سانحہ کوئٹہ، چند سادہ حقائق

کوئٹہ میں دو دن پہلے جو قیامت گزری، اس نے ہر ایک کو غمزدہ اور دکھی کر دیا ہے۔ یہ دل چیر دینے والا سانحہ تھا۔ وہ نوجوان جو نجانے کتنی امیدیں لے کر آئے تھے، تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کے خاندانوں کو امید اور حوصلہ ملا ہو گا، لیکن یکایک سب کچھ خاک میں مل گیا۔ اس دکھ کے ساتھ فرسٹریشن اور غصہ آنا فطری ہے، مگر اس نازک وقت میں بھی اپنے اعصاب پر قابو رکھنے اور سامنے کی چند سادہ حقیقتیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ 
نااہلی اور کوتاہی تو ہوئی: میں نے پچھلے دو دنوں میں سوشل میڈیا پر بہت سی چیختی چنگھاڑتی تحریریں دیکھیں۔ کسی کو غصہ ہے کہ بلوچستان کے لئے فنڈز نہیں خرچ کئے جا رہے تو کوئی پنجاب حکومت کے اورنج ٹرین اور میٹرو بس پروجیکٹس پر غصہ نکال رہا ہے کہ یہاں سینکڑوں ارب روپے خرچ ہوئے اور کوئٹہ کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ سچ یہ ہے کہ باتیں تو بہت سی ہو سکتی ہیں، مگر بہرحال نااہلی اور کوتاہی مقامی سطح پر بھی ہوئی۔ تربیت کے لئے سات سو نوجوان آئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند سو بوری ریت چاروں طرف ڈال دی جاتی اور صرف درجن ڈیڑھ درجن گارڈز تعینات ہوتے، کچھ مورچوں میں، کچھ چھت پر، تو کیا دہشت گرد یوں آسانی سے داخل ہو سکتے اور کیا محافظ گارڈز انہیں نشانہ نہ بنا لیتے؟ اس میں کیا خرچ آ جانا تھا؟ یہ کون سا پنجاب، فوج، جرنیلوں یا سیاستدانوں کا قصور تھا؟ کامن سینس کی بات تھی، جو نہیں کی گئی اور اس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑے۔ 
تھریٹ الرٹس: یہ بات میڈیا پر بہت بار آئی کہ حملوں کا خطرہ موجود تھا اور تھریٹ الرٹ بھی جاری ہوتے رہے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ صاف بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس قدر زیادہ تعداد میں تھریٹ الرٹس جاری ہوتے ہیں کہ ان پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ انہیں کوئی سنجیدہ لیتا ہی نہیں۔ بعض سکیورٹی ماہرین نجی طور پر یہ اعتراف کرتے ہیں کہ شاید مختلف ادارے حفظ ماتقدم کے طور پر یہ تھریٹ الرٹس جاری کر دیتے ہیں۔ شہر میں جہاں کہیں حملہ ہونے کا اندیشہ ہے، حساس تنصیبات، پولیس ہیڈ کوارٹرز، تعلیمی ادارے، کورٹس، بازار، پارک، مشہور پبلک مقامات وغیرہ... ہر جگہ حملے کی پیش گوئی کر دی جاتی ہے۔ خدانخواستہ حملہ ہو جائے تو اپنی کھال بچانے کے لئے فوری طور پر دو تین ہفتے یا مہینہ دو پرانا الرٹ نکال کر پیش کر دیا جاتا ہے، میڈیا پر لیک ہو جاتا ہے کہ دیکھیں ہم نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا، اب یہ ان کی اپنی نااہلی ہے کہ مناسب حفاظتی انتظامات نہیں کئے۔ 
ان تھریٹ الرٹس کا تجزیہ ہونا چاہیے اور بے بنیاد، خواہ مخواہ یہ الرٹ جاری کرنے والوں کا محاسبہ بھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس بار عاشورہ سے پہلے فیصل آباد کے اخبارنویس بتا تے رہے کہ یہاں پر بڑا سیریس قسم کا الرٹ جاری ہوا ہے، جس میں پہلی بار کچھ لوگوں کی تصاویر بھی ایشو کی گئی ہیں۔ حیران کن طور پر ان میں ایک آٹھ سالہ لڑکا، ایک خاتون اور بڑی عمر کے مرد شامل تھے، ان کے نام اور تصاویر تک جاری کئے گئے۔ پولیس اور دیگر ادارے دیوانہ وار فیصل آباد میں لگے رہے، مگر الحمدللہ یہ بے بنیاد اطلاع ثابت ہوئی۔ یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس شخص کے پاس ان ممکنہ خود کش حملہ آوروں کی تصاویر اور نام تک موجود ہیں، اس کے لئے انہیں سفر کے دوران پکڑوانا کیوں ممکن نہیں ہو سکا۔ اس گورکھ دھندے پر بھی ہمارے سکیورٹی ماہرین توجہ دیں۔
ایک صفحے پر حقیقت میں آنا: ہر بار کسی دہشت گردی یا دیگر قسم کے سانحہ کے بعد یہ اعلان ہوتے ہیں کہ سول اور ملٹری ایک ہی پیج (صفحے) پر ہیں۔ ہم اس دعوے پر شک نہیں کرنا چاہتے اور یقین کرتے ہیں کہ سول ملٹری قیادت ملک بچانے کے لئے متحد رہے گی۔ دو باتوں سے مگر اجتناب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ دعویٰ اب چھوڑ دیا جائے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔ یہ اگرچہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا بڑی حد تک صفایا ہو گیا اور دہشت گردی میں نوے فیصد سے زیادہ کمی ہو گئی ہے، مگر جو پانچ دس فیصد افسوسناک واقعات ہو رہے ہیں، ان کی شدت سے بعض اوقات ملک ہل کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے جب تک ملک کو ٹیررازم فری نہیں بنا دیا جاتا، تب تک کوئی دعویٰ نہ کیا جائے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان کو پولیو فری بنانے میں ابھی مزید کچھ عرصہ لگ جائے گا، دہشت گردی کے عفریت کو مکمل طور پر ختم کرنا تو اس سے کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ کئی برس اس میں لگ جائیں گے۔ ایک کورین کہاوت ہے کہ آنکھوں کو مسلنا نہیں چاہیے، لیکن اگر کسی نے یہ کام کرنا ہے تو پھر اپنی کہنیوں سے آنکھیں مسلے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے دعوے پر بھی ہم یہی کہیں گے کہ اگر یہ فقرہ بولا جائے تواس میں لفظ نہ ہوں۔
کریڈٹ/ ڈس کریڈٹ: دوسرا کام جس سے ہر صورت بچنا ہوگا، وہ ہے کریڈٹ لینا۔ دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں کس کا حصہ زیادہ ہے، وہ ہر ایک کو معلوم ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ ریاست پاکستان کی کامیابی ہے۔ اسے ریاست کی کامیابی ہی لگنا چاہیے کیونکہ ریاستی ادارے یہ کام کر رہے ہیں۔ جب کامیابی کا کریڈٹ ریاست کو دیا جائے تو پھر خدانخواستہ کسی ناکامی کا ڈس کریڈٹ بھی ریاست برداشت کرتی ہے، کسی فرد یا ادارے پر اس کا بوجھ نہیں آتا۔ جب سول یا ملٹری میں سے کوئی بھی فریق کسی خاص کام کا کریڈٹ لینے لگے تو پھر مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ سیاسی حکومت کو بھی یہ سمجھنا چاہیے۔ سی پیک دو ممالک (چین، پاکستان)کے مابین ارینجمنٹ ہے۔ حکومت میں کوئی ہو، اس سے فرق پڑتا ہے نہ پڑنا چاہیے۔ کچھ کام اپنی ذات سے بالاتر ہو کر صرف ملک و قوم کے لئے کر لینے چاہئیں۔ اگر حکمران جماعت اسے اپنے سیاسی فوائد کے لئے استعمال کرے گی تو پھر اس پر ردعمل آئے گا اور سی پیک جیسا عظیم منصوبہ متنازع بن جائے گا۔ 
قومی سانحوں میں نو پالیٹیکس: یہ ایک سادہ اصول ہے۔ اتنے بڑے ہولناک قومی سطح کے سانحات میں قطعی طور پر سیاست نہیں آنی چاہیے۔ کوئٹہ میں کچھ عرصہ قبل وکیلوں پر حملہ ہوا، اسے سی پیک پر حملہ قرار دیا گیا اور بجا طور پر ایسا کہا گیا۔ حالیہ حملے کا ہدف بھی سی پیک ہی ہے، اسے اسی بڑے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے۔ مجھے شدید حیرت اور دکھ ہوا جب پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے یوں تاثر دیا جیسے یہ حکومت نے دھرنا منسوخ کرانے کے لئے
کرایا ہو۔ نرم سے نرم الفاظ میں ایسے غلط اور افسوسناک الزام کی شدید ترین مذمت کرنا چاہیے۔ عقل و ہوش رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ جملہ نہیں بول سکتا۔ اس حملے کی ٹائمنگ اہم تھی، مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ دانستہ رکھی گئی۔ دہشت گردوں کا اصل مقصد پاکستانی قوم کو منتشر اور منقسم کرنا ہے۔ اس کے لئے وہ اپنی مرضی کی ٹائمنگ اور علاقہ کا انتخاب کریں گے اور دانستہ طور پر ایسا تاثر دیں گے ،جس سے مختلف شکوک و شبہات پیدا ہوں۔ ہمیں دہشت گردوں کو ہر حال میں ناکام بنانا ہے۔ سیاستدانوں نے نوے کے عشرے میں ایک دوسرے کر سکیورٹی رسک قرار دے کر دیکھ لیا، بعد میں دونوں بڑی جماعتوں کو ساتھ مل کر بیٹھنا ہی پڑا۔ اب وہی غلطی نہ دہرائی جائے۔ عمران خان نے وزیر اعظم نواز شریف کو سکیورٹی رسک کہا۔ یہ ایک نہایت کمزور، سطحی اور عامیانہ جملہ تھا۔ عمران خان جیسے قومی سطح کے لیڈر کو اتنا نیچے نہیں آنا چاہیے۔ وزیر اعظم نواز شریف کی ذات، ان کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی جا سکتی ہے، میرے جیسے لوگوں کو بھی اس حوالے سے متعدد تحفظات ہیں، مگر انہیں سکیورٹی رسک کہنا بالکل غلط، جھوٹ اور نامناسب ہے۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے، الزام لگانے، حتیٰ کہ کیچڑ اچھالنے کی سطح تک گرنے کے لئے بھی بہت سی سیاسی و غیر سیاسی وجوہ موجود ہوتی ہیں، حب الوطنی کو براہ کرم اس میں شامل نہ کیا جائے۔ جس طرح مولانا فضل الرحمن کی جانب سے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہنا ایک نامناسب جملہ ہے، نواز شریف کو سکیورٹی رسک کہنا بھی اسی نوعیت کا جملہ ہے۔ پی ٹی آئی کے نوجوان اور پُرجوش کارکنوں کو اپنے لیڈر کی واہ واہ کے ساتھ ان کی کمزوریوں پر گرفت کرنا بھی سیکھنا چاہیے۔ ان کی پارٹی کی بقا اور پھلنے پھولنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں