ٹرمپ کے بعد کا امریکہ کیسا ہوگا؟

اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بن جانے کے بعد امریکہ پہلے سے کس قدر مختلف ہوجائے گا ؟تبدیل شدہ امریکہ سے جڑا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کے دنیا بھر پر کیا اثرات برآمد ہوں گے۔ سپر پاور میں آنے والی تبدیلی صرف اسی تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ اکثر اوقات یہ ایک لہر پیدا کرتی ہے، جو دنیا کے دوسرے خطوںمیں بھی گہرے اثرات کا باعث بنتی ہے۔دنیا بھر میں تجزیہ کار، تھنک ٹینک اور حکومتی ماہرین ٹرمپ کے پالیسی بیانات، اس کے الیکشن ایجنڈے کا تجزیہ کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔
یہ سب تو خیر اب ہوتا رہے ، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ ٹرمپ نے ہر ایک کو حیران کر دیا۔ ان کی جیت جدید امریکی انتخابی تاریخ کا سب سے بڑا اپ سیٹ کہا جا سکتا ہے ۔ ٹرمپ نے تمام تجزیے، سروے، ایگزٹ پولز، ماہرین کی آرا، سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیاں غلط ثابت کر دیں۔ ہر کوئی ناکام ہوگیا۔ سی این این پر صف ماتم بچھی ہے، نیویارک ٹائمز سے واشنگٹن پوسٹ اور وال سٹریٹ جرنل سے برطانوی اخبار گارڈین تک ہر ایک کے قارئین کو بڑا دھچکا لگا۔ جو یہ دعویٰ کرتے تھے کہ دنیا کی ہر خبر پر ان کی نظر ہے، ان کی ماہرانہ نظر سے کچھ بھی بچ کر نہیں جا سکتا، ان کے سب دعوے باطل ٹھیرے۔ اسی وجہ سے نو نومبرکو آنے والے اس نتیجہ کو نائن الیون کی طرز پرگیارہ نو (11/9) کہا جا رہا ہے۔ جس دن ہر چیز تلپٹ ہوکر رہ گئی۔ بہت سے امریکہ ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ اب دنیا پہلے سے مختلف ہوجائے گی۔امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے ٹویٹ کیا،''یہ سیاسی پنڈتوں کے تجزیوں کا اختتام ہے۔‘‘جنوبی ایشیا میں کام کرکے جانے والی ایک معروف امریکی صحافی نے دل گرفتگی سے تبصرہ کیا،'' آج امریکہ میں جمہوریت ختم ہوگئی۔ ‘‘امریکہ کے بعض شہروں میں ٹرمپ کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔ نو مور ٹرمپ، وی ڈونٹ نیڈ ٹرمپ(ہمیں ٹرمپ نہیں چاہیے)کے نعرے لگاتے مظاہرین سڑکوں پر آگئے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد کینیڈا امیگریشن کی معلومات دینے والی ویب سائیٹ پر امریکیوں کا رش اس قدر بڑھ گیا کہ ویب سائٹ کریش ہوگئی، یعنی امریکیوں کی اچھی خاصی تعداد اس قدر مایوس ہوگئی کہ اس نے کینیڈا امیگریشن کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ امریکہ میں مسلمانوں کی تنظیموں میں شدید مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی مسلمانوں نے اپنا تمام تر وزن ہیلری کلنٹن کے پلڑے میں ڈالا تھا۔ ان سے بھی زیادہ مایوس سیاہ فام امریکی ہوئے ،اتنے یا تھوڑے کم زیادہ فرسٹریشن ہسپانوی آبادی میں محسوس کی جا رہی ہے، جن کے حوالے سے ٹرمپ نے الیکشن مہم میں بڑے سخت بیانات دئیے تھے ۔ 
ٹرمپ نے یہ سب کیسے کر دکھایا؟ اس پر بہت تبصرے، تجزیے ہو رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ پاکستانی چینلز پر رات گئے تک جو لوگ ہیلری کلنٹن کو جتوا رہے تھے ،ا س حوالے سے ماہرانہ تبصرے کر رہے تھے، بدھ کے دن وہی قلابازی کھا کر ٹرمپ کے جیتنے کی وجوہ بیان کر نے لگے۔ امریکی میڈیا میں اس حوالے سے بہت کچھ آ رہا ہے ۔ مختلف نکات گنوائے جا رہے ہیں۔ ہیلری کا خاتون ہونا بھی ایک وجہ سمجھی جارہی ہے۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات حیران کن ہوگی، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ امریکہ معاشرہ اپنے اندر بنیاد پرستی اور قدامت پرستی کے رجحانات رکھتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ہیلری کی مخالفت خود خواتین کے ایک حلقے کی طرف سے ہوتی رہی ۔ اب خود امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ جس طرح سفید فام لوگ ٹرمپ کے لئے باہر نکلے، اسی طرح سیاہ فام لوگ ہیلری کے لئے باہر نہیں آئے۔ یہی سیاہ فام پچھلے دو صدارتی انتخابات میں اوباما کے لئے باہر نکلے تھے، اس بار ٹرمپ سے شدید اختلاف اور عناد کے باوجود ہیلری کے لئے وہ زیادہ گرم جوشی نہیں دکھا سکے۔ ہیلری کی انتخابی مہم چلانے والوں کا خیال تھا کہ ٹرمپ کے خواتین مخالف بیانات سے ناراض ہو کر امریکی خواتین بڑی تعداد میں باہر آ کر ہیلری کو ووٹ دیں گی، ایسا نہیںہوسکا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں سب سے اہم نکتہ یہ گیا کہ انہوں نے امریکی عوام ، خاص کر اکثریتی سفید فام آبادی کے جذبات کو سمجھا ، ان کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی اور ان کے حقیقی مسائل کو سامنے لاتے ہوئے انہیں متحرک کر دیا۔ مشی گن، اوہائیو، پنسلوانیا،وسکانسن جیسی ریاستوں میں خاص طور پر ایسا ہوا، جہاں ماضی میں انڈسٹریزموجود تھیں، مگر سست رفتار امریکی معیشت کے باعث وہ صنعتیں دوسرے علاقوں اور بعض دوسرے ممالک میں منتقل ہوگئیں اور ان ریاستوں میں بیروزگاری اور بدحالی پھیل گئی ۔ ٹرمپ کی جانب سے امریکی معیشت کو تیز کرنے، امریکی مفادات کو مقدم رکھنے اورامریکی نوجوانوں کے لئے زیادہ بہتر روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے دعوئوں نے بھی جادو کر دکھایا۔ ایک فیکٹر نسلی، ثقافتی شناخت کا بھی تھا۔ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کے شناخت کے مسئلے کو بھی سمجھا اور ان میں اعتماد پیدا کیا۔ سیاہ فاموں، تارکین وطن لوگوں سے مقامی آبادی کو جو خدشات موجود تھے ، انہیں نہایت عمدگی سے استعمال کرتے ہوئے ووٹروں کو باہرنکلنے پر مجبور کیا۔ ٹرمپ کی کامیابی دراصل ان کی اپنی زوردار ، دبنگ شخصیت کی کامیابی ہے۔ اسے ری پبلکن سے زیادہ شخصی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کوخالص ری پبلکن پارٹی کا رہنمانہیں مانا جاتا، ان کے متنازع بیانات کی وجہ سے کئی اہم ری پبلکن لیڈروں نے ان کی اعلانیہ مخالفت کی، اس کے باوجود ٹرمپ نے اپنا موقف نہیں بدلا اور دھڑلے سے مہم جاری رکھی ، حتیٰ کہ ڈیموکریٹس سے الیکشن چھین کر دکھا دیا۔ 
کالم کے شروع میں سوال اٹھایا تھا کہ ٹرمپ کے بعد کا امریکہ کیسا ہوگا؟ اس پر ابھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ الیکشن جیتنے کے بعد ٹرمپ نے اچھی معتدل تقریر کی اور کہا کہ یہ تقسیم کے بجائے متحد ہونے کا وقت ہے۔ یہ الیکشن مہم کا ٹرمپ نہیں بلکہ ایک سپرپاور کے نومنتخب صدر کی تقریرمعلوم ہوئی۔ یہ سیاست کے عملی تقاضے ہیں۔ الیکشن لڑنا ایک اور بات ہے اور وائٹ ہائوس میں پہنچنے کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے ۔ ٹرمپ کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنا انتخابی ایجنڈا ہی کئی اہم اور اختلافی باتوں پر استوارکیا تھا، جن سے ہٹنا ان کے لئے آسان نہیں۔ امریکی صدر اپنے پہلی ٹرم میں کچھ ایسے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے ، جن کی بنا پر وہ دوسری ٹرم کے لئے بھی منتخب ہوسکے۔ ٹرمپ پر یہ دبائو بھی ہوگا اور دوسرا ان میں ایک خاص
قسم کا خبط عظمت بھی جھلکتا ہے۔ ایسے لوگ اہم اور فیصلہ کن اقدام کر گزرتے ہیں تاکہ بزعم خود نئی تاریخ رقم کر سکیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکی سماج، تھنک ٹینکس، اہل دانش، میڈیا اور سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اپنا کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ امریکی تاریخ کا نازک دور شروع ہوچکا۔ ٹرمپ عام امریکیوں کی امیدوں پر پورا اترتے ہیں یا پھر سپر پاور امریکہ کے اندر موجود فالٹ لائنز کو مزید گہرا اور وسیع کریں گے، امریکہ کے اندرونی تضادات کسی بڑے دھماکے کی طرف جائیں گے یا پھر امریکہ سماج ٹرمپ کے شاک کو بھی سنبھال جائے گا... یہ سب ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں ا س وقت قطعیت سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، رفتہ رفتہ ہی اس کا اندازہ ہوپائے گا۔ 
دنیا کے جن خطوں کے لئے امریکی پالیسی بدل سکتی ہے، اس میں زیادہ جارحیت، زیادہ سختی آ سکتی ہے، ان میں جنوبی ایشیا بھی شامل ہے۔ پاکستان پر دبائو بڑھنے کا امکان ہے۔ نیوکلیئر ایشو اورحقانی نیٹ ورک کے معاملے پر صدر ٹرمپ کارویہ صدر اوباما سے مختلف ہوسکتا ہے۔ افغانستان میں بھی امریکی سٹریٹیجی تبدیل ہوسکتی ہے۔ بھارت امریکہ گٹھ جوڑ بڑھے گا، اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان چین اتحاد زیادہ مضبوط ہوگا۔ ایران، مڈل ایسٹ کے حوالے سے بھی امریکہ زیادہ فعال ہوسکتا ہے۔ ٹرمپ کو نیٹو پر سخت اعتراضات تھے اور روسی صدر پوٹن کے حوالے سے وہ نرم گوشہ ظاہر کر چکے ہیں۔ اب وائٹ ہائوس میں آنے کے بعد ان کا رویہ کیا ہوگا، یہ دلچسپی سے دیکھا جائے گا۔ ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے امریکی پالیسی میں یو ٹرن آ سکتا ہے، فری ٹریڈ کے حوالے سے ٹرمپ ہنگامہ خیز ی کر سکتے ہیں۔ ان کے وجود سے ہنگامے وابستہ رہے ہیں ، وائٹ ہائوس میں بیٹھنے کے بعد کیا ان کا کھولتا مزاج کس قدر ٹھنڈا ہوپائے گا؟یہ سوال اہم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں