تبدیلی

پاکستان کے قومی منظرنامے پر ایک اہم تبدیلی آچکی ہے۔ ہمارے ہاں عام انتخابات میں کسی جماعت کا جیتنا اور وزیراعظم کاچنائو جس قدر اہم ہے، کم وبیش اسی قدر اہم نئے آرمی چیف کا انتخاب ہے۔یہ مرحلہ بیت چکا،آرمی چیف کی چھڑی جنرل راحیل شریف سے جنرل قمر باجوہ کو منتقل ہوگئی، اگلے تین برسوں تک نئے چیف کو اپنی زندگی کی اہم اور حساس ترین ذمہ داری نبھانا پڑے گی۔ جنرل راحیل شریف اپنی اننگز کھیل کر میدان سے رخصت ہوگئے۔ جس بے پناہ دبائو ، تنائو اور احساس ذمہ داری سے پاکستان کے آرمی چیف کو گزرنا پڑتا ہے، سبکدوش ہونے کے بعد یقیناً ایک آسودگی اور ریلیکس ہونے کا احساس انہیں ملا ہوگا۔ 
جنرل راحیل کی شخصیت دیکھنے میں طاقت اور توانائی کا مرقع لگتی ہے۔ایسے شخص کے لئے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض گالف کھیلنا ، کتابیں پڑھنا اور لوپروفائل زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا۔ جنرل کیانی نے البتہ ایسا کر دکھایا۔ پچھلے تین برسوں میں وہ میڈیا پر تو خیر بالکل ہی نہیں آئے، پبلک تقریبات میں جانے سے بھی گریز ہی کرتے رہے۔ ایک دو مواقع ایسے آئے جب جنرل کیانی کو ان کے ایک آدھ سابق ساتھی نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس وقت لگا کہ شائد سابق آرمی چیف سامنے آکر جواب دیں گے، مگر وہ اس جواب درجواب کے قضیے میں نہیں الجھے، خاموشی سے کنارہ کش ہی رہے۔ ہمارے سامنے سابق آرمی چیفس کی مختلف مثالیں موجود ہیں۔جنرل مرزا اسلم بیگ جنہیں میڈیا میں نمایاں ہونا ازحد مرغوب ہے۔ برسوں تک کوئی اہم تنازع انہوں نے ضائع نہیں جانے دیا، ہر موقعہ پر اپنابیان جاری کر دیتے، جو اکثر متنازع ہوتا۔ حتیٰ کہ میڈیا کے بڑے حصے نے تکرار کے باعث جنرل بیگ کی کہی باتوں کی اہمیت دینا ہی چھوڑ دیا۔جنرل وحید کاکڑ کا رویہ اس کے برعکس بڑاباوقار رہا۔ انہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے مدت ملازمت میںایک سال کی توسیع کی پیش کش کی ، مگر جنرل کاکڑ نے صاف انکار کر دیا۔ ریٹائر ہونے کے بعد وہ برسوں تک گوشہ نشیں رہے، ہر قسم کے تنازعات سے دور ۔پچھلے سال ڈیڑھ سے البتہ وہ پبلک میں آنے لگے ہیں۔جنرل جہانگیر کرامت اپنی مدت ملازمت مکمل نہ کر سکے اور استعفا دینا پڑ گیا۔جلد ہی وہ امریکہ کے ایک تھنک ٹینک سے وابستہ ہوگئے۔ بہت سوں کو اس پر صدمہ بھی ہوا کہ ہمارے سابق آرمی چیف کو امریکیوں کے تھنک ٹینک کی ملازمت اختیار کرنے کی ضرورت کیوں آ ن پڑی۔ جنرل راحیل شریف کے حوالے سے کچھ عرصہ قبل یہ خبر اخبارات میں آئی تھی کہ وہ سعودی عرب کے دفاعی اتحاد میں کوئی ذمہ داری قبول کرلیں گے، بعد میں تردید ہوگئی۔دیکھیں جنرل راحیل اپنے پیش رو سابق چیفس میں سے کسی کو فالو کریں گے ؟کاش کہ ہم اپنے ان تجربہ کار ریٹائر فوجی افسران سے کام لینے کا کوئی گریس فل طریقہ وضع کر پائیں۔ اس حوالے سے اعلیٰ سطحی تھنک ٹینک بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ آرمی چیف کی سطح کے شخص کو جس غیرمعمولی ایکسپوژر سے واسطہ پڑتا ہے، اپنے تجربات کی بنا پر وہ حکومتوں کو غیر رسمی مشاورت دے سکتا ہے ۔ جنرل کاکڑ ، جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف جیسے فوجی اور اسی طرز پر بعض غیر معمولی سول افسران، سابق ڈپلومیٹس، معاشی ماہرین وغیرہ کو سہولتیں دی جائیں، انہیں ریسرچرز فراہم کئے جائیں اور ریاست کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے تجاویز ، رپورٹس لی جائیں۔اس کا فائدہ ریاست ہی کو پہنچے گا۔
جنرل راحیل منظر سے رخصت ہوچکے ہیں، ان کا تین سالہ دور سب کے سامنے ہے۔اس پر مختلف تبصرے ، تجزیے آتے رہیں گے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ بعض لوگوں نے تنقید کرنے اور حساب چکانے میں خاصی عجلت سے کام لیا۔جنرل راحیل کی ملازمت کے آخری روز ایک معروف اینکر کا مضمون شائع ہوا، جس میں جنرل راحیل پر شدید تنقید کی گئی ۔ ایسی تنقید جس کا پانچ فیصد بھی پچھلے تین برسوں میں نظر نہیں آیا۔ سچ کی ایک قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے ، جو اسے وقعت ، اعتبار اور تقدس بخشتی ہے۔ شاعر عوام حبیب جالب نے کہا تھا ع 
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا کہنا
جالب جسے سچ سمجھتے تھے، اسے عین وقت پر ، نہایت جرات سے کہہ دیا۔ ان کا یہ مصرع اسی لئے لافانی ہوگیا۔قوت کے سرچشمے سے محروم، ریٹائر ہوجانے والے شخص پر جھپٹنا دلیری نہیں، بزدلی اور تھڑدلی کی علامت ہے۔اگر غیر متوازن تنقید ہی کرنی ہے تو چند دن بعد میں ہوسکتی تھی۔جس تحریر کا مقصد ایک خاص ''پیغام‘‘ دینا ہو،اسے مگر کیسے موخر کیا جاتا؟
جنرل اشفاق پرویز کیانی پر بھی بعض حوالوں سے غیر متوازن تنقید کی گئی۔ان میں کمزوریاں ہوں گی،کرپشن الزامات کی تو خیرتفتیش چل رہی ہے، جس کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے مگر بہرحال کئی عمدہ کام کیانی
صاحب نے کئے، جن کا کریڈٹ ملنا چاہیے تھا۔ باجوڑ ایجنسی سے جنوبی وزیرستان تک کے آپریشن جنرل کیانی ہی نے کئے، ان سے دہشت گرد کمزور ہی ہوئے۔ جنرل راحیل شریف کو البتہ آپریشن ضرب عضب کے حوالے سے بھرپور کریڈٹ دینا چاہیے ۔وہ ایک دبنگ شخص ہیں،دبنگ اور بھرپور طریقے سے انہوں نے اپنے ٹاسک نبھائے ۔ دہشت گردوں کا نیٹ ورک حقیقی معنوں میں ان کے دور میں توڑا گیا۔ میں ان تجزیہ کاروں سے قطعی طور پر اتفاق نہیں کرتا جو دہشت گردی کی اکا دکا کارروائی کو جواز بنا کر دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے بیانات کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ایسا کرنا علمی بددیانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے تحریک طالبا ن پاکستان ایک خوفناک عفریت کے طور پر نظر آ رہی تھی۔ شمالی وزیرستان جس کا گڑھ تھا، دیگرقبائلی ایجنسیوںمیں اس کا ٹھیک ٹھاک اثرونفوذ اور کراچی سمیت ملک بھر کے بیشتر شہری علاقوں میں مضبوط نیٹ ورک موجود تھا ۔ ان دنوں کے اخبار اٹھا کر دیکھ لیں۔ ننانوے فیصد تجزیہ نگار یہ کہتے تھے کہ اگر شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو اس کا خوفناک ردعمل سامنے آئے گا اور لاہور، پنڈی سمیت پنجاب کے اکثر شہروں میں لہو کی ندیاں بہہ جائیں گی، کراچی میں بھی بھاری نقصان کا خدشہ تھا۔ الحمداللہ آپریشن ضرب عضب کو غیرمعمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ تحریک طالبان پاکستان کا نیٹ ورک بری طرح تہس نہس کر دیا گیا۔ القاعدہ، پنجابی طالبان، لشکر جھنگوی سمیت دیگر کالعدم تنظیموں کا نہ صرف زور توڑ دیا گیا بلکہ ان کی دہشت اور سفاکی کا جو سکہ چل رہا تھا، وہ بھی یکسر الٹ گیا۔ فوجی جوانوں اور افسروں نے اپنی جانوں کی
قربانیاں دے کر یہ بظاہر ناممکن نظر آتا ٹاسک ممکن کر دکھایا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایسی بھیانک غلطیاں ہوئیں، جنہوں نے پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ جنرل راحیل شریف کو یہ کریڈٹ دینا چاہیے کہ ان کی زیر کمان پاک فوج نے قربانیاں دے کر اپنی ساکھ بحال کی بلکہ عوام کے دل جیت لئے ۔ کراچی میں سفاک ٹارگٹ کلرز کے گروپس سے نجات دلانے میں فورسز کا حصہ بہت اہم اور مرکزی ہے۔ اگرچہ سیاسی حکومت کو بھی اس کا کریڈ ٹ دینا چاہیے ، تاہم اگر فوجی قیادت اس حوالے سے یکسو اور پرعزم نہ ہوتی تو کراچی کو کبھی قاتلوں سے نجات نہیں دلائی جا سکتی تھی۔ آج بھی ہم ٹی وی چینلز پرہزاروں لوگوں کے قتل کے ذمہ دار شخص کی ڈکراتی ہوئی آواز سن رہے ہوتے۔ کراچی کے لئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، مہاجر قوم کی محرومیوں کو دور ہونا چاہیے، جب پشتون، سندھی ، بلوچ قوم پرست سیاست چل رہی ہے تو مہاجر قوم پر ست سیاست کا بھی پورا حق حاصل ملنا چاہیے ۔ کراچی انشااللہ اب دہشت گردوں ، ٹارگٹ کلرز اور بھتہ خوروں کے چنگل سے نکل گیا ہے۔ جن دو تین لوگوں کو اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے، سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ان میں سرفہرست ہیں۔ 
ان تین برسوں میں بعض چیزیں درست طریقے سے نہیں ہوئیں۔ بعض معاملات میں اوور پلے کیا گیا، ایک دو جگہوں پر ترجیحات درست نہیں تھیں۔دراصل ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا کریڈٹ اجتماعی طور پر دینا اورلینا چاہیے۔ کامیابیاں بھی سانجھی ہیں اور ناکامی یا وقتی جھٹکا کہیں لگا تو اس کی ذمہ داری بھی سب کو لینا ہوگی۔ سول اور ملٹری کے ایک صفحے پر ہونے کے بیانات اور ٹوئٹس وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں، جب اجتماعیت کی بات ہو گی تو ازخود سول اور ملٹری یک جان نظر آئیں گے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں