پیپلزپارٹی کی واپسی ممکن ہے؟

ہمارے ایک دوست پیپلزپارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو نسلوں سے ان کا خاندان بھٹو خاندان کے سحر کا اسیر ہے۔والد بھٹو صاحب کے زبردست حامی تھے، گھر کے ماحول کے مطابق صاحبزادے بھی طالب علمی ہی سے پیپلزپارٹی کے سپورٹر بن گئے ۔ پارٹی کے دوسرے کارکنوں اور حامیوں کی طرح جنرل ضیاالحق کونمبر ون ولن اور''' تاریخ انسانی‘‘ میں نازل ہونے والی تمام تر برائیوں اور فتنوں کا موجب سمجھتے ہیں۔ اب تو خیر ان کے بالوں میں چاندی اتر آئی بلکہ چھا گئی ہے، پوری جوانی پیپلزپارٹی کی سیاسی جدوجہد کا ساتھ دیتے ہوئے گزار دی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے 1986ء میں لاہور ائیرپورٹ پر استقبال سے لے کر بی بی کی پنڈی کے لیاقت باغ سٹیڈیم میں المناک موت تک موصوف نفع نقصان سے بے نیاز ہو کر پارٹی کے ساتھ رہے ، مشکلات بھی برداشت کیں،ثمرات سے بے نیاز رہے، مگر کبھی شکوہ زبان پر نہیں آیا۔ ستائیس دسمبر 2007ء کی شام ایک بڑا سانحہ تو بی بی کا سفاکانہ قتل تھا، جس نے ایک اور دلچسپ واقعے یا بعض جیالوں کے بقول ایک اور سانحے کی بنیاد ڈال دی۔ اس شخص کا پارٹی سربراہ بننا، جو ستائیس دسمبر کی شام چھ بجے تک پارٹی کے ہر حلقے میںشدید ناپسند کیا جاتا تھا۔جسے پاکستان آنے کی اجازت نہیں تھی، جس کے لئے بیرون ملک زندگی گزارنے کا فیصلہ ہوچکا تھا، وہ پارٹی کا آل ان آل بن گیا۔ پی پی پی کے دوسرے کارکنوں کی طرح ہمارے دوست نے بھی نئی قیادت کوقبول کر لیا، یہ دل خوش کن امر بھی سب کے سامنے تھا کہ اقتدار کی دیوی گیارہ برس بعد پھر پیپلزپارٹی پر مہربان ہوگئی ۔مشہور محاورے کے مطابق کامیابی کے سو باپ اور ناکامی کا کوئی وارث نہیں ۔
''عہد زرداری‘‘ شروع ہوچکا تھا۔ پاکستان کے سیاسی حلقوں میں سب سے کائیاں اور ہوشیار سمجھے جانے والے سیاستدان کواس کی زندگی کا سب سے بڑا منصب، ملک کی صدارت مل گئی۔اس عہد کے بارے میں عجب قصے ، کہانیاں مشہور ہیں۔ جانے کتنا سچ، کتنا غلط ۔ اقتدار کی غلام گردشوںتک رسائی رکھنے والے ان کی صداقت پر اصرار کرتے ہیں۔ کہتے ہیں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو کر'' بڑے صاحب ‘‘کا اعتماد اوراحساس برتری دیدنی تھا۔ایک مغربی اخبارنویس نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ نے کوئی کتاب لکھی ہے؟ صاحب کی پیشانی پر شکنیں پڑ گئیں۔تفاخر سے بولے، ''ہم کتابیں نہیں لکھتے، بلکہ ہم پر کتابیں لکھی جاتی ہیں۔‘‘پارٹی میں جو لوگ بی بی کے قریب سمجھے جاتے تھے، ان کو سردمہری سے ڈیل کیا جانے لگا۔ کئی ایک تو کنارہ کش ہوجانے پر مجبور ہوگئے۔روایت ہے بی بی کے بعض پرانے ساتھیوں کو دیکھ کر پھبتی کسی جاتی ،یہ بی بی کے جہیز میں آئے تھے۔بعض ایسے کہ آ کر بیٹھتے اور کچھ کہنے لگتے تو ٹوک دیا جاتا، مہربانی کر کے اپنی قربانیوں کی داستان شروع نہ کر دینا، یہ اقتدار ہمیں تمہاری قربانیوں سے نہیں ملا، یہ امریکہ کی مہربانی سے ملا، جس کے لئے کونڈا لیزا رائس اور برطانوی وزرا نے باقاعدہ کوشش کی اور جس کے ضامن موجود ہیں، اس لئے اپنے احسان پاس ہی رکھیئے۔ خیر عہد زرداری پانچ سال بعد ختم ہوا۔ مئی تیرہ میں عام انتخابات ہوئے، جس میں پیپلزپارٹی جو ملک کی سب سے بڑی جماعت کہلاتی تھی، اسے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب سے اس کا صفایا ہوگیا۔ تمام وزرا اور مخدوم احمد محمود کے سوا بیشتر الیکٹ ایبلز بری طرح ہار گئے۔لاہور ، فیصل آباد اور سنٹرل پنجاب کے دیگر شہروں سے پارٹی امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوگئیں۔ کم وبیش یہی حال خیبر پختون خوا اور بلوچستان سے 
ہوا،جہاں پانچ سال پارٹی کی مخلوط صوبائی حکومت قائم رہی تھی، صرف سندھ میں الیکٹ ایبلز اور طاقتور روایتی گھرانوں کی مدد سے صوبائی حکومت بنائی جا سکی ۔ جو پارٹی پانچ سال قبل مرکز اور تین صوبوں میں صوبائی حکومت چلا رہی تھی، بلکہ کچھ دو ڈھائی سال پنجاب کی مخلوط حکومت میں بھی شریک رہی، اچانک ہی وہ پانی میں رکھی نمک کی ڈلی کی طرح تحلیل ہوگئی۔ وہ بھٹو ووٹ بینک ، جس کے بارے میں خیال تھا کہ کبھی نہیں ٹوٹے گا، اب سندھ کے سوا ملک بھر میںوہ ڈیفالٹ کر گیا۔ 
الیکشن کے اگلے روز اپنے اس دوست سے ملاقات ہوئی۔ چہرہ غصے سے تمتماتا ہوا، آنکھوں سے چنگاریاں برس رہی تھیں۔ اپنے لیڈروں کو صلواتیں سناتے ہوئے اعلان کرنے لگے کہ اب میرا اس پارٹی سے عملاً کوئی تعلق نہیں۔ کچھ دیر بعد ٹھنڈے ہوئے تو بے بسی سے بولے کہ کیا کریں ساری عمر تو اس کے ساتھ گزار دی، اب کسی اور جگہ کیسے جائیں، مگر ہماری اپنی قیادت نے بدترین کارکردگی سے پارٹی تباہ کر دی۔ بڑے قلق سے سنایا کہ ان کے اکلوتے بیٹے نے پیپلزپارٹی کے بجائے تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا اور اب وہ پرجوش انصافین ہے۔ کہنے لگے، ہمارے خاندان نے پچھلے چالیس برسوں سے پیپلز پارٹی کے سوا کسی کو ووٹ نہیں دیاتھا، مگر میرا بیٹا میری پارٹی کا نام نہیں لینا چاہتا، الیکشن ڈے پر میرے اٹھنے سے پہلے وہ اپنی ماں کو ساتھ لے جا کر اس سے بھی تحریک انصاف کے حق میں ووٹ ڈلوا آیا۔ ایک بیٹی نے البتہ تیر کے نشان کے ساتھ وفاداری نبھائی۔ہمارے دوست کا غم وغصہ پچھلے تین برسوں میں کچھ کم ہوچکا ہے۔ شروع میں تو وہ بڑے تیکھے تبصرے کرتے رہتے۔ زرداری صاحب لاہور بلاول ہائوس آئے، مقامی تنظیم نے دوسرے کارکنوں کے ساتھ انہیں بھی آنے کی ترغیب دی۔ صاف انکار کر دیا۔انہی دنوں میری فون پر بات ہوئی تو کڑوے لہجے میں بولے، پانچ سال یہ سب لوٹ مار کرتے رہے، کارکن یاد نہیں آئے، اب جب مشکل وقت آیا ہے تو پھر کارکن یاد آگئے ۔ بلاول پچھلی بار لاہور آئے ، تب بھی یہ بلاول ہائوس نہیں گئے۔ کہنے لگے کہ اگر گیا تو کوئی نئی مصیبت گلے پڑ جائے گی، فلاں کام کرو ، یہ کرو، وہ کرو۔ کیا ہم لوگ صرف قربانی دینے کے لئے رہ گئے ہیں؟
اپنے ان دوست میں اور بعض دوسرے پارٹی کارکنوں میںایک بات البتہ میں نے نوٹ کی کہ جس طرح جماعت اسلامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جماعت چھوڑ بھی جائے تو جماعت اس کے اندر سے نہیں جاتی، اسی طرح پیپلزپارٹی چھوڑ جانے والوں کے اندر بھی پیپلزپارٹی سے وابستگی کے برسوں کے نشانات کہیں نہ کہیں رہ جاتے ہیں۔ خاص کر جو پارٹی محبت میں جیالے پن کی حد تک پہنچے تھے ، ان کے سانسوں میں آ ج بھی بھٹو 
کے نام کی مہک موجود ہے،دل ودماغ اس سحر سے آزاد نہیں ہوئے۔ یہ تبدیلی آئی ہے کہ پارٹی کی موجودہ قیادت کو وہ بھٹو لیگیسی یا بھٹو کے سیاسی ورثے کا وارث نہیں سمجھتے۔ اندر ہی اندر وہ کہیں مان چکے ہیں کہ بی بی کے ساتھ لیاقت باغ میں پارٹی کی روح بھی رخصت ہوگئی ۔ جنرل ضیاء کے ساتھ ان کی نفرت کی حد تک پہنچی بیزاری مگرآج بھی تازہ ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے لئے وہ نرم گوشہ نہیں رکھتے ۔ایجنسیوں کے آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے کردار کو یہ سراہتے ہیں، مگر انداز یہی ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ کی توقع ہم سے نہ رکھیئے۔میاں نواز شریف کو یہ لوگ جنرل ضیاء کی باقیات سمجھتے اورمسلم لیگ کی جانب سے نوے کے عشرے میں پیپلزپارٹی کے خلاف چلائی گئی زہریلی مہم اور مختلف حربے یہ بھلا نہیں پائے ۔ پیپلزپارٹی کا پرانا کارکن اپنی فطرت اور ہیئت میں بنیادی طور پر اینٹی ضیاء اور اسی طرح اینٹی نواز شریف ہے۔ اسی لئے پارٹی قیادت کی جانب سے فرینڈلی اپوزیشن کی پالیسی ایک عام کارکن میں مزید فرسٹریشن اور ناپسندیدگی پیدا کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی پنجاب کی قیادت میں ہونے والی حالیہ تبدیلی خوشگوار ہے۔ قمرالزماں کائرہ کا امیج بہتر ہے، وہ کارکنوں کے لئے بھی قابل قبول ہیں۔ یہ سوچنا اور کہنا مگر بھولپن ہوگا کہ اس طریقے سے پیپلزپارٹی کا احیا ء ممکن ہو سکے گا۔ پارٹی کارکنوں اور روٹھے ہوئے ووٹ بینک کو واپس لانے کے لئے پارٹی کو اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمارے دوست اور ان کی طرح کے ہزاروں ، لاکھوں کارکن، ووٹرز کے دلوں کو دوبارہ جیتنے ، ان میں وہ جذبہ پھونکنے کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، بہت کچھ۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ کیا نوجوان بلاول اپنا کرشمہ دکھا پائے گا؟ اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں