں یہی نکتہ اٹھایا گیا۔ بہت سے دوستوں نے اس سے اتفاق کیا، بعض کو یہ شکوہ تھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کرنے کا کہہ کر سویلین حکومت نے کون سی غلطی کی؟ اس پر انہیں سمجھایا کہ تمام جھگڑے میں اس پر کوئی بحث نہیں کہ کس نے میٹنگ میں کیا کہا اور کیوں کہا، اصل بات یہ ہے کہ اتنے اہم سطح کے اجلاس کے منٹس اگر لیک ہو کر صحافیوں تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر ایسی اطلاعات غیر ملکی ایجنسیوں تک پہنچنے سے کون روک سکتا ہے؟ اصل اہمیت اس لیکیج کی ہے، جسے انتہائی سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ اگر وزیر داخلہ نے اس پر سختی سے نوٹس لیا اور اس کی بھرپور تحقیقات کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے تو ایسا کرتے ہوئے وہ حق بجانب ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے بھی اس معاملے کا گہرائی سے جائزہ لینے اور اصل حقیقت کا کھوج لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسے سراہنا چاہیے۔ سویلین حکومت پر چارج شیٹ لگانے کی کسی کو ضرورت نہیں؛ تاہم جو واقعہ ہوا، اس پر تحقیقات حکومت ہی نے کرنا ہے، اسی کا یہ کام ہے۔ سرل المییڈہ کا نام ای سی ایل میں ڈالنا البتہ جلدبازی تھی۔ جو صحافی اپنی خبر پر سٹینڈ لے رہا ہے، اسے ملک سے باہر فرار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اچھا ہوا کہ بعد از خرابیء بسیار صحافی کا نام ای سی ایل سے نکال دیا گیا۔ 
بہت سا دہ سا نکتہ ہے، جسے سمجھنا کوئی مشکل نہیںکہ یا تو انگریزی اخبار میں چھپنے والی سرل المییڈہ کی سٹوری غلط ہے یا درست۔ اگر غلط ہے‘ جیسا کہ حکومت اور ادارے کہہ رہے ہیں تو یہ نہایت سنگین ایشو ہے۔ کسی بھی اخبار یا چینل میں ایسی حساس نوعیت کے معاملات پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ نہیں ہونی چاہیے۔ صحافت کی وادی پُرخار میں دو عشروں سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد اس کا اچھی طرح سے اندازہ ہے کہ جہاں کچھ خبریں میڈیا سے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہاں بہت سی خبریں میڈیا پر چھپوانے یا چلانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ صحافی ہو یا میڈیا ہائوس، ہر کوئی استعمال ہونے سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کہیں پر غلطی سے کوئی شائع یا نشر کر دے تو پھر اس پر اصرار نہیں کیا جاتا، اس کی معذرت کر لی جاتی اور آئندہ کے لئے محتاط رویہ اپنایا جاتا ہے۔ اگر کوئی اپنی سٹوری پر سٹینڈ لے تو پھر اس سے پوچھا جانا چاہیے، اس کے پاس کچھ ثبوت ہیں تو پیش کر دیں۔ ایسا کرنے میں آزادیٔ صحافت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ آزادیٔ صحافت کو سب سے زیادہ نقصان غیرذمہ دارانہ، نان پروفیشنل صحافتی طرز عمل سے پہنچتا ہے۔ ایک منٹ کے لئے فرض کر لیں کہ یہ خبر درست ہے، تب بھی اس قسم کی نیشنل سکیورٹی سے متعلق خبریں نہایت احتیاط سے ڈیل کی جاتی ہیں۔ جس انداز میں اسے چھاپا گیا‘ وہ درست نہیں تھا۔ سٹوری کی کنسٹرکشن ٹھیک نہیں تھی، ایسی قطعیت کے ساتھ ایسی خبریں نہیں دی جاتیں، جس میں نام بھی واضح ہوں اور ان کے مکالمے بھی، گویا رپورٹر نے میٹنگ میں بیٹھ کر اسے رپورٹ کیا ہو۔ ہم نے اپنے سینئرز سے دو باتیں سیکھیں، ایک: ایسے انداز میں خبر دی جائے یا لکھا جائے کہ ابلاغ بین السطور (Between The Lines) ہو جائے اور کوئی اعتراض بھی نہ کر پائے، دوسرا یہ کہ وہ نہ چھاپا جائے، جسے بعد میں ثابت نہ کیا جا سکے۔ ایسی خبر جس میں رپورٹر خود یہ لکھ رہا ہے کہ جس کسی سے رابطہ کیا گیا، اس نے تصدیق نہیں کی۔ جب کوئی کنفرم کرنے پر تیار ہی نہیں تو بھیا پھر خبر کیوں دے رہے ہو؟ اس معاملے میں ایک اور اینگل نظر آ رہا ہے، یہ کہ کسی نے دانستہ طور پر ایک غلط اور بے بنیاد خبر پلانٹ کی۔ کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ میں یہی بات کہی گئی۔ اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے، یہ نہ ہو کہ کل کو کسی اخبار یا چینل میں پاکستانی نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے کوئی بے بنیاد سٹوری چل جائے اور پھر معلوم ہو کہ اس کی بنیاد پر دنیا بھر میں پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ بن جائے۔ 
اس ایشو پر بات کرتے ہوئے مجھے چند سال پہلے امریکہ میں کم و بیش ایسا ہی ایک معروف کیس یاد آ گیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ بنام لیوس لبی ایک معروف تنازع تھا‘ جو صدر بش 
کے دور میں مشہور ہوا اور آزادیٔ صحافت کی بحثیں ان دنوں امریکہ میں بھی ہوتی رہیں۔ عراق پر امریکہ کے حملے سے یہ تنازع جڑا ہوا تھا۔ دراصل امریکی حکومت نے صدام حکومت کے خلاف لمبی چوڑی چارج شیٹ بنائی جس میں یہ دعویٰ کیا کہ عراقی آمر کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (WMD) موجود ہیں، جو امن کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔ اسی چارج شیٹ میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم کا ییلو کیک مواد حاصل کیا تاکہ ڈرٹی بم بنائے جا سکیں۔ اس پر بعد میں عراق جنگ کے ایک مشہور ناقد جوزف ولسن کا نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل شائع ہوا، جس میں اس نے اس امر کی تردید کی کہ عراقی حکومت نے نائجر سے یورینیم حاصل نہیں کی تھی۔ اس کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے۔ جوزف ولسن کو نائجر فیکٹ فائنڈنگ مشن پر بھیجا گیا تھا اور اس نے اس الزام کی مکمل تحقیقات کی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کا ری پبلکن انتظامیہ نے سخت برا منایا کیونکہ اس سے ان کی پوری چارج شیٹ غلط ثابت ہوئی تھی۔ ولسن کے اس مضمون کے بعد دو تین اخبارات میں ولسن کے خلاف تنقیدی مضامین شائع ہوئے اور بعض رپورٹس میں اشارتاً یہ بھی کہا گیا کہ جوزف ولسن کی بیوی ولیری پلیم ولسن سی آئی اے کے لئے کام کرتی ہے۔ یہ ایک سنگین لیکیج تھی، کیونکہ ولیری پلیم سی آئی اے کے لئے خفیہ ایجنٹ کے طور پر کام کر رہی تھی۔ ولسن اور اس کی بیوی نے اس پر خاصا احتجاج کیا اور مختلف آٖفیشلز کو خطوط لکھے، جس پر آخرکار اس معاملے کی تحقیقات شروع ہوئی کہ آخر ری پبلکن انتظامیہ میں کون شخص تھا، جس نے یہ اطلاع 
صحافیوں کو لیک کی۔ لمبی چوڑی تحقیقات کے بعد ثابت ہو گیا کہ لیوس سکوٹر لبی نے‘ جو اس وقت نائب صدر ڈک چینی کے چیف آف سٹاف تھے‘ دو تین صحافیوں سے ملاقاتیں کیں اور ولسن پر تنقید کرتے ہوئے اس کی بیوی کے سی آئی اے کے لئے کام کرنے کا حوالہ دیا۔ معروف صحافی جوڈتھ ملر کو‘ جو ان دنوں نیویارک ٹائمز کے لئے کام کر رہی تھیں‘ عدالت نے بلایا۔ ملر نے اپنا سورس ظاہر کرنے سے انکار کر دیا اور توہین عدالت پر تین ماہ کے لیے جیل بھیج دی گئی۔ ٹائم کے ایک رپورٹر کو بھی جیل جانے کا خطرہ تھا، مگر پھر اس نے اپنے نوٹس عدالت کے ساتھ شئیر کئے، بعض دیگر صحافیوں کو بھی تفتیش کے لئے بلایا گیا۔ لیوس لبی پر پانچ الزامات تھے، ان میں سے چار ثابت ہو گئے۔ عدالت نے اسے ڈھائی سال قید کی سزا، ڈھائی لاکھ ڈالر جرمانہ اور کئی سو گھنٹے کمیونٹی سروس کے علاوہ دو سال پروبیشن میں رکھنے کا حکم سنایا۔ قید کی سزا بعد میں صدر بش نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ختم کر دی، مگر جرمانہ اور دیگر سزائوں کا لیوس لبی کو سامنا کرنا پڑا۔ اس کا وکالت کا لائسنس اگلے کئی برسوں کے لئے معطل ہو گیا، ایک تھنک ٹینک کا وہ ایڈوائزر تھا، سزا ملتے ہی وہ ملازمت ختم ہو گئی۔ نیشنل سکیورٹی کے ایشوز لیک کرنے کے جرم میں شاندار کیریئر کے حامل لیوس لبی کا سب کچھ خاک میں مل گیا۔ 
یہ اس ملک کا احوال ہے، جہاں سے آزادیٔ صحافت اور آزادیٔ اظہار کے ضابطوں، قوانین اور نعروں نے جنم لیا۔ ہر معاملہ مگر نعرے بازی سے حل نہیں ہو سکتا۔ نیشنل سکیورٹی ایشوز دنیا بھر میں نہایت سنجیدگی اور احتیاط سے لئے جاتے ہیں۔ ہمارے لوگوں کو یہ بات سیکھنا ہو گی۔ اس کے لئے مگر ضروری ہے کہ قوانین کا احترام کرنا سیکھا جائے اور اس کا دنیا بھر میں ایک ہی طریقہ ہے۔ کوئی خواہ کس قدر طاقتور ہو، اس پر قوانین کا اطلاق کیا جائے، مجرم کو سزا ملے اور بے گناہ کو ہراساں نہ کیا جائے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں