نوجوان بلاول سیاسی کرشمہ دکھا پائیں گے؟

پیپلزپارٹی کے سیاسی احیائ(Revival) کے حوالے سے پچھلی نشست میں کچھ باتیں عرض کیں۔بنیادی نکتہ اس میں یہ تھا کہ پیپلز پارٹی کاکارکن اور ووٹر اس سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں روٹھ چکا ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ 2008ء سے 2013ء کے پانچ برسوںکے حکومتی دور میں ڈیلیور نہ کرنا، بدترین گورننس کی مثال قائم کرنا اور پارٹی کارکنوں کو بے رحمی سے نظرانداز کرنا ہے۔پاکستان میں کسی بھی حکومت کی کارکردگی مثالی یا بہت عمدہ نہیں رہی، مگر سیاسی جماعتیں حکومت میں آ کر کچھ نہ کچھ اپنا بھرم رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔جو شان ِ بے نیازی اور بے اعتنائی جناب زرداری کے زیرقیادت حکومت نے دکھائی، اس کی مثال پاکستانی تاریخ میں نہیں ملتی۔یوں لگتا تھا جیسے وہ پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کو اپنا خاندانی حق سمجھتے ہیں کہ حکومت جو بھی کرے، ووٹر ہمیں ہی ووٹ دینے کا پابند ہے۔ سیاسی جماعتیںایسی غلطی کریں تو انہیں اس کی سزا ملتے دیر نہیں لگتی۔ سندھ میں پیپلزپارٹی البتہ خوش نصیب ہے ،وہاں ووٹر کے پاس دوسری آپشن موجود نہیں۔ ۔پیپلزپارٹی کی دوسری بڑی غلطی مسلم لیگ ن اور شریف خاندان کے ساتھ سیاسی مفاہمت ہے۔ پیپلزپارٹی کا ووٹر اپنی فطرت میں اینٹی ضیا اور اینٹی نوازشریف ہے۔ زرداری صاحب کے مک مکا ٹائپ مفاہمت کے سٹائل کو جیالے کبھی قبول نہیں کرسکے۔اس یوٹرن نے انہیں اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔یہی وجہ ہے کہ مئی تیرہ کے انتخابات میں پارٹی کا اصل جیا لاکہیں نظر نہیں آیا۔ پی پی پی کے روایتی حامی ووٹر ز کا بڑا حلقہ دلبرداشتہ ہو کرتحریک انصاف کی طرف چلا گیا، جو پنجاب میں مسلم لیگ ن کو میدان میں کھڑے ہو کر للکار رہی تھی۔ 
سوال وہی ہے کہ کیا پیپلزپارٹی اگلے انتخابات میں کم بیک کر سکتی ہے؟ سندھ میں تو خیر اس کی حکومت کا تسلسل ہے ، امکانات یہی ہیں کہ کم وبیش یہی نتائج وہاں آئیں گے۔ اس لئے سوال پنجاب کا ہے۔ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت لگتا ہے اس حوالے سے پرا مید ہے۔ بلاول بھٹوپچھلے سال ڈیڑھ سے خاصے متحرک ہیں۔ زرداری صاحب کے قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ پارٹی اگلے انتخابات میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم سے خاصی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ پارٹی قیادت کا خیال ہے کہ بھٹو کا نواسا بلاول پارٹی کے روٹھے رہنمائوں، کارکنوں اورووٹرز کو واپس کھینچ لائے گا۔ کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے ، کیا بلاول کرشمہ دکھا پائے گا؟
پہلی نظر میں دیکھا جائے تو بلاول کے پاس کئی مثبت پوائنٹس موجود ہیں۔ وہ نوجوان ہیں۔ پاکستان کے تمام نمایاں جماعتوں کی قیادت بلاول کی دگنی عمر کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ عمران خان جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے نوجوانوں کو متحرک کر کے اپنی پارٹی کے ساتھ چلنے پر آمادہ کیا، وہ بھی بلاول سے کم از کم تیس سال بڑے ہیں۔ بلاول ایک خوبصورت، وجیہہ ، سافٹ امیج رکھنے والے نوجوان ہیں۔ آکسفورڈ جیسے عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں،خالص برطانوی لہجے میں وہ روانی سے انگریزی بولتے ہیں، پاکستانی سٹینڈرڈ سے بلاول کو اضافی پانچ نمبر ملتے ہیں۔ہمارے ملک میں اچھی انگریزی بولنا قابلیت اور صلاحیت کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔بلاول پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں، اس اعتبار سے وہ مسٹر کلین ہیں۔اپنی ماں کے بے رحمانہ قتل اور نانا کی مظلومانہ موت کے سوگوار سائے ان کے ساتھ ہیں۔ بلاول کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں۔ عمران خان اگر اگلا الیکشن ہار گئے تو پھر ان کے لئے دو ہزار تئیس میں کم بیک کرنا آسان نہیں ہوگا، تب وہ ستر سال کے ہوجائیں گے، میاں نواز شریف کی مٹھی سے بھی عمر کی ریت پھسلتی جا رہی ہے۔ بلاول کا کوئی ایشو نہیں، وہ آسانی سے انتظار کر سکتے ہیں۔ 
ان تمام مثبت پوائنٹس کے ساتھ ایک ایسا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے، جوان کے تمام تر مثبت پوائنٹس کو منفی کر دیتا ہے۔ وہ ہے جناب زرداری کی طرز سیاست اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومتی کارکردگی ۔ یہ ایک ایسا بوجھ ہے، جو اچھے بھلے تجربہ کار سوا ر کو بھی ناکارہ کر سکتاہے، بلاول تو خیر ابھی نوآموز سیاستدان ہیں۔ ؎
میرے کاندھوں پہ دھرا ہے کوئی ہارا ہوا عشق 
یہی گٹھڑی ہے جو مدت سے اٹھائی ہوئی ہے
بلاول بھٹو زرداری کوایک اور بوجھ بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔ وہ ہے ذوالفقار علی بھٹو جیسا نظر آنے کا جنون۔ پیپلزپارٹی کی قیادت شائد یہ سمجھتی ہے کہ بھٹو کا نواسا اگر بھٹو کے انداز میں تقریریں کرے گا تو پارٹی کے پرانے کارکن اور ووٹر دوبارہ بھٹو سحر کا شکار ہو کر پلٹ آئیں گے۔نقل کبھی اصل جیسی نہیں ہوسکتی۔ بھٹو صاحب کی اپنی ایک خاص شخصیت تھی۔ وہ ایک بڑے وڈیرے کے بیٹے تھے۔ شاہانہ جاہ وجلال کے مالک ، سندھ کے دیگر بڑے وڈیروں کی طرح ان کے اندر بھی ایک خاص قسم کی تمکنت، نخوت، رعب اور جلال تھا۔بھٹو صاحب کی والدہ ایک غریب خاتون تھیں، ماں سے انہیں محبت تھی اورعام آدمی کے درد کو وہ 
جانتے ، پہچانتے تھے ۔ وڈیرے باپ اور غریب ماں کے امتزاج نے ایک خاص قسم کے بھٹو کی تشکیل کی تھی۔اپنی شناخت بنانے کا انہیں جنون تھا،پاکستان کے روایتی سیاستدانوں میں سے ابھر کر وہ نمایاں ہوئے۔ ایک خاص قسم کا احساس برتری اور خبط عظمت کی جھلک بھی ان کی شخصیت میں تھی۔وہ صاحب مطالعہ تھے، بلا کے ذہین، غیرمعمولی یاداشت کے حامل اور نہایت بیدار مغز، چند منٹوں میں مقابل کی شخصیت کو پڑھ لیناجس کا خاصہ تھا، کسی کے ساتھ دو منٹ بات کی ہوتی، برسوں بعد اسے دیکھتے تو نام لے کر پکارتے اور پرانی ملاقات کی یاد تازہ کر دیتے۔ پاکستانی سیاست کو انہوں نے الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔بھٹو کی تقریر میں غیرمعمولی جوش وخروش تھا۔ یہ ان کے اندر جلتے بھانبھڑ کی تپش تھی۔قمیص کی آستینیں چڑھا لینا، اونچی آواز سے پرجوش تقریریں، مخالفیں کا تمسخر اڑانا، ان کے نام رکھنا،... یہ سب بھٹو کا نیچرل سٹائل تھا۔ عام آدمی کو انہوں نے مسخر کر دیا، لوئر مڈل کلاس اور لوئر کلاس کی بڑی تعداد پر انہوں نے فسوں پھونک دیا۔ بھٹو جلدی میں تھے، کم وقت میں وہ بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ اطلالوی صحافی اوریانا فلاسی کو انٹرویو میں کہا،'' بھٹو خاندان کے مردوں کی عمر زیادہ نہیںہوتی، اس لئے میرے پاس وقت کم ہے، میں جلد سے جلد سب کچھ کر لینا چاہتا ہوں۔‘‘ 
نوجوان بلاول کو مگر کیوں خواہ مخواہ بھٹو بنانے کی کوشش ہو رہی ہے؟ وہ ایک نرم خو، کومل شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے اندر بھٹو کی سختی، کرختی، درشتی، عجلت اور ویسی آگ موجود نہیں۔ بھٹو کے انداز میںبلاول کی تقریر سو فیصد مصنوعی اورایک بھونڈی سی نقالی لگتی ہے۔جس طرح وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر بولتے ہیں، اس سے ان کی پیروڈی کرنے والے بھانڈوں کو تو آسانی ہوئی ،کوئی اور متاثر نہیں ہوسکا۔ بلاول مغرب کے تعلیم یافتہ، جدید ٹرینڈز کو سمجھنے والے نوجوان ہیں، جس پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں۔انہیں اپنے نیچرل سٹائل ہی سے بات کرنی چاہیے۔مغرب میں وہ پلے بڑھے ہیں، وہاں کے مضبوط سسٹم کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ انہیں پاکستان میں ریفارمز لانے کی بات کرنا چاہیے۔ تعلیم، صحت، صاف پانی، روزگار کی فراہمی، طاقتور طبقات پر ٹیکسز، استحصالی قوتوں کا احتساب... ان سب پر بلاول بات کریں۔ عوام کے لئے اپنے پلان بنائیں، اسے لوگوں سے شیئر کریں۔ بتائیں کہ ایک عام آدمی کے دکھ کے زمانے گئے، اسے وہ ریلیف دلائیں اور اس ظالمانہ نظام کو تبدیل کریں گے۔بلاول کا روایتی سیاست سے کوئی رشتہ ناتہ نہیں۔ تھانہ کچہری کی سیاست ان کی مجبوری نہیں۔ الیکٹ ایبلز کو اگر ضروری سمجھتے ہیں تو ساتھ لے کر چلیں، مگر نظام میں جوہری تبدیلی کی بات کریں۔ ان کی بات سنی جائے گی۔ پاکستانی یوتھ کواپنے جیسے ،باہر کے پڑھے لکھے،جدید ڈکشن میں بات کرنے والے نوجوان کی بات میں لازمی کشش محسوس ہوگی۔بلاول ایک لبرل شخص ہیں۔ پاکستان میں لبرل، سیکولر اور ترقی پسند طبقات کے لئے کوئی قومی جماعت موجود نہیں۔ بلاول کی پیپلزپارٹی اس خلا کو پر کر سکتی ہے۔لیفٹ اور لبرل لیفٹ کے ساتھ اگر وہ اپنے اصلاحات کے ایجنڈے کو اچھے طریقے سے سمجھا سکیں تو رائٹ آف سنٹر کے کچھ ووٹر بھی ان کی طرف جا سکتے ہیں۔ سندھی ووٹ بینک انہیں ورثے میں ملا ہے ۔پنجاب میں ان کے جیالے دوبارہ ان کی طرف پلٹ سکتے ہیں۔ نوجوان بلاول میں کرشمہ دکھانے کا پوٹینشل توموجود ہے، مگر جناب زرداری کی زیرقیادت وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ زرداری بوجھ ان کی کمر توڑ دے گا۔ وہ ایک ایسا تیر ثابت ہوں گے ، جس کی نوک ترکش ہی میں ٹوٹ کر مڑ گئی۔افسوس کہ معاملات اسی طرف جا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں